بلوچستان میں مشتبہ افراد کو بنا وارنٹ حراستی مراکز میں رکھنے کا متنازع قانون: ’یہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنائے گا‘

بی بی سی اردو  |  Jun 08, 2025

Getty Images

بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کے نئے قانون کے تحت سکیورٹی سے متعلق اداروں کو مشتبہ افراد کو کسی وارنٹ کے بغیر گرفتاری کے اختیارات مل گئے ہیں۔

انسداد دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کے عنوان سے بلوچستان اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور ہونے والے اس بِل کے تحت گرفتار ہونے والے مشتبہ افراد کو 90 روز کے لیے حراست رکھا جا سکے گا اور ایسے افراد کے لیے حراستی مراکز قائم کیے جائیں گے۔

اگرچہ اسمبلی سے پاس ہونے والے اس مسودہ قانون کی کسی شق میں لاپتہ یا جبری گمشدہ افراد کا ذکر تو نہیں لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس قانون کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے نام پر ملک کے خلاف جو مسئلہ کھڑا کیا گیا، وہ اس قانون کے ذریعے حل ہو گا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف قرار دیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین نے اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ’لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مزید پیچیدہ ہو گا۔‘

بعض ماہرین نے اس قانون کو ’چینی ماڈل‘ قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چین پر بڑی تعداد میں اویغور مسلم کمیونٹی کے افراد کو حراستی مراکز میں منتقل کر کے ان کے سیاسی نظریے اور سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالے جانے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اس قانون کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ماورائے آئین و قانون اقدامات کو تحفظ دینے کے لیے یہ قانون لایا گیا۔

انسداد دہشت گردی کے قانون میں کیا ہے؟

انسداد دہشت گردی کا یہ قانون بلوچستان میں آئندہ چھ سال کے لیے نافذ العمل رہے گا جبکہ اس میں مزید دو سال کی توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

اس قانون کے تحت مجاز حکام تحقیقات کے لیے ایسے افراد کے 90 دن کے پروینٹو حراستی آرڈر جاری کر سکتے ہیں جن پر شک ہو کہ وہ مسلح فورسز، سول آرمڈ فورسز، بلوچستان کی سکیورٹی، دفاع پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں، بم دھماکوں، اہم تنصیبات کو نقصان پہنچانے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، اقلیتوں پر حملوں، لسانی بنیادوں پر قتل وغیرہ کے واقعات میں ملوث ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مجرموں کی معاونت اور سہولت کاری میں ملوث افراد سے تحقیقات کے لیے بھی حکام حراستی آرڈر جاری کر سکیں گے۔

ترمیمی مسودہ قانون کے تحت ایسے مشتبہ افراد کو بھی 90 دن کے لیے حراست میں رکھا جائے گا جن کے خلاف اس نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے کے بارے میں شکایات یا مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہوں۔

ایسے افراد سے تحقیقات پولیس کے ایس پی رینک کے آفیسر یا مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعے کروائی جائے گی۔

ایسے افراد کو حراستی مراکز میں رکھا جائے گا اور اگر وہ اس ایکٹ کے تحت شیڈولڈ جرائم میں ملوث پائے گئے تو انھیں مزید تفتیش کے لیے تحقیقاتی اداروں کے حوالے کیا جائے گا۔

زیر حراست افراد کے ’نفسیاتی اور نظریاتی مزاج‘ کا بھی جائزہ لیا جائے گا

ترمیمی مسودہ قانون کے تحت ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ یا وزیر اعلیٰ کی منظوری سے مجاز افسر کی سربراہی میں ایک اوور سائٹ بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو دو سویلین اور دو فوجی افسروں کے علاوہ ایک کریمنالوجسٹ اور ایک ماہر نفسیات پر مشتمل ہو گا۔

یہ بورڈ ہر زیر حراست فرد کے کیسز، نظریاتی مزاج، دماغی، جسمانی اور نفسیاتی حالت کا جائزہ لے گا۔ بورڈ ضرورت محسوس کرنے پر بعض افراد کو حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے حراستی مرکز میں منتقل کرنے کی سفارش کرے گا۔

یہ بورڈ ٹارچر اور انسانی تکریم کے خلاف سلوک کی شکایت کا نوٹس لے گا اور جہاں ضروری ہوا ٹارچر کے ذمہ دار افراد کے خلاف مناسب محکمانہ کاروائی کی سفارش کرے گا۔

محمد حنیف کا کالم: جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کا انوکھا حللاپتہ افراد کا معاملہ: ’اگر وزیر اعظم با اختیار نہیں تو کون بااختیار ہے؟‘بلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟کیا اس نئے قانون سے بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو گا؟BBCآئینی اور قانونی ماہرین نے اس قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مزید پیچیدہ ہو گا

اسمبلی میں منظوری سے قبل یہ مسودہ قانون محکمہ داخلہ سے متعلقہ کمیٹی میں بھیجا گیا تھا جہاں سے اس کی منظوری دی گئی۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں کافی عرصے سے لاپتہ افراد کا مسئلہ چل رہا ہے، یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اکثر اوقات سکیورٹی فورسز کارروائیاں کرتی ہیں اور کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اکثر لوگ خود روپوش ہو جاتے ہیں اور الزام سکیورٹی فورسز پر لگتا ہے کہ انھیں لاپتہ کر دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں کے خود سے روپوش ہونے کا الزام کم از کم اپنے اوپر نہیں لیں گے اور اگر سی ٹی ڈی یا کسی انٹیلیجینس ایجنسی نے کسی کو گرفتار کرنا ہوا تو اس کے لیے ایک حراستی مرکز بنائیں گے اور انھیں اس حراستی مرکز میں رکھیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان حراستی مراکز میں ان کے والدین کو ملاقات کرائیں گے اور ورثا کو معلوم ہوگا کہ ان کا بچہ کہاں پر ہے اور اسے باقاعدہ طور پر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس قانون میں یہ بھی تفصیل موجود ہے کہ کہ ہائیکورٹ کا جج یہ فیصلہ کرے گا کہ کسی کی حراست کی معیاد میں مزید کتنی توسیع کرنی ہے۔

مگر کیا اس نئے قانون سے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو گا؟ جب یہ سوال لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس سے قبل تحفظ پاکستان آرڈنینس کے نام سے ایک ایسا قانون لایا گیا تھا جس کے تحت اداروں کو لوگوں کو تین، چھ اور نو ماہ کے لیے زیر حراست رکھنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

’اس میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ جن لوگوں کو زیر حراست رکھا جائے گا ان کے رشتہ داروں کو آگاہ کیا جائے گا لیکن وہ آرڈینیس دو سال چلا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ یہ قانون اس لیے لایا گیا تاکہ لوگوں اور بین لاقوامی دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جا رہا ہے ’لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس قانون سے یہ مسئلہ حل ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اندیشہ ہے کہ اس قانون کے تحت کسی ثبوت کے بغیر شک کی بنیاد پر لوگوں کو اٹھا کر ان حراستی مراکز میں منتقل کیا جائے گا اور اپنے مقصد کے لیے بیانات لیے جائیں گے۔

لاپتہ افراد کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکیل عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے اس قانون کو آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 کے تحت فیئر ٹرائل کے بنیادی اور انسانی حق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر اس قانون سے لاپتہ افراد کامسئلہ حل نہیں بلکہ پیچیدہ ہو گا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کونسل کے رکن حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بظاہر حکومت جبری گمشدگیوں کے معاملے کو ایک قانونی کور دینا چاہتی ہے۔

’اس قانون میں یہ لکھا ہے کہ آپ کسی کو شک کی بنیاد پر اٹھا سکتے ہیں حالانکہ قانون میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی۔ قانون میں جو ملزم اور مجرم ہوتا ہے اس کو پکڑا جاتا ہے اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قانون سے جبری گمشدگیوں پر کوئی خاص فرق پڑے گا بلکہ اس قانون سے اداروں کے اختیارات بڑھ جائیں گے اور وہ شک کی بنیاد پر بھی لوگوں کو اٹھا کر لے جاسکیں گے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ قانون میں مجوزہ نگراں بورڈ، جس میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں، کو زیر حراست شخص کے نظریاتی اور نفسیاتی پروفائل کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا۔

عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے دعویٰ کیا کہ اب اس قانون کے تحت لوگوں کی سوچ اور نظریے کو بھی تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔

’یہ آئیڈیا انھوں نے چین سے لیا جہاں اویغور مسلمانوں کو زبردستی اٹھا کر سیلوں میں رکھا جاتا ہے اور پھر ان کی ’سوچ کی تبدیلی‘ پر کام کیا جاتا ہے۔‘

حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’طاقت کے زور سے کوئی کسی کی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتا مگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ لوگ برین واش ہوں اور سب لوگ ان کی مرضی کے مطابق ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں، جو ناممکن ہے۔‘

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بہت سارے کیسز ایسے سامنے آئے ہیں جس میں بہت سارے لوگوں نے ایسی مجبوریاں اور کچھ ایسی وجوہات بتائی ہیں جس میں ریاست یا بلوچستان حکومت کو یہ لگتا ہے کہ بعض ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے کچھ وجوہات کی بنیاد پر پہاڑوں کا رخ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو وہ اپنے معاملات کو درست کر سکتے ہیں تو یہ مراکز اس میں مددگار ثابت ہوں گے۔

ہیومن رائیٹس کمیشن نے بلوچستان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس قانون پر نظرثانی کرے۔

معروف آئینی اور قانونی ماہر اور سپریم کورٹ کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس قانون سے بہتری کی کوئی امید نہیں بلکہ اس کے ذریعے بلوچستان میں انسانی حقوق پر سمجھوتہ کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ اتنا اچھا قانون ہے تو اس کو صرف بلوچستان پر ہی کیوں مسلط کیا جا رہا ہے اور باقی صوبے اس سے کیوں مستفید نہیں ہو رہے ہیں۔

انھوں نے اس قانون کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔

حکومت کا مؤقف

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے سے لاپتہ افراد کا ایک مسئلہ کھڑا کیا گیا، جو ریاست اور بلوچستان حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس قانون کی مدد سے جبری گمشدگیوں اور خود روپوش ہونے کے معاملات کو الگ کرنے میں مدد ملے گی اور دوسرا لازمی سی بات ہے کہ یہ ایک ایشو ہے اس کو حل کرنے کے لیے حکومت کو ایک آپشن لینا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو صورتحال ہے اس میں سکیورٹی اداروں کو کچھ لوگوں کو گرفتار کرنا ہوتا ہے اور جب تک ان کی گرفتاری ظاہر نہیں ہوتی تو پھر لاپتہ افراد کا معاملہ چلتا ہے، تو اس کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ قانون لایا گیا۔

بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ہمسایہ ممالک، حکمت عملی اور بیانیے کی جنگ: پاکستان کو شدت پسندی کی نئی لہر کے خلاف پرانے چیلنجز کا سامنابلوچستان کے لاپتہ افراد: ’بھائی اور بھتیجے کی گمشدگی کا غم اتنا ہے کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘محمد حنیف کا کالم: جبری لاپتہ افراد کے مسئلے کا انوکھا حللاپتہ افراد کا معاملہ: ’اگر وزیر اعظم با اختیار نہیں تو کون بااختیار ہے؟‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More