Getty Images
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے سنیچر کو یہخبر نشر کی ہے کہ ایران نے ’ایک بڑی انٹیلیجنس سٹرائیک‘ کے ذریعے اسرائیل کی حساس جوہری دستاویزات حاصل کر لی ہیں۔ اس خبر میں یہ تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں کہ ایران نے ان دستاویزات تک رسائی کیسے حاصل کی ہے۔
سرکاری ٹی وی پر مختصراً یہ خبر نشر ہوئی کہ ’ایرانی انٹیلیجنس سروسز نے سٹریٹیجک اور حساس معلومات اور دستاویزات حاصل کی ہیں، جن میں اس (اسرائیل) کے جوہری منصوبوں اور تنصیبات سے متعلق ہزاروں دستاویزات بھی شامل ہیں۔‘
اسرائیل نے ابھی تک اس ایرانی دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ایرانی خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق ایرانی انٹیلیجنس وزیر حجت الاسلام سید اسماعیل خطیب نے کہا کہ ’اسرائیل کی جوہری دستاویزات ایران منتقل کر دی گئی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے جو دستاویزات صیہونی حکومت سے حاصل کی ہیں وہ اس کے جوہری پروگرام سے متعلق ہیں اور ان میں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک کے بارے میں بھی بہت معلومات ہیں۔‘
یہ خبر ایک ایسے وقت پر نشر ہوئی ہے جب ایران کے جوہری پروگرام پر بات ہو رہی ہے اور اسرائیل اسے اپنے لیے ایک حقیقی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکہ ایران پر جوہری معاہدے کے لیے دباؤ بھی بڑھا رہا ہے۔
رواں برس مارچ کے دوران بی بی سی کے امریکہ میں شراکت دار ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق این ایک انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (ایرانی حکام) معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہو گی اور بمباری بھی ایسی جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔‘
اس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو سخت جواب دیا جائے گا۔
Getty Images
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا 'امریکہ اور اسرائیل کی ہمیشہ سے ہم سے دشمنی رہی ہے۔ وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جو ہمیں زیادہ ممکنہ نہیں لگتا لیکن اگر انھوں نے کوئی شرارت کی تو انھیں یقیناً بھرپور جواب دیا جائے گا۔'
ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو بتایا تھا کہ انھوں نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
اگرچہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے مگر ماہرین اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کے اہم سٹریٹجک اتحادی ملک امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک ایران پر جوہری ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل مریانو گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری بم تیار کرنے سے ’دور نہیں‘ ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’ایران کے پاس فی الحال جوہری ہتھیار نہیں ہیں مگر اس کے پاس اس کے لیے ضروری خام مال موجود ہے۔‘
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایران کے پاس اب 60 فیصد افزودہ یورینیم کا بہت بڑا اور بڑھتا ہوا ذخیرہ موجود ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ایک حملے میں تباہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
ایران نے آئی اے ای اے سربراہ کی اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا کہ ’افزودگی کی سطح کی کوئی حد نہیں ہے۔‘
ایران کی وزارت خارجہ اور ایٹمی توانائی کی تنظیم نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس رپورٹ کی اشاعت پر افسوس کا اظہار کیا گیا، جسے انھوں نے ’سیاسی بیان‘ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ تہران نے بارہا کسی غیر اعلانیہ جوہری سائٹ یا سرگرمیوں کی عدم موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
حساس دستاویزات تک رسائی کا دعویٰ
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق ’ایرانی انٹیلیجنس سروس نے مقبوضہ علاقوں سے بڑی مقدار میں سٹریٹجک اور حساس معلومات اور دستاویزات بشمول جوہری منصوبوں اور تنصیبات کو منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘
ایجنسی نے اس آپریشن کو اسرائیل کے خلاف تاریخ کا ’سب سے بڑا انٹیلیجنس حملہ‘ قرار دیا ہے۔
ایران کبھی کبھار جاسوسی کے الزام میں افراد کی گرفتاری کا اعلان کرتا ہے اور اسرائیل پر الزام عائد کرتا ہے کہ ’ٹارگٹڈ قتل یا تخریب کاری کی کارروائیاں اس کے جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔‘
اس کے برعکس مئی 2025 میں اسرائیل نے دو افراد کو مبینہ طور پر ایران کی جانب سے انٹیلیجنس اکٹھا کرنے کے مشن کو انجام دینے کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے نے باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’جو چیزیں حاصل کی گئی ہیں ان میں اسرائیل کے جوہری منصوبوں اور تنصیبات سے متعلق ہزاروں دستاویزات بھی شامل ہیں۔‘
خبر کے مطابق یہ کارروائی کچھ عرصہ قبل کی گئی تھی لیکن دستاویزات کے بڑے حجم اور پوری کھیپ کو محفوظ طریقے سے ایران منتقل کرنے کی ضرورت کی وجہ سے یہ اس آپریشن کو خفیہ رکھا گیا۔
ذرائع نے تصدیق کی کہ دستاویزات کی بڑی کھیپ مکمل طور پر ’مطلوبہ محفوظ‘ مقامات پر پہنچائی جائیں گی۔ ان کے مطابق یہ اتنی زیادہ دستاویزات ہیں کہ صرف ان کا جائزہ لینے اور ان دستاویزات میں موجود تصاویر اور کلپس کو دیکھنے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف فوجی حملے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت سویلین جوہری توانائی، خاص طور پر بجلی کی پیداوار کے لیے اپنے حق پر اصرار کرتا ہے جس کا وہ دستخط کنندہ ہے۔
دونوں ممالک میں گذشتہ برس کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب ایران نے دو بار براہ راست اسرائیلی علاقے پر سینکڑوں میزائلوں یا ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے شام میں اس کے قونصل خانے پر ہونے والے مہلک اسرائیلی حملوں کا مناسب جواب تھا۔
تہران نے اپنی سرزمین پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل اور اتحادی حزب اللہ کے سابق سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
ایران ان دونوں رہنماؤں کے قتل کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتا ہے۔ اسرائیل نے حسن نصراللہ کو ایک فضائی حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
موساد آپریشن
سنہ 2018 میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے اندر ایک خفیہ آپریشن کیا، جس میں تہران کے ایک گودام کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایرانی جوہری پروگرام کے آرکائیوز موجود تھے۔
موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن کے مطابق اس آپریشن کے لیے دو برس تک منصوبہ بندی کی گئی اور اس میں 20 ایجنٹس شامل تھے، تمام غیر اسرائیلی، جو ایک ہی رات میں 32 سٹیل کے ’سیف‘ کھولنے اور نصف ٹن دستاویزات اسرائیل پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق موساد نے صبح سویرے سکیورٹی گارڈز کے آنے سے قبل ساڑھ چھ گھنٹے کے دوران تقریباً 100,000 دستاویزات اور فائلیں چرائیں۔ ان چوری شدہ دستاویزات میں سی ڈیز پر ریکارڈ کردہ ڈیجیٹل فائلیں بھی شامل تھیں۔
اسرائیلی میڈیا ہاریٹز کے مطابق آپریشن فروری 2016 سے اس جگہ کی کڑی نگرانی کے بعد کیا گیا، جب ایرانیوں نے وہاں دستاویزات کی منتقلی شروع کر دی تھیں۔ اسرائیلی حکام نے محفوظ ’کریکنگ ٹریننگ‘ کے لیے اس ’فیسلٹی‘ کا ایک فرضی خاکہ تیار کیا اور آپریشن کا وقت آٹھ گھنٹے کر دیا۔
دستاویزات میں عماد پروگرام کے بارے میں تفصیلی معلومات کا انکشاف کیا گیا، جس میں خفیہ مقامات (جیسے ورامن اور ترقز آباد) جوہری وار ہیڈ کے ڈیزائن اور کور اپ آپریشنز کے بارے میں معلومات، اور زیر زمین افزودگی کی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے استعمال ہونے والی سرنگوں کے نقشے شامل ہیں۔
ہاریٹز کی خبر کے مطابق ان دستاویزات میں ایران کے آئی اے ای اے کو گمراہ کرنے اور اپنے ملازمین کو ثبوت مٹانے اور سرکاری دستاویزات کو غلط ثابت کرنے کی تربیت دینے کے خطرناک ثبوت موجود ہیں۔
اسرائیلی میڈیا اور سفارتی گواہوں کے مطابق 30 اپریل 2018 کو نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں اجلاس کے دوران یہ دستاویزات پیش کیں، جس میں ایران پر اپنے جوہری اہداف کے بارے میں جھوٹ بولنے کا الزام لگایا اور مزید بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
دستاویزات کی ایک مکمل کاپی انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور اہم عالمی اتحادیوں جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو فراہم کی گئی تھی۔
ایران نے ایسے کسی بھی آپریشن کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’یہ محض ’پرانی معلومات کو ری سائیکل کر رہا ہے۔‘ تاہم امریکہ اور اسرائیل کے مطابق ایران آئی اے ای اے کو دھوکے میں رکھ رہا ہے۔
Getty Imagesایک امریکی رپورٹ میں ’دیمونا‘ منصوبے کی تفصیلات سامنے آئیں
دسمبر 2024 میں خفیہ دستاویزات پر مبنی امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ سنہ 1960 کی دہائی سے جانتا تھا کہ اسرائیل دیمونا جوہری تحقیقی مرکز میں جوہری ہتھیاروں کے درجے کا پلوٹونیم تیار کر سکتا ہے۔
امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں دسمبر 1960 کی اٹامک انرجی انٹیلی جنس کمیٹی کی دستاویز شامل تھی جو کہ ’پہلی اور واحد معلوم رپورٹ ہے جس میں درست اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ دیمونا میں اسرائیلی منصوبے میں پلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ شامل ہوگا اور اسے ہتھیاروں کے پروگرام سے منسلک کیا جائے گا۔‘
رپورٹ میں کہا گیا کہ 1967 میں اس بات کے شواہد ملے تھے کہ ذیمونا ری پروسیسنگ پلانٹ مکمل یا مکمل ہونے کے قریب ہے اور ری ایکٹر پوری صلاحیت سے کام کر رہا ہے یعنی اسرائیل ’چھ سے آٹھ ہفتوں میں‘ جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان ’مثبت‘ بات چیت: متنازع ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں؟’میزائلوں کے ایندھن کی کھیپ‘: ایران کی سب سے اہم بندرگاہ پر دھماکہ جس نے کئی سوال کھڑے کیےجوہری توانائی ایجنسی کی پاکستان میں تابکاری کے اخراج کی تردید: انڈیا میں زیر گردش افواہوں کی حقیقت کیا ہے؟آذربائیجان اور اسرائیل کی سٹریٹجک شراکت داری جو محض ’تیل اور ہتھیاروں تک محدود نہیں‘
تاہم امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ان میں سے کچھ الزامات کو ’معتبر‘ قرار دیا اور اپریل 1967 میں اگلی معائنہ ٹیم پر زور دیا کہ وہ ان کی تحقیقات کرے۔
دستاویزات کے مطابق واشنگٹن پہلے ہی اس حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت موجود ہے۔
سنہ 1960 کی دہائی میں امریکہ کو تشویش تھی کہ اسرائیل جیسے ممالک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے اور ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سنہ 1969 تک غیر اعلانیہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ عدم پھیلاؤ کے مسئلے پر صدر رچرڈ نکسن اور وزیر اعظم گولڈا میئر ایک خفیہ دو طرفہ معاہدے تک پہنچے تھے، جس کے تحت واشنگٹن نے اسرائیل کو غیر اعلانیہ جوہری طاقت کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دی تھی۔
نکسن اور گولڈا میئر نے واضح طور پر اسرائیل کے جوہری پروگرام کا اعلان کیے بغیر یا ٹیسٹ کیے بغیر اسے خفیہ رکھنے پر اتفاق کیا۔
اسرائیل نے بھی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں مبہم انداز اختیار کرتے ہوئے ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی پر عمل کیا اور واشنگٹن نے اسرائیل کے سرکاری موقف کو قبول کیا کہ وہ خطے میں جوہری ہتھیاروں کو متعارف کرانے والا پہلا ملک نہیں ہوگا۔
امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق امریکی اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم جس نے 1966 میں دیمونا ری ایکٹر کا دورہ کیا تھا، نے دھوکہ دہی کے امکان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا اور اگرچہ ان کا خیال تھا کہ اس کا امکان نہیں تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
میگزین میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے پہلے ہی ہتھیاروں کے درجے کے پلوٹونیم کی پیداوار شروع کر دی تھی اور یہ کہ سنہ 1967 کی جنگ سے پہلے اس نے بڑے خطرے کے پیش نظر دو یا تین جوہری آلات جمع کیے تھے، جس سے اسے مؤثر طریقے سے جوہری صلاحیت کی حامل ریاست بنا دیا گیا تھا۔
مارچ 1967 میں ایک امریکی انٹیلیجنس رپورٹ جسے سی آئی اے نے رد کیا اشارہ دیا تھا کہ اسرائیل پلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ لگا رہا ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اگلے معائنہ کے دورے کے دوران اس نکتے پر عمل کیا جائے۔ لیکن دستاویزات کے مطابق اسی سال اپریل میں ہونے والے اس دورے میں کوئی نئی دریافت نہیں ہوئی۔
اسرائیل نے کبھی بھی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے، یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے عالمی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
جوہری توانائی ایجنسی کی پاکستان میں تابکاری کے اخراج کی تردید: انڈیا میں زیر گردش افواہوں کی حقیقت کیا ہے؟آذربائیجان اور اسرائیل کی سٹریٹجک شراکت داری جو محض ’تیل اور ہتھیاروں تک محدود نہیں‘ ایران کے کرائے کے قاتلوں کا بین الاقوامی نیٹ ورک جسے ایک سزا یافتہ مجرم چلا رہا ہے’میزائلوں کے ایندھن کی کھیپ‘: ایران کی سب سے اہم بندرگاہ پر دھماکہ جس نے کئی سوال کھڑے کیےایران اور امریکہ کے درمیان ’مثبت‘ بات چیت: متنازع ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیوں ہو رہے ہیں؟ٹرمپ کا ’ہمیشہ جاری رہنے والی جنگیں‘ نہ شروع کرنے کا وعدہ: کیا امریکی صدر ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک سکیں گے؟