Getty Images
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کو کئی روز ہو چکے ہیں اور حالیہ دنوں میں دونوں اطراف سے یہ بتائے جانے کا سلسلہ جاری ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے کا کتنا نقصان کیا ہے۔
اس دوران سب سے زیادہ بات چیت انڈیا کی فضائیہ کو ہونے والے مبینہ نقصان کی ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اس دوران پانچ انڈین طیارے مار گرائے ہیں جن میں فرانسیسی ساختہ رفال طیارے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح انڈیا کی جانب سے پاکستانی طیارے مار گرائے جانے سے متعلق بھی متعدد دعوے کیے گئے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو جب انڈین فضائیہ کے ایئر مارشل اے کے بھارتی سے پاکستانی دعوؤں سے متعلق سوال کیا گیا تو اگرچہ انھوں نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم ابھی حالتِ جنگ میں ہیں اور نقصانات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ جہاں تک تفصیلات کی بات ہے تو (نقصانات کی) کیا تعداد تھی، اور ہم نے کیا کھویا ہے، اگر میں اس پر تبصرہ کرتا ہوں تو دشمن کو فائدہ ہو گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم نے اُن کے کتنے طیارے گرائے؟ ہم نے ان کے طیارے اپنی حدود میں نہیں آنے دیے اس لیے ہمارے پاس اُن کا ملبہ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے اُن کے کچھ طیارے گرائے ہیں لیکن تعداد پر میں کچھ قیاس آرائی نہیں کروں گا۔ مجھے تعداد کا علم ہے، ہم تفصیلات لے رہے ہیں لیکن میں ابھی تعداد نہیں بتاؤں گا۔‘
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان نے فضائیہ اور بحریہ کے نمائندوں کے ہمراہ ایک پریس بریفنگ میں اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انڈین کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کوئی طیارہ نہیں کھویا۔ اگر ہم کہہ رہے ہیں کہ پانچ انڈین طیارے گرائے گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پانچ طیارے مارے گئے ہیں۔‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے ثبوت دیکھے ہیں۔‘ اس کے بعد پریس بریفنگ کے دوران انڈین میڈیا کی کچھ کلپس اور کچھ تصاویر بھی دکھائی گئیں اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ انڈین جہازوں کا ملبہ ہے۔
اس سے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور خبر رساں ایجنسی روئٹرز اپنی خبروں میں اوپن سورس ڈیٹا اور امریکی حکام سے گفتگو کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ’بظاہر پاکستانی سٹرائیکس کے دوران دو فرانسیسی ساختہ انڈین طیارے کریش ہوئے ہیں‘۔
مگر انڈیا اور پاکستان کے فوجی حکام اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کیے جانے والے یہ دعوے کتنے قابلِ اعتبار ہیں؟ پاکستان کس بنیاد پر انڈین طیاروں بشمول رفال کو گرائے جانے کا دعویٰ کر رہا ہے؟ اور کیا کوئی ایسا بین الاقوامی پروٹوکول یا معاہدہ موجود ہے جو دو ممالک کی جنگ کے دوران فائٹر طیاروں کے نقصان کا تعین کروا سکے؟
ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے بی بی سی نے اس شعبے کے ماہرین سے گفتگو کی ہے۔
Getty Imagesجنگی طیاروں کے کریش یا تباہ ہونے کی تصدیق کِن طریقوں سے کی جا سکتی ہے؟
امریکی پبلیکیشن ’جیوپولیٹیکل فیوچرز‘ سے منسلک امریکی فوج کے سابق اہلکار اینڈریو ڈیوڈسن نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ اوپن سورس انٹیلیجنس کے ذریعے بھی ایسے واقعات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
اینڈریو کہتے ہیں کہ ’اوپن سورس انٹیلیجنس کے ماہرین اکثر ریڈار کے ٹریکنگ ڈیٹا، سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر اور حراست میں لیے گئے پائلٹس کے بیانات کا سہارا لے کر کسی لڑاکا طیارے کے ممکنہ طور پر مار گرائے جانے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ جہاز کو مار گرائے جانے کی کوئی ویڈیو یا سرکاری اعتراف کے بغیر تمام اندازے جزوی طور پر ہی درست مانے جا سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میں اکثر پرانی تصاویر اور ویڈیوز گردش کرنے لگتی ہیں ایسے میں میٹا ڈیٹا اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کے کچھ ٹولز کی مدد سے بھی نئے اور پُرانے ثبوتوں میں فرق تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ بی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی تھی جن کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے۔ اسی نوعیت کی ایک تصدیق تین روز قبل واشنگٹن پوسٹ بھی کر چکا ہے۔
Getty Imagesپاکستان انڈین طیارے گرانے کے کیا ثبوت پیش کر رہا ہے اور کیا الیکٹرانک سگنیچر قابل قبول ثبوت ہے؟
پاکستان کے ڈپٹی چیف آف سٹاف آپریشنز ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے گذشتہ دنوں پریس بریفننگ کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ انڈین جہازوں کی الیکٹرانک آئی ڈی کے ذریعے انھیں معلوم ہوا کہ پاکستانی فضائیہ نے کون سا انڈین طیارہ کسی مقام پر گرایا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ مگ 29 لائن آف کنٹرول سے آٹھ ناٹیکل میل دور سرینگر میں مار گرایا گیا تھا جبکہ ایک ایس یو 30 لائن آف کنٹرول سے 25 ناٹیکل میل دور سرینگر میں مار گرایا گیا تھا۔
فراہم کی گئی تفصیلات میں ایک رفال طیارہ ایل او سی سے 53 ناٹیکل میل دور سرینگر میں، دوسرا رفال بین الاقوامی سرحد سے سات ناٹیکل میل دور بھٹنڈہ میں اور تیسرا رفال جموں کے قریب مار گرانے کا دعویٰ کیا گیا۔
رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانی
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس یہ تفصیلات اس لیے ہیں کیونکہ جدید دور کی جنگ میں آپ چیزوں کو اپنی ایمیجینیشن (تخیل) سے پیدا نہیں کر سکتے۔ آپ کی ایک الیکٹرانک آئی ڈی ہوتی ہے، ڈیٹا لنک کے ذریعے طیارے ٹریک کر لیے جاتے ہیں، جیسے ہی آپ اپنا ریڈار کھولتے ہیں سب ظاہر ہو جاتا ہے، کوئی چھپ نہیں سکتا۔'
اُن کی بریفنگ کے دوران الیکٹرانک سگنیچر کا بھی تذکرہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ رفال گرانے کی کارروائی میں جے 10 سی استعمال کیا گیا تھا۔
11 مئی کی پریس کانفرنس کے دوران انڈیا کے ایئر مارشل ایک اے بھارتی سے جب رفال طیارے گرانے جانے کے دعوؤں سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نقصانات لڑائی کا حصہ ہیں۔۔۔ آپ کو ہم سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم نے اپنے اہداف حاصل کیے ہیں؟ کیا ہم نے دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا ہدف حاصل کیا ہے؟ اس کا جواب ہاں ہے۔‘
جبکہ انھوں نے ایک دوسرے سوال کے جواب میں دعویٰ کیا کہ انڈیا نے بھی بعض پاکستانی طیارے گرائے ہیں مگر وہ ان کی تفصیلات شیئر نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ان (پاکستانی فضائیہ) کے طیاروں کو ہماری حدود میں آنے سے روکا گیا۔ ہمارے پاس ان کا ملبہ نہیں۔‘
جبکہ 11 مئی کو انڈین فوج نے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں پاکستانی مراج طیارے کا ملبہ دکھانے کا دعویٰ کیا گیا۔ تاہم اس ویڈیو کے بارے میں ایئر مارشل اے کے بھارتی نے اپنی پریس کانفرنسز میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس نوعیت کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کو رفال طیارے گرانے کا یقین کیوں ہے؟
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی فضائیہ کے سابق ایئر کموڈور خالد چشتی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے پاس چینی ساختہ طیاروں J10 C اور جے ایف 17تھنڈر میں 'پی ایل 15' میزائل نصب ہیں جن کی رینج تقریباً 200 کلومیٹر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ایل 15 میزائل میں اپنا ریڈار لگا ہوتا ہے اور یہ اپنے ہدف کو لاک کرتے وقت اور نشانہ بنانے سے قبل اپنے جہاز کو الیکٹرانک سگنل (سگنیچر) دیتا ہے۔ ’(لگ بھگ) 200 کلومیٹر کافی زیادہ فاصلہ ہے جبکہ جہاز کے پائلٹ کو آسمان پر بمشکل 10 کلومیٹر تک ہی نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہدف پر نشانہ لگانے کے بعد جب پی ایل 15 فائر کیا جاتا ہے تو یہ اپنے ہدف کے قریب جاتے وقت صرف اس وقت ایکٹویشن موڈ میں آتا ہے جب اسے مکمل یقین ہو کہ یہ اپنے ہدف سے جا ٹکرائے گا۔‘
انھوں نے اس میزائل کی خاصیت سے متعلق دعویٰ کیا کہ اگر اس میزائل کے اپنے ریڈار سسٹم کو معلوم ہو کہ وہ اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بنا پائے گا، تو یہ فضا میں ہی خود کو تباہ کر لیتا ہے۔
ایئرکموڈور خالد چشتی کے مطابق 'یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فضائیہ کو یقین ہے کہ انھوں نے انڈین طیاروں کو گرایا ہے۔ وہ اس الیکٹرانک سگنل کے علاوہ ہیومن انٹیلیجنس کے ذریعے بھی دوسرے ملک کا طیارہ گرانے کی تصدیق کر رہے ہیں۔'
تاہم جب اینڈریو ڈیوڈسن سے پوچھا گیا کہ کیا الیکٹرانک سگنیچر کے ذریعے کسی جہاز کو مار گرائے جانے کی تصدیق کی جا سکتی ہے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ 'الیکٹرانک سگنیچر سے مراد کسی جہاز کی ریڈار فریکوئنسی، ریڈیو ٹرانسمیشن، ٹرانسپونڈر کوڈز اور دیگر الیکٹرانک آلات کے سگنلز ہوتے ہیں۔
'اگر اچانک ہی کسی جہاز کے الیکٹرانک سگنلز غائب ہو جائیں تو اس کا مطلب لیا جاتا ہے کہ اس جہاز کو کامیابی سے انگیج کر لیا گیا ہے لیکن اس سے 100 فیصد یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حریف جہاز تباہ ہو گیا ہے۔‘
اینڈریو کے مطابق ’اسی لیے الیکٹرانک سگنیچر کو بطور سیکنڈری ثبوت دیکھا جاتا ہے۔‘
سینٹر فور ایرو سپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے صدر ایئر مارشل ریٹائرڈ جاوید احمد کہتے ہیں کہ ’پہلے جو ڈاگ فائٹس ہوتی تھیں، وہ انتہائی قریب کے فاصلے پر ہوتی تھیں مگر اب لڑاکا طیارے اکثر حد نگاہ سے بہت دور ہوتے ہیں اور ایسے میں کسی تباہ شدہ طیارے کا ملبہ اسے مار گرانے والے ملک کو ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج کل کے دور میں تو الیکٹرانک ثبوت ہی ہوتے ہیں۔۔۔ جہاز چاہے رفال ہو، مگ 29 ہو یا ایس یو 30، ہر طیارے کا ایک الیکٹرانک سگنل ہوتا ہے جو اس کی پہچان ہوتی ہے اور اسی سے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی تصدیق ہوتی ہے۔‘
Getty Imagesکیا کوئی ملک جنگی طیارہ گِرنے کی اطلاع اسے بنانے والی کمپنی یا فروخت کرنے والے ملک کو فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے؟
سنہ 2019 میں انڈیا نے جب پاکستان کا ایف 16 طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا تو اُس وقت امریکی حکام نے پاکستان آ کر اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کے پاس موجود ایف 16 لڑاکا طیارے پورے ہیں۔
اس وقت امریکی جریدے 'فارن پالیسی' نے بتایا تھا کہ پاکستان موجود ایف 16 طیاروں کی گنتی کے اس عمل کے بارے میں معلومات رکھنے والے سینیئر امریکی دفاعی عہدیدار کا کہنا تھا کہ غیرملکی فوجی طیاروں کی فروخت پر استعمال کے معاہدے کے مطابق پاکستان نے امریکہ کو دعوت دی تھی کہ اس کے حکام خود آ کر ایف 16 طیاروں کی گنتی کریں۔
’عموماً اس قسم کے معاہدوں میں امریکہ کی شرط ہوتی ہے کہ خریدنے والا ملک امریکی حکام کی جانب سے سازوسامان کا باقاعدگی سے معائنہ کروائے تاکہ سازوسامان کی گنتی اور حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔'
ایئر کموڈور خالد چشتی کہتے ہیں کہ جب انڈیا نے پاکستانی طیارہ گرانے کا دعویٰ کیا تھا تو پاکستان نے امریکی حکام کو خود دعوت دے کر ملک بُلایا تھا تاکہ وہ خود تصدیق کر سکیں کہ پاکستان کے سب ایف 16 طیارے صحیح سلامت ہیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ انڈیا کو رفال طیارے فراہم کرنے والی کمپنی نئی دہلی کو قانونی طور پر نقصان کی اطلاع دینے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
'انڈیا 40 برسوں سے اس کمپنی سے طیارے خرید رہا ہے اور اتنے عرصے میں خریدار اور کمپنی کے درمیان ایک انڈرسٹینڈنگ ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ رفال بنانے والی کمپنی اس معاملے پر خاموش ہی اختیار کیے رکھے گی۔'
جیوپولیٹیکل فیوچرز سے منسلک اینڈریو ڈیوڈسن بھی ایئر کموڈور خالد چشتی سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ایسا کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں جس کے تحت انڈیا یا کوئی بھی ملک اپنے کسی طیارے کو پہنچنے والے نقصان کی اطلاع دینے کا پابند ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ 'ایک بار طیاروں کی ڈیلیوری ہو جانے کے بعد یہ کسی بھی ملک کی ملکیت بن جاتے ہیں۔'
تاہم اینڈریو کہتے ہیں کہ امریکہ کے بنائے گئے طیاروں بشمول ایف 16اکثر 'اینڈ یوزر مانیٹرنگ' کے پابند ہوتے ہیں۔
امریکی فوج کے سابق اہلکار کے مطابق 'اینڈ یوزر مانیٹرنگ' کے معاہدے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ طیارے حاصل کرنے والے ملک مینوفیکچرنگ کمپنی یا ملک کو جہاز کو پیش آنے والے کسی بھی قسم کے واقعے یا نقصان کی اطلاع دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
'لیکن یہ بھی کسی معاہدے یا سیاسی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی کیا جاتا ہے۔ اس متعلق کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ہے۔'
’پاکستانی فضائیہ نے بیانیے کی جنگ جیت لی‘
پراوین ساہنی کا شمار انڈین کے سینیئر صحافیوں میں ہوتا ہے جو کہ عسکری امور میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’انفارمیشن وارفیئر کی سب اہم چیز اس کا مستند ہونا ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب مِس انفارمیشن اور ڈِس انفارمیشن انتہائی چالاکی سے اصل معلومات کے ساتھ ملا کر شیئر کی جائے اور ’پاکستان نے یہی کیا۔‘
پراوین ساہنی نے اپنے یوٹیوب چینل پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فضائیہ کے ایئر مارشل اورنگزیب احمد نے انٹرنیشنل میڈیا کو جامع بریفنگ دی اور انھوں نے ایک نقشے کی مدد سے صحافیوں کو بتایا کہ کیسے پاکستانی فضائیہ نے انڈین ایئرفورس کے تمام طیاروں کے الیکٹرانک سگنیچر حاصل کیے۔
’انھوں نے انتہائی تحمل سے بتایا کہ کیسے پاکستانی فضائیہ نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈین ایئر فورس کے پانچ طیارے مار گرائے۔ جب آپ میڈیا کو یہ تمام تفصیلات دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ میڈیا کو اپنی سوچ میں ڈھال رہے ہیں۔‘
’اور اگلے دن ہم نے تمام میڈیا پر یہی تفصیلات دیں کیونکہ انڈین ایئرفورس نے ایسے بریفنگ دی ہی نہیں۔‘
انڈین صحافی کہتے ہیں کہ ’اورنگزیب نے انفارمیشن وارفیئر کے اپنے مشن میں کامیابی حاصل کی۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ غلط تھا یہ صحیح۔‘
’ایسے میں انڈین ردِعمل کی غیرموجودگی میں پاکستان کا بیانیہ مستند نظر آتا ہے۔‘
رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟پاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیدو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟آپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟’میزائل گرنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان سُرخ ہو گیا‘