حیدرآباد: ’دہشتگروں کے خلاف‘ ہونے والا مبینہ ’پکا قلعہ آپریشن‘ جس میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 35 سال بعد بھی ایک معمہ ہے

بی بی سی اردو  |  May 27, 2025

BBCقلعے کے اندر ایم کیو ایم کی جانب سے بنائے گئی یادگار پر 64 افراد کے نام تحریر ہیں جن میں سے آٹھ نامعلوم ہیں

’گولیاں سَر پر کلامِ پاک (قرآن) رکھ کر باہر نکلنے والی بہت سی خواتین کو بھی لگیں۔ میری والدہ بھی سر پر گولی لگنے سے ہی ہلاک ہوئی تھیں۔‘

آج سے ٹھیک 35 برس قبل یعنی 27 مئی 1990 کو صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے ’پکّا قلعہ آپریشن‘ میں اپنی والدہ کو کھو دینے والے نعیم گدّی نے اپنی کہانی کا آغاز کچھ یوں کیا۔

حیدر آباد میں واقع حالی روڈ کی چاند مسجد والی گلی کے رہائشی نعیم گدّی واحد ایسے شخص نہیں جو ’پکا قلعہ‘ کی خوفناک یادداشتوں کے آج بھی اسیر ہیں۔

نعیم گدّی جیسے درجنوں افراد نے اس واقعے میں اپنےپیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ اس دور میں شائع ہونے والے اخبارات کے مطابق اس کارروائی میں مبینہ طور پر 62 افراد ہلاک ہوئے تھے تاہم متاثرین کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کچھ زیادہ تھی جبکہ اس دور کی حکومت کے مطابق ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔

پکا قلعہ میں پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیل میں جانے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے صوبۂ سندھ کی اُس وقت کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے جو اُس مبینہ آپریشن کا پیش خیمہ بنا۔

پی پی پی، ایم کیو ایم کا اتحاد اور علیحدگیGetty Images1988 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 94 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی تھی

17 اگست 1988 کو پنجاب کے علاقے بہاولپور کے قریب ’بستی لال کمال‘ کی فضا میں پیش آئے طیارہ حادثے میں سابق فوجی حکمراں جنرل ضیا الحق کی ہلاکت کے ساتھ ملک سے طویل مارشل لا کا خاتمہ ہوا۔

طیارہ حادثے کے لگ بھگ تین ماہ بعد 16 نومبر 1988 کوہونے والے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی 94 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی تو بن گئی مگر یہ اکثریت حکومت سازی کے لیے درکار نشستوں سے کم تھی۔

اُدھر سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والی آبادیوں سے قومی اسمبلی کی 13 اور سندھ اسمبلی کی 28 نشستوں پر ’زبردست انتخابی کامیابی‘ حاصل کر کے اُس وقت تک مہاجر قومی موومنٹ کہلانے والی الطاف حسین کی ایم کیو ایم ملک کی تیسری اور صوبے کی دوسری بڑی سیاسی قوّت بن کر اُبھری۔

پیپلز پارٹی کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں نشستوں کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لیے سیاسی حمایت درکار تھی۔ بے نظیر بھٹوکے اس وقت کے مدِمقابل اور مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف قومی اسمبلی کی 56 نشستیں تو جیتے تھے مگر حکومت بنانے کے لیے نشستوں کی مطلوبہ تعداد اُن کے پاس بھی نہیں تھی۔

ایسے میں ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ’بادشاہ گر‘ بن کر اُبھری۔ یعنی نہ تو بے نظیر بھٹو الطاف حسین کی مدد و حمایت کے بغیر وزیراعظم بن سکتی تھیں اور نہ ہی نواز شریف۔

حکومت سازی کے لیےپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے طویل مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد بالآخر الطاف حسین کی ایم کیو ایم نےپیپلز پارٹی سے اتحاد کا فیصلہ کیا اور یوں بے نظیر بھٹو ایم کیو ایم کی حمایت سے دو دسمبر 1988 کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔

الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر مصطفیٰ عزیز آبادی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کی یہ حمایت محض زبانی کلامی نہیں تھی۔ ہمارے (ایم کیو ایم) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شراکتِ اقتدار کے ایک باقاعدہ 59 نِکاتی سیاسی و انتظامی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس ’معاہدہِ کراچی‘ میں سندھ کے شہری علاقوں سے متعلق تجاویز بھی شامل تھیں۔‘

مگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا یہ اتحاد سال بھر بھی نہ چل سکا۔

ایم کیو ایم نے ’معاہدہِ کراچی‘ پر عملدرآمد نہ ہونے کی کئی بار شکایت کرنے کے بعد محض گیارہ ماہ بعد ہی یعنی اکتوبر 1989 میں پیپلز پارٹی کی سیاسی حمایت ختم کرنے کا اعلان کر دیا اورپیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اُس ’محاذ آرائی‘ کا آغاز ہوا جس نے صوبۂ سندھ کو ’سیاسی اکھاڑہ‘ بنا کر رکھ دیا۔

آئندہ طویل عرصے تک پیپلز پارٹی الزام لگاتی رہی کہ ایم کیو ایم کے ’مسلح جھتّے‘ ریاست کے لیے وبال جان بن گئے ہیں اور ایم کیو ایم ریاست کے اہلکاروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد میں ملوث ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم یہ الزام عائد کرتی رہی کہ پیپلز پارٹی کا مسلح ونگ ایم کیو ایم کے خلاف قتل و غارت میں ملوث ہے اور پیپلز پارٹی اس سیاسی تنازع میں ریاست کی انتظامی طاقت استعمال کر رہی ہے۔

اگر اس دور کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آئے دن پولیس کے دفاتر اور تھانوں پر منظم حملوں، ہدف بنا کر قتل کیے جانے کی وارداتوں اور مسلح کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جواب میں ماورائے عدالت قتل اور انتہائی متنازع پولیس مقابلوں میں ’سیاسی کارکنوں‘ کی ہلاکتوں کا ایک طویل دور شروع ہوا۔ احتجاج، بد امنی، قتل و غارت کرفیو اور محاصرے معمول بن گئے۔

Getty Imagesاحتجاج، بد امنی، قتل و غارت کرفیو اور محاصرے معمول بن گئے (فائل فوٹو)

یہ وہ زمانہ تھا جب نہ نجی ٹی وی چینل تھے نہ انٹرنیٹ نہ سمارٹ موبائل فون اور نہ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز۔ جو بھی اطلاع تھی وہ یا تو سرکاری ٹی وی سے ملتی تھی یا پھر اخبارات و رسائل و جرائد کے ذریعے۔

روزانہ اخبارات کے اولین صفحات اسی فساد و کشیدگی اور کشت و خون کی خبروں اور کالی کالی ’بولڈ‘ شہ سرخیوں سے اٹے رہتے تھے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا ’اتحاد‘ ٹوٹنے سے لے کر ’پکا قلعہ آپریشن‘ کے رونما ہونے تک کے سات مہینوں میں کراچی اور حیدرآباد میں لا قانونیت، بدامنی اور جواباً پولیس کارروائیوں کے کئی واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے تھے۔

مگر دونوں شہروں میں جاری اس ’سیاسی کشیدگی‘ میں ایک بڑا واضح ’ڈیموگرافک‘ فرق تھا۔ کراچی میں جہاں اُردو بولنے والی آبادی کے محلّے تھے وہاں سندھی آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی کسی علاقے میں اگر ایک آدھ سندھی بولنے والا خاندان آباد تھا بھی تو وہ کراچی کے مخصوص رنگ میں اتنا رنگ چکا تھا کہ اُسی آبادی کا حصّہ سمجھا جاتا تھا۔

مگر حیدرآباد کی مختلف آبادیوں میں یا تو دونوں لسّانی اکائیاں بڑی کثرت سے ایک ہی محلّے میں آباد تھیں یا پھر دونوں جماعتوں کی واضح اکثریت آمنے سامنے والے علاقوں اور گلیوں میں رہائش پذیر تھی۔ دونوں لسّانی اکائیوں کا سماجی و ثقافتی فرق نہ صرف بہت نمایاں اور واضح تھا بلکہ پوری شدّت سے قائم بھی تھا۔

سیاسی منظر نامے پر ایم کیو ایم کے ’اچانک‘ اُبھرنے کے بعد یہ سماجی و ثقافتی تفریق صوبے کی دیہی و شہری زندگی میں گہری ہوتی چلی گئی۔

پیپلز پارٹی دیہی علاقوں میں کثرت سے آباد سندھی بولنے والی آبادی کی مقبول سیاسی جماعت تھی اور ایم کیو ایم اردو بولنے والی شہری اکثریت کی نمائندگی کرتی رہی۔ حیدرآباد وہ شہر تھا جو دیہی و شہری سندھ کی سرحد مانا جاتا تھا اور یہاں دونوں زبانیں بولنے والے تقریباً برابر کی تعداد میں آباد تھے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد ختم ہوا تو حیدرآباد میں یہ تفریق محض سیاسی نہیں رہی بلکہ اس نے ایک لسّانی رنگ بھی اختیار کر لیا۔

اور اسی پس منظر میں 26 اور 27 مئی 1990 کے وہ دو دن آئے جب ’پکا قلعہ‘ میں مبینہ آپریشن رونما ہوا۔

پکا قلعہBBCقلعے کی دیواریں 40 فٹ تک اونچی تھیں اور 1990 تک یہ قلعہ ایک پوری بستی بن چکا تھا (پکا قلعہ کی 2021 میں لی گئی تصویر)

پکّا قلعہ دراصل ہِل ٹاپ (شہر کے ایک اونچے مقام) پر واقع تھا۔ قلعے کی دیواریں 40 فٹ تک اونچی تھیں اور 1990 تک یہ قلعہ ایک پوری بستی بن چکا تھا۔ اس قلعے کی چار دیواری میں اُردو بولنے والے کئی خاندان آباد تھے (اور اب تک ہیں)۔ یہ خاندان جُوتا سازی، برتن سازی اور چوڑیاں بنانے کی گھریلو صنعت جیسے پیشوں سے وابستہ تھے۔ قلعے کے آس پاس بھی زیادہ تر اردو بولنے والی آبادیاں تھیں جو حالی روڈ، پھلیلی، امریکن کوارٹرز، گجراتی پاڑہ تک پھیلی ہوئی تھیں۔

مصطفیٰ عزیز آبادی کے مطابق ’یہ سب مہاجر بستیاں ایم کیو ایم کے ہمدردوں اور حامیوں پر مشتمل ووٹ بینک تھا۔‘

اخبارات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پکّا قلعہ آپریشن کوئی اچانک پیش آ جانے والا واقعہ نہیں تھا۔

جنید خانزادہ ’ایکسپریس نیوز‘ کے حیدرآباد میں بیورو چیف ہیں مگر ’پکّا قلعہ آپریشن‘ کے وقت وہ حیدرآباد میں اخبار ’جنگ‘ کے نامہ نگار تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پکّا قلعہ سے پہلے بھی امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں تھی۔ حالات مخدوش تھے۔ کئی علاقوں میں سیاسی بے چینی، لا قانونیت اور بدامنی کے کئی واقعات مسلسل رونما ہو رہے تھے۔ پھر 14 مئی کو تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے معاملے پر ایک واقعے سے شہر (حیدرآباد) بھر میں بہت زیادہ کشیدگی پھیل گئی۔‘

’اور جب معاملہ زیادہ بگڑا تو شہری و ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کئی بار کرفیو نافذ ہوتا رہا اور پکّا قلعہ آپریشن سے ایک دن پہلے تک بھی کرفیو نافذ تھا۔‘

اسی تناظر میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ’بعض مطلوب دہشتگرد شہر میں دہشتگردی کی وارداتیں کر کے قلعے میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں میں جا چھپتے ہیں۔‘

جنید خانزادہ بتاتے ہیں کہ ’مطلوب افراد میں اقبال لاڈلہ، ایاز، مظفّر اور دیگر کے نام بتائے گئے تھے۔‘

’غالباً سرکار کا یہی موقف قلعے پر پولیس کارروائی کا جواز بن گیا۔‘

اخبارات کے مطابق پکّا قلعہ آپریشن کے پہلے دن یعنی سنیچر 26 مئی کو پولیس کی بھاری نفری تلاشی، چھاپوں اور گرفتاریوں کے لیے قلعے اور اطراف کے علاقوں میں جا پہنچی۔

27 مئی 1990 کے ’جنگ‘ اخبار کے مطابق ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اور چھ سپرنٹنڈینٹ (ایس پی) جن میں حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، سانگھڑ سمیت دو دیگر اضلاع کے افسران کی زیرِ قیادت لگ بھگ 2000 اہلکار، 150 گاڑیوں کے ذریعے دوپہر 11 بجے حیدرآباد کے گنجان آبادی والے علاقوں بھائی خان چاڑی، قلعہ، شاہی بازار، ریشم گلی، دو قبر، گاڑی کھاتہ، ہوم اسٹیڈ ہال، اور ان علاقوں سے ملحقہ گلیوں اور بازاروں کے قریبی گھروں میں ’تلاشی‘ کے لیے پہنچے۔

اگلے روز شائع ہونے والی اخبارات کے مطابق ’پولیس اہلکاروں نے اچانک ہی بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔‘ جنگ اخبار کے مطابق لگ بھگ چھ گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے۔

لیکن اخبارات کی اِن خبروں کے برخلاف سرکار کی جانب سے پیش کیے جانے والے موقف میں اس واقعے کی ایک اور وضاحت پیش کی گئی۔

اگلے روز یعنی 27 مئی 1990 کو اخبارات کے صفحۂ اوّل پر کمشنر حیدرآباد کا پریس نوٹ شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ ’اس اطلاع پر کہ کچھ دہشتگرد حیدرآباد میں گُھس آئے ہیں اور خونریزی کرنا چاہتے ہیں، پولیس نے پکّا قلعہ، بھائی خان چاڑی، ریشم گلی اور دیگر علاقوں میں چھاپے مارے جس پر تمام علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے پولیس اور قانون نافذ کرنے اداروں کے جوانوں پر فائرنگ کر کے (سرکاری کارروائی کی) مزاحمت کی گئی جس کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل اور ایک رینجرز اہلکار ہلاک اور 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جس کے بعد پولیس نے جوابی فائرنگ کی جس سے 12 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 4 افراد ہسپتال پہنچاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔‘

پریس نوٹ کے مطابق ’بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کرکے اُن کے قبضے سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کر لیا گیا۔ جبکہ مزید تلاشی کا کام جاری ہے۔‘

پریس نوٹ کے بالکل برابر میں شائع ہونے والی دیگر خبروں میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔

27 مئی کے ’جنگ‘ میں شائع شہ سرخی کے مطابق، حیدرآباد کے گنجان آبادی والے علاقوں میں پکا قلعہ آپریشن میں شریک پولیس اہلکاروں نے پانچ ہزار سے زیادہ گولیاں چلائیں۔ ’اس اچانک خوفناک فائرنگ سے اہلِ علاقہ دہل کر رہ گئے۔ علاقے کی مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہونے لگے کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا ہے۔ لہٰذا اپنی مدد کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جس پر علاقے کے مکینوں نے بھی اپنا اسلحہ نکال لیا۔‘

’پولیس فائرنگ سے رات 8 بجے تک 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں دو خواتین اوردوبچے بھی شامل تھے۔ فائرنگ سے مکانوں اور دکانوں کی دیواریں، کھڑکیاں اور دروازے چھلنی ہو گئے۔ آپریشن کے دوران چھوٹی گٹّی اور ریشم بازار تک پانی، بجلی، گیس اور ٹیلی فونز (لینڈ لائنز) کے کنکشنز کاٹ دیے گئے۔ ریشم گلی، بھائی خان چاڑی، کوہِ نور چاڑی جیسے علاقوں میں درجنوں مکانوں اور دکانوں کے تالے توڑ کر لوٹ مار کی گئی اور طلائی زیورات و قیمتی سامان لوٹ لیا گیا۔ زخمیوں یا ہلاک ہونے والوں کی لاشیں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے وہاں پہنچنے والی (رفاہی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی) ایمبولینس ای ایکس 9929 کے ڈرائیور محمد حسن گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تو انھیں میمن ہسپتال پہنچایا گیا جبکہ قلعے میں ایدھی ایمبولینس ای ایکس 3751 کے ڈرائیور ارشد بھی پولیس تشدد کا نشانہ بنے۔‘

اخبار کے مطابق ’قلعہ چوک کے علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے دہشت زدہ دو خواتین سر پر قرآن رکھ کر نکلیں تو وہ بھی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ اسی علاقے میں نصیر عرف مجاہد، ایک مکین شمس الدین کی اہلیہ، شہری عبدالسلام، بچی فرزانہ، بھی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک پولیس اہلکار ہلاک اور 5 اہلکار زخمی ہوئے۔‘

اخبارات میں دو دن جاری رہنے والے اس (پولیس) ’آپریشن‘ کے دوسرے روز کی تفصیلات پہلے دن سے بھی زیادہ بھیانک خبروں سے بھری ہوئی تھیں۔

28 مئی 1990 کے جنگ میں شائع شہ سرخی کے مطابق ’پولیس فائرنگ سے مزید 50 افراد ہلاک ہوئے۔‘

انسپکٹر ذیشان کاظمی: کراچی آپریشن کے ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ اور ’خوف کی علامت‘ کو کیسے قتل کیا گیاشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑاابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلا’ہتھوڑا گروپ‘: کراچی میں دہشت پھیلانے والا گروہ کیا تھا اور کہاں گیا؟

اخبار کے مطابق ’پولیس اور ایگل سکواڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں 20 خواتین بھی شامل تھیں جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔‘

’حیدرآباد اور لطیف آباد میں 25 سے زائد مقامات سمیت پھلیلی، پریٹ آباد، لیاقت کالونی، فردوس کالونی، گئو شالہ، قلعہ، شاہ فیصل کالونی، ممتاز کالونی اور دیگر علاقوں میں خواتین نے ٹولیوں کی شکل میں جلوس نکالے، یہ خواتین سر پر قرآن اٹھائے کرفیو کی خلاف ورزی کرتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئیں۔ پولیس نے خواتین کو منتشر کرنے کے لئے پہلے آنسو گیس استعمال کی، پھر ہوائی فائرنگ کی گئی۔‘

اخبار نے مزید لکھا کہ ’خواتین پر آنسو گیس اور فائرنگ سے مشتعل نوجوان بھی کرفیو توڑ کر گھروں سے نکل آئے اور خواتین کو حصار میں لے لیا۔ بعد ازاں پولیس اور ایگل اسکواڈ کی گاڑیوں سے مبیّنہ طور پر اندھا دھند فائرنگ سے 40 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور 200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔‘

ہلاک ہونے والوں کے لواحقین: ’میری والدہ سر پر گولی لگنے سے ہلاک ہوئیں‘

حالی روڈ کی چاند مسجد والی گلی کے رہائشی نعیم گدّی نے مجھے بتایا کہ ’35 سال پہلے بھی میں یہیں رہتا تھا۔ ہم چار بھائی اور ایک بہن تھے۔ میں 16 یا 17 سال کا تھا جبکہ ہمارا سب سے چھوٹا بھائی 10 ماہ کا تھا اور ایک بہن کی عمر ڈیڑھ برس تھی۔ اُس روز میں گھر پر نہیں تھا۔ پانی اور بجلی کی فراہمی تین، چار دن سے منقطع تھی تو میری والدہ عورتوں کے جلوس کے ساتھ چلی گئیں۔ جہاں پولیس نے فائرنگ کی تو گولیاں کلامِ پاک (قرآن) سَر پر رکھ کر باہر نکلنے والی بہت سی خواتین کو لگیں۔ میری والدہ بھی سر پر گولی لگنے سے ہی ہلاک ہوئیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے دوست والدہ کے بارے میں اطلاع ملنے پر اُدھر (قلعے کی طرف) گئے تو اُن دونوں کو بھی گولی لگ گئی اور وہ بھی ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے دستے ایک دن پہلے حالی روڈ پر آئے، پھر انھوں نے قلعے پر قبضہ کر لیا۔‘

’میرا ایک اور دوست تھا اُس کو سب ڈبلوُ کے نام سے پکارتے تھے وہ میری والدہ (کو گولی لگنے) کا سن کر گیا تو اُسے بھی گولی لگی مگر وہ تین دن تک زندہ رہا۔ میں جب اُس سے ملنے ہسپتال گیا تو ڈبلوُ نے بتایا کہ جب وہ وہاں پہنچا تو سعیدن خالہ (میری والدہ) اکیلی قلعے کے دروازے تک چلی گئی تھیں۔‘

’ڈبلوُ انھیں بچانے کے لیے آگے گیا تو ٹنکی سے سعیدن خالہ کو گولی ماری گئی جو سیدھی اُن کے سر میں لگی۔ پھر ڈبلوُ کو بھی گولی لگ گئی۔۔۔ ہمارے محلّے میں ایک نوجوان عزیز بھی تھا وہ بھی میری والدہ کو ڈھونڈنے گیا، اُسے بھی گولی مار دی۔‘

نعیم نے عزیز نامی جس شخص کا ذکر گیا وہ بھی حالی روڈ کے رہائشی تھے اور چاند مسجد کے برابر والے گھر کے رہائشی تھے۔

عزیز کے بھائی نے مجھ سے گفتگو میں بتایا کہ ’عزیز میرا چھوٹا بھائی تھا اور چُوڑی کے کارخانے میں کام کرتا تھا۔ اُسے درگاہ عبدالوہاب شاہ جیلانی چاڑی پر گولی لگی۔‘

’میں تب 34 برس کا تھا، عزیز 19 سال کا تھا۔ یہ تو مجھے آج تک نہیں پتہ چلا کہ فائرنگ کیوں ہوئی تھی۔ قلعے کے اوپر سے گولیاں چلائی جا رہی تھیں، جب جلوس اوپر چڑھنے لگا تو اوپر سے فائرنگ ہوئی۔‘

پکّا قلعہ کے اس واقعے میں محمد اصغر نامی شہری بھی ہلاک ہوئے۔

اصغر کے بھائی صابر نے مجھے بتایا کہ ’وہ گجراتی پاڑے میں رہتے تھے۔ اور ہلاک ہونے والے اُن کے بھائی اصغر 18 یا 19 برس کے تھے۔‘

غلام محمد عباسی، محمد اصغر کے چاچا ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’قلعے کی طرف جانے والے راستے میں 3 نمبر تالاب والی چڑھائی پر قریباً 30 سے 35 عورتوں نے قرآن سر پر رکھے ہوئے تھے جنھیں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ گولیاں تو حالی روڈ اور امریکن کوارٹرز تک آئیں تھیں۔ پولیس کہہ رہی تھی کہ ایم کیو ایم کے کارکن اندر تھے۔ وہ تو تھے ہی نہیں۔ اگر ہوتے بھی تو اپنی خواتین اور بچوں کو پولیس کے سامنے کیوں دھکیل دیتے گولیاں کھانے کے لیے؟‘

قلعے کے اندر ایم کیو ایم کی جانب سے بنائے گئی یادگار پر 64 افراد کے نام تحریر ہیں جن میں سے آٹھ نامعلوم ہیں۔

BBC’دہشتگروں نے عورتوں اور بچوں کا استعمال کیا‘

28 مئی 1990 کو اخبارات میں حکومتِ سندھ کا ایک پریس نوٹ شائع ہوا۔

پریس نوٹ میں کہا گیا کہ ’گرفتاریوں سے بچنے کے لیے قلعے اور آس پاس موجود دہشتگردوں نے اپنے تحفّظ کے لیے عورتوں اور بچّوں کا استعمال کیا۔ عوام کو اشتعال دلانے کے لیے ہلاک شدگان کی تعداد زیادہ بتائی گئی۔‘

حیدرآباد میں خواتین اور بچوں کی جانب سے نکالے جانے والے جلوس پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان حکومتِ سندھ نے کہا تھا کہ ’دہشت گردوں اور قانون توڑنے والے افراد نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ لڑائی کی اور اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو نیا رخ دینے کے لیے معصوم خواتین و بچوں کو صرف پروپیگنڈے کی خاطر اور ہمدردیوں کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ دہشتگردی کی کارروائی قابلِ مذمت اور معاشرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ مساجد سے اشتعال انگیز نعرے اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ دہشت گرد اور مجرمین حکومت کی اتھارٹی کو کم کرنے کے لیے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے اور غلط اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے کے لیے ہر قسم کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔‘

حکومتی ترجمان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ’(اُس وقت کے چیئرمین ایم کیو ایم) عظیم احمد طارق کی جانب سے مرنے والوں کے زیادہ اعداد و شمار کی فراہمی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حیدرآباد میں عوام کو قتل کرنے کی سازش انھوں نے تیار کی تاکہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب کر کے عوام کو حکومت کے خلاف اشتعال دلایا جا سکے۔اتوار (کو پکا قلعہ) کے واقعات اُن (ایم کیو ایم چیئرمین) کی جانب سے حکومت کے خلاف کی جانے والی سازش کا سلسلہ ہیں۔‘

شہر کا کنٹرول فوج کے سپردGetty Images

اس واقعے کے بعد 28 مئی کو ہی سندھ کابینہ کا ہنگامی اجلاس وزیراعلیٰ سندھ کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔

اخبار کے مطابق ’چار گھنٹے طویل اس اجلاس کی صدارت (اُس وقت کے) وزیراعلیٰ سندھ آفتاب شعبان میرانی نے کی۔ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ انتظامیہ صوبے میں دہشت گردوں، ڈاکوؤں، سماج دشمن عناصر، اشتعال پھیلانے والے ایجنٹوں اور مجرموں کے خلاف کارروائی تیزی سے جاری رکھے۔‘

ہلاکتوں اور امن و امان کی صورتحال کے باعث ضلعی انتظامیہ نے فوج طلب کر لی اور حیدر آباد اور لطیف آباد سے پولیس اور ایگل سکواڈ کو ہٹا لیا گیا، فوج کی آمد پر پرجوش نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور ’پاک فوج زندہ باد‘ کے نعروں سے فوج کا استقبال کیا۔

پاکستانی خبر رساں ادارے ’پی پی آئی‘ نے لکھا کہ ’امن و امان بحال کرنے کے لیے حیدرآباد کا کنٹرول فوج نے سنبھال لیا ہے۔ فوجی گاڑیوں سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ لوگ اپنے گھروں میں رہیں اور یقین دہانی کروائی گئی کہ پانی و بجلی کی فراہمی بحال کر دی جائے گی۔‘

’پکا قلعہ سوچی سمجھی سازش تھی‘

مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ پکّا قلعہ اُن کی جماعت کے خلاف ایک ’سوچی سمجھی سازش‘ تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی خود کو آج بھی وفاقی و جمہوری جماعت کہتی ہے مگر 35 سال قبل ہونے والا سانحۂ پکّا قلعہ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی دراصل تعصب کی سیاست کرتی ہے۔ جب الطاف بھائی کی قیادت میں ایم کیو ایم نے اکتوبر 1989 میں پیپلز پارٹی سے سیاسی اتحاد ختم کیا تو پیپلز پارٹی نے اتحاد توڑنے پر کراچی و حیدرآباد میں ایم کیو ایم قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہمدردوں کو بھی اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔‘

’پکّا قلعہ کے اندر اور باہر بھی اطراف کے بہت سے علاقے اردو بولنے والی آبادی پر مشتمل تھے وہاں کے رہنے والے ایم کیو ایم کی حامی تھے ووٹر تھے لہٰذا انہیں سزا دینے کے لئے یہ آپریشن کیا گیا۔‘

عزیز آبادی کا دعویٰ ہے کہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی لاشیں تک نہیں اٹھانے دی گئیں۔ ’بہت سے مقتولین کو قلعے کے اندر ہی دفنایا گیا جن کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔ اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہے۔۔۔کون سا اسلحہ نکلا قلعے سے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’ریکارڈ پر ہے کہ جب 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے بے نظیر حکومت کو مختلف الزامات کے تحت برطرف کرنے کا اعلان کیا گیا تو ایک نکتہ کراچی و حیدرآباد میں معصوم عوام کا قتل و غارت اور امن و امان کی صورتحال بھی تھی۔‘

’کوئی آپریشن تھا ہی نہیں‘

بی بی سی نے اس واقعے پر پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف جاننے کے لیے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر قانون اور خود حیدرآباد کے دیرینہ مکین مولا بخش چانڈیو سے رابطہ کیا تو انھوں نے تمام واقعات کو یکسر مسترد کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آپریشن تو انھوں نے نام دے دیا ناں، کوئی آپریشن تھا ہی نہیں۔ جب بدامنی ہو گی تو پولیس تو جائے گی ناں۔ پولیس پر حملے ہو رہے تھے۔ اُس وقت کے کراچی کے کور کمانڈر خود اس معاملے کو دیکھ رہے تھے۔ ایسے ماحول میں پولیس کیا کر سکتی تھی۔‘

مولا بخش چانڈیو کے مطابق ’لوگوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ لوگوں پر زندگی تنگ ہوگئی تھی۔ خواتین کے جسموں کو داغا گیا۔ ایسے واقعات بھی ہوئے جو بتاتے ہوئے اب مجھے شرم آتی ہے۔ ریپ ہو رہے تھے۔ ایسے میں پولیس تو ایکشن میں آئے گی ناں، لیکن کوئی گرفتاری نہیں ہوئی، کوئی لوگ نہیں مارے گئے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایم کیو ایم نے خود جلوس نکالے تھے اور خواتین کے جلوس کے بیچ میں مرد تھے۔۔۔70 لوگوں کو مارنے کوئی بات ہوئی ہی نہیں، ہوتی تو کیا چُھپ سکتی تھی ؟ کوئی ہلاک ہوا ہے تو نام پتہ بتائیں اُن کا۔ وہ کبھی نام نہیں بتا سکیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہی لوگ جو اُن کے ساتھ تھے، آج الطاف حسین کو گالیاں دے رہے ہیں۔ رو رو کر بتا رہے ہیں کہ اس شخص نے بڑا ظلم کیا اُردو بولنے والوں کے ساتھ۔ تو یہ سب جھوٹی بات ہے۔ کوئی 70 لوگ نہیں مرے قلعہ آپریشن میں۔ ہاں۔۔۔ قلعے کی طرف پولیس ضرور روانہ ہوئی تھی۔‘

مولا بخش چانڈیو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس وقت کے اخبارات میں جو کچھ چھپا میں اس کو زیرِ بحث نہیں لانا چاہتا۔ اُس وقت ہر چیز نسل پرستی کے رنگ میں رنگ دی گئی تھی۔ کوئی اردو اخبار سندھ کے لوگوں کی ترجمانی نہیں کرتا تھا۔۔۔ پولیس تو گئی لیکن 70 یا 80 لوگ مارے گئے ایسا کچھ نہیں تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’قلعہ ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ وہاں (آس پاس کے محلّوں) سے سندھی بولنے والے آبادی کو نکال باہر کیا گیا۔ اُدھر سے گزرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ ایسے حالات میں پولیس تو جائے گی ناں، پیپلز پارٹی نفرت کی سیاست نہیں کرتی۔ میں محترمہ کے ساتھ اجلاس میں تھا وہ خود رو رہی تھیں کہ میں تو کسی کو بھی مہاجر نہیں سمجھتی، وہ اردو بولنے والے سندھی ہیں۔ محترمہ کے نزدیک تعصب تھا ہی نہیں۔‘

پیپلز پارٹی کے رہنما اور موجودہ سینیٹر وقار مہدی سے اُس وقت کی صوبائی و وفاقی حکومت اور پارٹی کا موقف جاننا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایم کیو ایم کے موقف کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔ پیپلز پارٹی نے کبھی انتقام کی سیاست نہیں کی۔ جو لوگ بھی قتل و غارت اور دہشتگردی میں ملّوث تھے اُن کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ ہم انتقام کی سیاست پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جو لوگ معصوم شہریوں کے قتل میں ملّوث تھے، کارروائی اُن کے خلاف تھی اُن کی گرفتاری کے لیے کیا گیا تھا آپریشن۔ ہم سیاسی اختلاف کو دشمنی نہیں بناتے۔‘

حیدرآباد کا پکا قلعہ: صدیوں پرانی اس نشانی کا دروازہ مرمت کے دوران منہدمانسپکٹر ذیشان کاظمی: کراچی آپریشن کے ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ اور ’خوف کی علامت‘ کو کیسے قتل کیا گیاشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑاابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلا’ہتھوڑا گروپ‘: کراچی میں دہشت پھیلانے والا گروہ کیا تھا اور کہاں گیا؟ڈینیئل پرل قتل: احمد عمر شیخ سے خالد شیخ محمد تک وہ کردار جو اس بھیانک کھیل میں شامل رہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More