امریکی ویزے پر پابندی: غیر ملکی طلبہ کن متبادل ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 01, 2025

Getty Imagesہارورڈ یونیورسٹی میں 27 مئی کو بین الاقوامی طلبہ کے حق میں احتجاج کیا گیا

دنیا بھر کے طلبہ میں اس اعلان کے بعد بے چینی پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں تعلیم کے خواہشمند افراد کے ویزوں کے اپائنٹمنٹس پر عارضی طور پر پابندی عائد کر رہی ہے۔

امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر نشریاتی ادارے سی بی ایس نے ایک سرکاری میمو دیکھا ہے، جس کے مطابق امریکی انتظامیہ نے سفارت خانوں کو غیر ملکی طلبہ کو سٹوڈنٹ ویزے جاری کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سٹوڈنٹ ویزے کے درخواست دہندگان کی سوشل میڈیا پروفائل کی جانچ کا عمل مزید وسیع کر رہے ہیں۔

یہ احکامات ایک ایسے وقت میں جاری کیے گئے ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کے کچھ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے ساتھ تنازع جاری ہے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بائیں بازو کی جانب جھکاؤ ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ اداروں نے ’یہود مخالف رویے‘ کو فروغ دیا۔

کون سے ملک کے طلبہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے؟

بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے ’اوپن ڈورز‘ کے مطابق سنہ 2023 سے 2024 کے دوران دنیا کے 210 ممالک سے تقریباً 11 لاکھ طلبہ نے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا۔

’اوپن ڈورز‘ کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں بیرون ممالک سے آنے والے طلبہ میں سب سے بڑی تعداد کا تعلق انڈیا سے ہے، اور تقریباً تین لاکھ 30 ہزار انڈین طلبہ امریکی اداروں میں تقلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس کے بعد سب سے زیادہ طلبہ کا تعلق چین سے ہے اور یہ تعداد تقریباً دو لاکھ 80 ہزار بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا، کینیڈا، تائیوان، ویتنام، نائیجریا، بنگلہ دیش، برازیل اور نیپال کے طلبہ آتے ہیں۔

تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ’جارحانہ انداز میں چینی طلبہ کے ویزے منسوخ کرے گی، جن میں چینی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے یا اہم شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بھی شامل ہیں۔‘

اس منصوبے کے تحت چین اور ہانگ کانگ سے مستقبل میں ویزے کے درخواستوں کی ’سکروٹنی بڑھانے‘پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ امریکہ میں زیر تعلیم کتنے چینی طلبہ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب چین نے کہا کہ وہ اس اقدام کی ’سخت مخالفت‘ کرتا ہے اور اس نے امریکہ پر زور ڈالا ہے کہ وہ تعمیری تعلقات کو فروغ دے۔

ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی متعدد غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے جبکہ ہزاروں کے ویزے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

مارچ کے آخر میں مارکو روبیو نے کہا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس میں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کو روکنے کی صدر ٹرمپ کی کوششوں کے نتیجے میں کم از کم 300 غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں تاہم امریکی وزیر خارجہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ طلبہ کن ممالک سے تھے۔

Reutersہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ غیر ملکی طلبہ کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے

بدھ کو ہارورڈ یونیورسٹی نے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا تھا کہ بین الاقوامی طلبہ کی میزبانی کے لیے اپنے سرٹیفیکیشن کو منسوخ کرنے سے یونیورسٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عدالت میں دائر کی گئی درخواست کے ساتھ ایک اعلامیہ میں ہارورڈ کی انٹرنیشنل آفس ڈائریکٹر مورین مارٹن نے کہا کہ یہ اقدام طلبہ اور سکالرز کے لیے ’انتہائی جذباتی تکلیف‘ کا باعث بن رہا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ طلبہ گریجویشن کی تقریبات کو چھوڑ رہے ہیں، بین الاقوامی سفر منسوخ کر رہے ہیں اور کچھ معاملات میں دوسرے کالجوں میں منتقلی کی کوشش کر رہے ہیں۔

عدالت میں پیش کیے گئے کاغذات میں انھوں نے لکھا کہ کچھ لوگوں نے ان ممالک میں واپس جانے پر مجبور ہونے کے خدشات کی بھی اطلاع دی، جہاں انہیں جاری تنازعات یا سیاسی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی اور پٹسبرگ یونیورسٹی دونوں سے وابستہ اعلیٰ بین الاقوامی تعلیم کے عالمی حکمت عملی کے ماہر پروفیسر امیریٹس ولیم برسٹین کہتے ہیں کہ امریکہ پر اس کے اثرات شدید ہوں گے۔

’ہارورڈ اسے برداشت سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ مشکل ہو گا، لیکن مجھے جس چیز کی فکر ہے وہ ہماری سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جو ٹیوشن اور فیسوں سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے بین الاقوامی طلبہ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی طلبہ کی صلاحیت جو ہمارے کیمپسز میں مختلف ایشوز پر متنوع نقطہ نظر لاتی ہے، یہ وہ چیز ہے جس پر واقعی اس کا اثر پڑے گا۔‘

دوسرے آپشنز کیا ہیں؟

حالیہ برسوں میں کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی غیر ملکی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔

لیکن امیگریشن قوانین میں ڈرامائی تبدیلیوں کے نتیجے میں حال ہی میں اس تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔

کینیڈا نے غیر ملکی طلبہ کی تعداد کو کم کرنے کا عہد کیا ہے۔ مثال کے طور پر اورسیز طلبہ کے لیے ان کی تعلیم کے لیے فنڈز کے ثبوت کی ضرورت میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ امیگریشن کو محدود کرنے کی جاری کوششوں کاایک حصہ ہے۔

برطانیہ، جہاں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی ممتاز یونیورسٹیاں ہیں، وہ بھی بین الاقوامی طلبہ کے لیے فراہم مواقعوں کو کم کر رہا ہے۔

Getty Imagesہارورڈ یونیورسٹی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کی میزبانی کے لیے اپنے سرٹیفیکیشن کو منسوخ کرنے سے یونیورسٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے

سٹوڈنٹ ویزا کی پابندیاں جنوری 2024 میں لاگو ہوئیں، یعنی پوسٹ گریجویٹ کرنے والے طلبہ اپنی فیملی کو جو ان پرانحصار کرتی ہے اب برطانیہ نہیں لا سکتے اور نئے طلبہ کو اپنے کورسز کے اختتام سے پہلے ورک ویزا کی طرف سوئچ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

آسٹریلیا نے، جو دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی طلبہ کی مارکیٹس میں سے ایک ہے، اورسیز درخواست دہندگان کی تعداد پر بھی ایک حد متعارف کرائی ہے، کیونکہ وہ مجموعی طور پر امیگریشن کو کووڈ کے وبائی امراض سے پہلے کی سطح پر لانے کوشش کر رہا ہے۔

پروفیسر برسٹین کا کہنا ہے کہ اس کا ایک نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ طلبہ اپنے ملکوں میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا انتخاب کریں، کیونکہ زیادہ سے زیادہ ممالک اپنے تعلیمی نظام میں سرمایہ کاری کرنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ لیکن شاید اس کی ضرورت نہ پیش آئے۔

دوسرے ممالک کیا دے رہے ہیں؟

دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیاں امریکہ میں حالیہ پیش رفت کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ وہ اپنی فنڈنگ ​​کے لیے غیر ملکی طلبہ پر انحصار کرتی ہیں کیونکہ طلبہ سے اکثر بھاری ٹیوشن فیس وصول کی جاتی ہے۔

ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو جان لی کہتے ہیں کہ ہانگ کانگ ایسے کسی بھی طالب علم کو ’خوش آمدید‘ کہے گا جس کے ساتھ ’امریکی پالیسی کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا گیا ہو، جنھیں تعلیم حاصل کرنے یا امریکی یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیم جاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔‘

لی نے کہا: ’حکومت اور مقامی علاقوں کے ادارے ان لوگوں کے لیے بہترین مدد اور انتظامات فراہم کریں گے جو ہانگ کانگ میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘

ملائیشیا میں سن وے یونیورسٹی سمیت ایشیا کے دیگر اداروں نے بھی ان غیر ملکی طلبہ کو دعوت دی ہے جو بصورت دیگر امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے۔

سن۔یو گروپ کی سی ای او الزبتھ لی نے لنکڈ اِن پر لکھا کہ ’ہماری ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی (ASU) کے ساتھ شراکت ہے جہاں ہم ہارورڈ سے ASU میں حاصل کردہ آپ کے تمام کریڈٹس کی منتقلی پر کام کر سکتے ہیں، یا یہاں تک کہ کسی بھی Sun-U ڈگری پروگرام میں جس سے آپ کو لنکاسٹر یونیورسٹی سے اضافی برطانوی سرٹیفیکیشن بھی مل سکتی ہے۔‘

Getty Imagesسینٹرل لندن میں یونیورسٹی سٹوڈنٹس کی گریجویشن کی تقریب

یورپ میں، جرمنی تیزی سے ایک مقبول مقام بنتا جا رہا ہے جہاں امریکہ سے باہر متبادل تلاش کرنے والے طلبہ آ رہے ہیں۔

جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس (DAAD) کی پیشن گوئی کے مطابق، جرمنی 2025 میں 400,000 سے زیادہ بین الاقوامی سکالرز کی میزبانی کر رہا ہے۔

پچھلے سال مارچ میں، اس نے یورپی یونین سے باہر بین الاقوامی طلبہ کو ہفتے میں 20 گھنٹے تک کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے نئے اقدامات بھی متعارف کروائے تھے، جبکہ پہلے دس گھنٹے کی اجازت تھی۔ دوسری طرف اس نے غیر ملکی طلبہ کے لیے پروف آف فنڈز کی حد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ تاہم یہ اضافہ اتنا ڈرامائی نہیں جتنا کہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے کیا ہے۔

پروفیسر برسٹین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں اعلیٰ تعلیم کا عالمی بازار بہت زیادہ تبدیل ہوا ہے اور اب بین الاقوامی طلبہ کے پاس غور کرنے کے لیے بہت سے آپشنز اور جگہیں موجود ہیں۔

پروفیسر برسٹین کہتے ہیں ’ملائیشیا میں بہت سی اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ میرے خیال میں آسٹریلیا اب بھی اچھی جگہ ہے۔ فرانس میں، ایسے اعلیٰ پروفیسروں کو راغب کرنے کے لیے رقم مختص کی جا رہی ہے جو امریکہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔

’اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یورپ ابھی بھی قابل راغب ہے۔ لیکن میں مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جو ہو رہا ہے اس بات پر زور دیتا ہوں کیونکہ یہ دنیا کا سب سے متحرک علاقہ ہے۔‘

کیا سٹوڈنٹ کسی اور برانچ کیمپس میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں؟

پروفیسر برسٹین کو توقع ہے کہ ’برانچ کیمپس‘ کا آئیڈیا اب مزید مقبول ہو گا۔

’میں جانتا ہوں کہ برطانوی یونیورسٹیوں کی ایسا کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ملائیشیا کی یونیورسٹیاں بھی یہ کرتی ہیں۔ اور یہاں تک کہ امریکہ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں، جیسا کہ الینوائے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے انڈیا اور چین میں کام۔‘

اپنی ویب سائٹ پر ہارورڈ نے 50 سے زیادہ ممالک کی فہرست دی ہے جہاں وہ بیرون ملک تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اس میں ارجنٹائن، انگلینڈ، کوریا، سینیگال اور برازیل شامل ہیں۔

اس نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ اگر ٹرمپ کی پابندی کو برقرار رہی تو طالب علم اپنی تعلیم کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کر سکیں گے یا نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More