وزیراعظم شہباز شریف نے انڈین حملے کے جواب میں پاکستان کی جانب سے کیے گئے آپریشن ’بنیان المرصوص‘ کی کامیابی پر آج ملک بھر میں یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔
اتوار کی صبح وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ دن اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر بجا لانے، افواج پاکستان کی بے مثال بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے اور پوری قوم کے حوصلے اور وحدت کو سراہنے کے لیے منایا جائے گا۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے کہا کہ آپریشن’بنیان المرصوص‘ نے دشمن کی جارحیت کا مؤثر اور بھرپور جواب دیا اور پاکستان نے ہر محاذ پر برتری ثابت کی۔ ہم اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دشمن کی جارحیت کے باوجود پاکستان نے صبر و تحمل لیکن مکمل تیاری کے ساتھ اپنے دفاع کو یقینی بنایا۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ قوم بالخصوص علمائے کرام آج پورے ملک میں اجتماعی دعاؤں اور نوافل کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور شہدا و غازیوں کے لیے خصوصی دعائیں کریں۔‘ان کے مطابق ’افواج پاکستان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔‘
سنیچر کو پاکستان اور انڈیا کے سدرمیان جنگ بندی کے باقاعدہ اعلان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کی کوششوں کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر عالمی اور علاقائی امن اور خطے میں بسنے والے کروڑوں افراد کے مفاد میں جنگ بندی کی تجویز کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آبی وسائل کی تقسیم اور جموں و کشمیر کے تنازع سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرنے کے لیے پُرامن مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا۔‘
22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے کا الزام انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لگایا گیا اور سات مئی پر ملک کے مختلف مقامات پر حملے کیے جس کے جواب میں پاکستان نے انڈیا میں فضائی اڈوں اور کشمیر کے علاقے میں لائن آف کنٹرول کے قریب فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر ایک بڑا جوابی حملہ کیا۔
سی این این کے مطابق نئی دہلی پاکستان کے ردعمل کی شدت سے حیران ہو گیا تھا، اور پھر فریقین نے ’سنجیدگی سے‘ بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکرات میں ’اہم کردار‘ ادا کیا، اور سعودی عرب اور ترکی کے حکام بھی ان مذاکرات میں شامل تھے۔