بنگلہ دیش میں انتخابات کے اعلان کے بعد محمد یونس کو نئی مشکلات کا سامنا

بی بی سی اردو  |  Jun 09, 2025

Getty Images

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات اگلے سال اپریل کے اوائل میں ہوں گے۔

تاہم بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور دیگر ہم خیال جماعتوں نے محمد یونس کے اس اعلان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

لیکن ان سیاسی جماعتوں کے اختلاقات اپنی جگہ تاہم فرض کریں کہ اگر تمام جماعتیں انتخابات کی تاریخوں کی حمایت بھی کر لیں تو سوال یہ ہے کہ عبوری حکومت کو انتخابات کرانے کے دوران کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہی نہیں بلکہ سیاسی اتفاق رائے کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آف انڈیا اتنے کم وقت میں انتخابی فہرستوں کو حتمی شکل دینے اور حلقہ بندیوں جیسے پیچیدہ کام کو انجام دے پائے گا۔

ڈاکٹر محمد یونس نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تاریخ کے سب سے زیادہ آزاد، منصفانہ، مسابقتی اور قابل اعتماد انتخابات کے انعقاد کے لیے وہ تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

تاہم انھوں نے جس وقت انتخابات کا اعلان کیا اس پر تنازعات سامنے آ رہے ہیں اور ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ کرتے وقت ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی رائے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

چیف ایڈوائزر کی سربراہی میں قومی اتفاق رائے کمیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر علی ریاض کہتے ہیں کہ اگر سیاسی جماعتیں تعاون جاری رکھیں تو آئندہ ماہ کے اندر جولائی کے چارٹر سمیت اصلاحاتی پروگراموں کو حتمی شکل دینا ممکن ہوگا۔

ڈاکٹر یونس نے اپنی تقریر میں کہا کہ جولائی کے چارٹر کے مطابق فوری اصلاحاتی کاموں پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ وہ باقی ضروری کاموں پر بھی پیش رفت جاری رکھیں گے۔

چیلنجز کیا ہیں؟ Getty Imagesبنگلہ دیش میں انتخابات کتنے آزادانہ ہوں گے؟ اس پرماہرین کی جانب سے سوالات اٹھ رہے ہیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کے لیےاس وقت سب سے بڑا چیلنج تمام جماعتوں کو متحد کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اعتماد کی فضا پیدا کرنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے مثلاً شیخ حسینہ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کے مقدمات میں منصفانہ ٹرائل۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت منصفانہ انتخابات اور مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے ماحول پیدا کر سکتی ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے سامنے بہت سے چیلنجز ہوں گے جیسے امن و امان قائم کرنا، پولیس سمیت مختلف اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کے قابل بنانا، غیر متنازع انتخابی فہرستیں بنانا، پرانے یا نئے قانون کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنا۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا نئے قانون کی بنیاد پر اتنے مشکل کام اتنے کم وقت میں کرنا ممکن ہے؟

ڈھاکہ یونیورسٹی کی پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار زبیدہ نسرین کہتی ہیں کہ حکومت کے لیے اصل چیلنج یہ اعتماد حاصل کرنا ہوگا کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے منصفانہ اور جامع انتخابات کروانا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سیاسی میدان میں ایک یا دو پارٹیوں کےمطابق ان کے ’متعصبانہ رویے‘ پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا چکے ہیں۔ اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو امن و امان اور انتخابات پر مبنی اداروں کے آزادانہ طور پر کام کرنا ایک اور بڑا چیلنج ہوگا۔

بی این پی پہلے ہی حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا چکی ہے اور دونوں مشیروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے پر بضد ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی (بنگلہ دیشی سیاسی جماعت) کے امیر شفیق الرحمان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی ہوسکتی ہے۔

سنیچر کے روز مولوی بازار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کوئی ایسا الیکشن نہیں چاہتا جو افراتفری کا شکار ہو۔

خدشات کا اظہارGetty Images

تجزیہ کار اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد سیف العالم چوہدری نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ حکومت اب تک امن و امان کی صورتحال پرقابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

ڈاکٹر یونس کے لیے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک میں انتخابات منصفانہ انداز میں منعقد کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرسکیں۔

پروفیسر محمد سیف نے کہا کہ ’نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کو ووٹنگ میں دھاندلی کا شبہ ہے۔ ان کا الزام ہے کہ انتظامیہ بی این پی چلا رہی ہے۔ بی این پی کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے۔ لہٰذا حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ مساوی مواقع کیسے فراہم کیے جائیں۔‘

یاد رہے کہ ڈاکٹر یونس نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اصلاحات، انصاف اور انتخابات کے تین مینڈیٹ کی بنیاد پر عہدہ سنبھالا ہے۔

پروفیسر محمد سیف کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہم آئندہ عید الفطر تک اصلاحات اور انصاف کے حوالے سے ایک قابل قبول مقام پر پہنچ جائیں گے۔ ہم واضح پیش رفت دیکھ سکیں گے، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات کے سلسلے میں، جو جولائی2024 کی بغاوت کے شہدا کے لیے ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔‘

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت گذشتہ 11 ماہ میں اصلاحات کے معاملے پر کچھ کربھی پائی ہے؟

بہت سے لوگ اس بات سے بھی فکرمند ہیں کہ اگر جولائی کے چارٹر کا اعلان کیا جاتا ہے اور اصلاحاتی پروگرام پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو اگلے آٹھ مہینوں میں انتخابات کے انعقاد کا سب سے بڑا چیلنج کتنا اہم ہو جائے گا۔

شیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بنادباؤ یا ’دھمکی‘، بنگلہ دیش کے سربراہ محمد یونس ’استعفیٰ‘ دینے کا کیوں سوچ رہے ہیں؟بنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںبنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟

یاد رہے کہ گذشتہ سال جولائی میں عوامی لیگ کی حکومت اور اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد آنے والی عبوری حکومت نے جولائی کے چارٹر کے تحت ملک بھر میں اصلاحات کا سلسلہ نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم پروفیسر علی ریاض کہتے ہیں کہ ’اگر سیاسی جماعتوں کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو جولائی کے چارٹر سمیت دیگر اصلاحات پر عمل درآمد کو حتمی شکل دی جائے گی۔‘

انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’اب بھی کچھ معاملات ایسے ہوں گے جن پر فطری طور پر ہر کوئی متفق نہیں ہوگا۔ ہم ان مسائل کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں گے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اگلے 10 ماہ میں اصلاحات کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

سیف العالم چودھری نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ تیار کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ لیکن موجودہ الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پایا ہے۔

تاہم الیکشن کمشنر عبدالرحمٰن کے ترجمان نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’کمیشن چیف ایڈوائزر کے اعلان میں دی گئی مدت کے اندر اپریل 2026 میں عام انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔‘

عوامی لیگ اور شمولیت کا چیلنجGetty Images

حال ہی میں ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کے نمائندے گوین لیوس نے کہا تھا کہ ’جامع انتخابات کا مطلب صرف جماعتوں کی نہیں بلکہ تمام ووٹرز کی شرکت ہے۔‘

یعنی ہر سطح پر رائے دہندگان کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

تاہم بنگلہ دیش میں اب بھی عوامی لیگ کے حامیوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عبوری حکومت کے سامنے یہ بھی بڑا چیلینج ہے کہ عوامی لیگ کو پورے انتخابی عمل سے باہر رکھ کر ان انتخابات کو جامع کیسے بنایا جائے۔ یاد رہے کہ عوامی لیگ پر انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے۔

تجزیہ کار زبیدہ نسرین کہتی ہیں کہ ’عوامی لیگ کے دور میں بھی بی این پی کو باہر رکھتے ہوئے انتخابات کرائے گئے۔ لیکن حتمی نتائج میں اگرچہ بین الاقوامی برادری نے انھیں قبول کیا لیکن عوام نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔‘

’اب حکومت نے ایک ایسی سیاسی جماعت پر پابندی لگا دی ہے جسے اب بھی عوام کی اچھی حمایت حاصل ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس آبادی کو انتخابی عمل سے باہر رکھ کر قابل قبول انتخابات کو کیسے یقینی بنایا جائے۔‘

دوسری جانب سیف العالم چوہدری بھی کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کے حامیوں کی حمایت کے بغیر یہ انتخابات کیسے ہوں گے یہ بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ووٹروں کے ایک بڑے حصے اور ان کی پارٹیوں کو باہر رکھ کر انتخابات کو جشن میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟بنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںشیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بناانڈیا کی زمینی راستے سے آنے والے بنگلہ دیشی سامان پر پابندی مگر ’نقصان دونوں کو ہو گا‘انڈیا کی زمینی راستے سے آنے والے بنگلہ دیشی سامان پر پابندی مگر ’نقصان دونوں کو ہو گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More