روس نے پاکستان کے ساتھ تنازع میں انڈیا کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کی؟

بی بی سی اردو  |  May 15, 2025

Getty Images’پہلگام حملے کے بعد روس کے ردِعمل کو انڈیا کے تئیں اتنا حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا رہا ہے‘

جب بھی روس اور انڈیا کے تعلقات کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کو سوویت یونین کی گرمجوشی یاد آ جاتی ہے۔

1955 میں سوویت یونین کے رہنما نکیتا خروشیف نے انڈیا کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انھوں نے کہا کہ ہم آپ کے بہت قریب ہیں، اگر آپ ہمیں پہاڑ کی چوٹی سے بھی پکاریں تو ہم آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔

یہاں تک کہ جب 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور صرف روس ہی بچا، تب بھی انڈیا کے ساتھ تعلقات میں اعتماد برقرار رہا۔ جب مغربی ممالک کشمیر کے حوالے سے مخمصے کا شکار تھے تو سوویت یونین نے کہا تھا کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔

سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے کئی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی بنانے کی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ انڈیا نے ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے اور روس شروع سے ہی اس کی حمایت کرتا رہا ہے۔

Getty Images

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سوویت یونین واحد ملک تھا جس نے 1957، 1962 اور 1971 میں کشمیر میں مداخلت کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بلاک کیا تھا۔ روس اب تک چھ بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ویٹو کشمیر کے لیے تھے۔

سوویت یونین نے گوا میں پرتگالی راج کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی فوجی مداخلت کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔

اگست 2019 میں جب اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو روس نے تب بھی انڈیا کی حمایت کی تھی۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد پاکستان میں انڈیا کی فوجی کارروائی پر روس کا ردِ عمل انڈیا کے تئیں اتنا حوصلہ افزا نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

روس کا ردعمل بہت متوازن اور غیر جانبدار تھا۔

روس نے انڈیا اور پاکستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی تھی اور ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ ’انڈیا ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے، پاکستان بھی ہمارا پارٹنر ہے، ہم دہلی اور اسلام آباد دونوں کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔‘

روس کا متوازن جوابGetty Images

3 مئی کو انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے روسی وزارت خارجہ نے کہا تھا، ’روسی وزیر خارجہ نے دہلی اور اسلام آباد سے دو طرفہ بات چیت کے ذریعے تنازعہ ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔‘

روسی وزارت خارجہ کے اس تبصرے کو دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی ایک سینئر فیلو تنوی مدن نے لکھا ’12 سال سے بھی کم عرصے میں روس نے یوکرین پر دو بار حملہ کیا اور انڈیا سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تنازعہ کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔‘

تنوی مدن کی اس پوسٹ پر ایک ایکس صارف نے لکھا کہ ’روس کو کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے وزیر اعظم یوکرین گئے اور کہا کہ روس اور یوکرین کو بات چیت کے ذریعے تنازعہ حل کرنا چاہیے جب کہ انڈیا کو روس جیسے آزمائے ہوئے دوست کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا، اسے نیوٹن کا تیسرا قانون کہتے ہیں، یعنی ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔‘

کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے انڈیا کو مشکل میں ڈال دیا ہےپہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تک

اس کے جواب میں تنوی مدن نے لکھا کہ ’یہ کہنا درست نہیں کہ 2022 میں یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں انڈیا نے روس کا ساتھ نہیں دیا تھا، اس لیے روس نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ 2019 میں بھی پلوامہ کے بعد روس نے انڈیا سے امن کی اپیل کی تھی اور ثالثی کی پیشکش کی تھی۔‘

تنوی مدن کے تبصرے کا جواب دیتے ہوئے تھنک ٹینک او آر ایف میں انڈیا روس تعلقات کے ماہر الیکسی زاخروف نے لکھا ’روس اور انڈیا کے تعلقات میں90 کی دہائی سے اتار چڑھاؤ اتے رہے ہیں۔ 2002 میں بھی پوتن نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تھی لیکن انڈیا نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کے علاوہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ انھیں کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘

ماسکو میں قائم ایچ ایس ای یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر نویدیتا کپور نے الیکسی سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا ’میں بھی نیوکلیئر پوائنٹ پر الیکسی سے متفق ہوں۔ ایک جوہری طاقت کے طور پر روس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ مل کر کشیدگی کو کم کرے۔ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کی طرف بڑھ رہی ہیں، امن کی اپیل فطری ہے۔‘

روس سے توقعاتGetty Images

نویدیتا کپور نے لکھا ہے ’جب چین کھلے عام کسی تنازعے میں پاکستان کی حمایت کرتا ہے تو انڈیا کی جانب سے یہ توقع فطری طور پر بڑھ جاتی ہے کہ روس بھی اسی طرح انڈیا کی حمایت کرے۔ مگر روس اس کشمکش سے بچنا چاہتا ہے کہ وہ ایک بار پھر انڈیا اور چین کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کرے اور دونوں کو اپنی شراکت داری کی یقین دہانی کراتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے دو بڑے اتحادی ایک دوسرے کے مخالف کھڑے ہوں، تو روس عموماً کسی ایک جانب کھل کر پوزیشن لینے سے گریز کرتا ہے۔‘

ہم نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار سے پوچھا کہ وہ پاکستان انڈیا کے تنازع میں روس کے موقف کو کیسے دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’اب تک روس پاکستان اور کشمیر کے معاملے پر انڈیا کو یکطرفہ حمایت کرنے کی بات کرتا تھا لیکن اس بار روس نے پورے معاملے پر دو طرفہ مذاکرات کی بات کی، ثالثی کی بات کی لیکن انڈیا کے حق میں یک طرفہ موقف نظر نہیں آیا۔‘

Yan Dobronosov/Global Images Ukraine via Getty Images

ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں ’یہ درست ہے کہ اس بار بھی روس کا جھکاؤ انڈیا کی طرف نظر آیا لیکن اس کا بیان بہت متوازن تھا۔ یہ پوری طرح سے انڈیا کے حق میں نہیں تھا۔ لاوروف کا بیان بہت متوازن تھا۔‘

ڈاکٹر راجن کمار کا خیال ہے کہ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روس یوکرین جنگ میں انڈیا کا جھکاؤ روس کی طرف تھا لیکن انڈیا نے روس کا مکمل ساتھ نہیں دیا جیسا کہ وہ چاہتا تھا۔ وزیر اعظم نے یوکرین کا دورہ کیا تھا اور یوکرین کی جنگ کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔‘

دوسری وجہ یہ ہے کہ انڈیا امریکہ کے بہت قریب آچکا ہے اور دفاعی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ روس کے ساتھ انڈیا کی دفاعی شراکت میں کمی آئی ہے اور یہ مغرب کے ساتھ بڑھ گئی ہے۔

تیسری وجہ روس کی اپنی مجبوری ہے۔

روس نے طالبان پر سے پابندی اٹھا لی ہے۔ روس پاکستان کے ذریعے افغانستان میں قدم جمانا چاہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پوتن پاکستان کو مکمل طور پر سائیڈ لائن نہیں کرنا چاہتے۔

روس اور پاکستانGetty Images

صدر ولادیمیر پوتن کا آخری دورہ انڈیا دسمبر 2021 میں ہوا تھا، یعنی فروری 2022 میں یوکرین کے ساتھ جنگ ​​شروع ہونے کے بعد سے پوتن انڈیا نہیں آئے۔ دوسری جانب وہ دو بار چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران وہ دوسرے ممالک کے دورے بھی کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پوتن نے ستمبر 2023 میں نئی ​​دہلی میں منعقد ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔

حالیہ برسوں میں ایسی تنظیموں میں جہاں روس کا نمایاں کردار ہے (جیسے شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او) ان میں انڈیا کی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔

نریندر مودی نے جولائی 2024 میں ایس سی او سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ 2023 میں ایس سی او کی سربراہی انڈیا کے پاس ہے اور اسے کم پروفائل چیئرمین شپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس سمٹ کا اہتمام عملی طور پر انڈیا نے کیا تھا۔ دوسری طرف، اس سال انڈیا نے اپنی صدارت میں ہائی پروفائل جی 20 سمٹ کا انعقاد کیا۔

دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ سال 68 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی لیکن اس میں سے انڈیا نے 60 ارب ڈالر کا تیل روس سے خریدا۔

2009 اور 2013 کے درمیان انڈیا کی اسلحے کی درآمدات کا 76 فیصد روس سے تھا لیکن 2019 اور 2020 کے درمیان اس میں 36 فیصد کمی واقع ہوئی ۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے کمار پانڈے کہتے ہیں کہ یوکرین اور روس کی جنگ میں بھی انڈیا روس کے خلاف نہیں تھا لیکن حمایت یک طرفہ نہیں تھی۔

پروفیسر پانڈے کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان روس کے لیے کبھی ناقابلِ رسائی ملک نہیں رہا۔ 1965 کی جنگ میں جب پاکستان اور انڈیا آمنے سامنے تھے، روس نے غیر جانبدار رہتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تاشقند معاہدہ سوویت یونین کی ثالثی میں ہوا تھا اور یہ انڈیا کے حق میں نہیں تھا۔ اس معاہدے کے بعد انڈیا کی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔‘

’البتہ 1971 کی جنگ میں روس یقیناً انڈیا کے ساتھ تھا، مگر اب دنیا بہت بدل چکی ہے۔ اس کے باوجود میرا ماننا ہے کہ روس اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔ انڈیا نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے ایس-400 میزائل سسٹم خریدا اور اس بار بھی روس نے پاکستانی حملہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘

جب سے پاکستان کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کمزور ہوئے ہیں، روس کے ساتھ قربتیں بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ 2023 میں روس اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جو اب تک کی سب سے زیادہ تھی۔ گذشتہ سال روسی نائب وزیرِ اعظم الیگزی اوورچک نے پاکستان کی برکس میں شمولیت کی حمایت بھی کی تھی۔

پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے انڈیا کو مشکل میں ڈال دیا ہےپاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ کتنا حقیقی ہے؟آپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More