’امریکی ثالثی‘ اور ڈی جی ایم اوز کی گفتگو: پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’سیز فائر‘ کا نفاذ

بی بی سی اردو  |  May 10, 2025

Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ کے مطابق انڈیا اور پاکستان نے 'فائرنگ اور فوجی کارروائی روکنے کے لیے ایک سمجھوتے پر اتفاق کیا‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی کی ثالثی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’فوری اور مکمل سیز فائر پر اتفاق ہوگیا ہے۔‘

پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ہمیشہ خطے میں امن اور سلامتی کے لیے کوشاں رہا ہے اور اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔‘

دوسری طرف ایکس پر انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان نے ’فائرنگ اور فوجی کارروائی روکنے کے لیے ایک سمجھوتے پر اتفاق کیا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کا دہشتگردی کے خلاف ایک ٹھوس موقف ہے جو یہ اپنائے رکھے گا۔

ادھر انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے آج دن کے تین بج کر 35 منٹ پر انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن سے بات کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان انڈیا کے وقت کے مطابق پانچ بجے سے زمین، فضا، اور سمندر میں مکمل جنگ بندی ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان 12 مئی کو دن 12 بجے (انڈین وقت کے مطابق) دوبارہ بات ہو گی۔‘

Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب امریکی کی ثالثی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان 'فوری اور مکمل سیز فائر پر اتفاق ہوگیا ہے۔'جمعے کی شب سے سنیچر کی شام تک کیا ہوا؟

دونوں ممالک گذشتہ کئی دونوں سے ایک دوسرے پر ڈرون حملوں، میزائل داغنے اور لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی جیسے الزامات عائد کر رہے ہیں اور ان کارروائیوں کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

ایسے میں دونوں جوہری ممالک کے درمیان تصادم کو زیادہ آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ متعدد ممالک کے رہنما پاکستان اور انڈیا کو جنگ سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آئے۔

سنیچر کی علی الصبح پاکستان کی جانب سے انڈیا کے خلاف جوابی کارروائی کا آغاز کرنے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے رابطہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ’دونوں فریقین (پاکستان اور انڈیا) کشیدگی کم کرنے کے طریقے ڈھونڈیں‘۔ انھوں نے مستقبل میں تنازع سے بچنے کے لیے ’بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے امریکی ثالثی کی پیشکش بھی کی۔‘

اسی طرح روبیو کی جے شنکر سے بھی بات چیت ہوئی جس کے بارے میں جے شنکر کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی حکمت عملی سوچی سمجھی اور ذمہ دارانہ رہی ہے اور آگے بھی رہے گی۔‘

جبکہ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ دونوں فریقین کشیدگی کو کم کریں۔

جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب پاکستان نے انڈیا پر اپنی عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ انڈیا نے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس، شورکوٹ ایئر بیس اور مرید ایئر بیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ فوجی ترجمان نے مزید دعویٰ کیا کہ اس انڈین حملے کے نتیجے میں فضائیہ کے تمام اثاثے محفوظ رہے۔ انڈیا نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

گذشتہ رات پاکستان کی فوج کی جانب سے انڈین حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا گیا اور اس آپریشن کو ’بنیان مرصوص‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ چھ مئی کی شب سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر پر انڈیا کے میزائل حملوں اور اس دوران کم از کم 33 شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ انڈیا نے اسے ’آپریشن سندور‘ کا نام دیتے ہوئے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کا ردعمل قرار دیا تھا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھی ہو۔ چھ سال قبل یعنی سنہ 2019 میں بھی پاکستان اور انڈیا باقاعدہ جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان فضائی تصادم بھی دیکھنے میں آیا تھا جس کے دوران پاکستان نے ایک انڈین طیارہ بھی تباہ کر دیا گیا تھا جبکہ اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سنہ 2019 میں ہونے والے پلوامہ حملے کے وقت بھی امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی حکومت تھی۔ امریکہ کے اُس وقت کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپو اپنی کتاب میں لکھ چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتیں ایک باقاعدہ جنگ کے دہانے پر کھڑی تھیں لیکن امریکی مداخلت کے سبب یہ بحران مزید بگڑنے سے بچ گیا۔

’امریکہ غیر جانبدار رہا‘

جب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا ہے تب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے پر دو مرتبہ بات کر چکے ہیں اور بدھ کو انھوں نے اپنے آخری بیان میں کہا تھا کہ ’یہ (صورتحال) افسوسناک ہے، میرے دونوں (انڈیا اور پاکستان) سے اچھے تعلقات ہیں، میں دونوں کو جانتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ دونوں اس معاملے کو حل کر لیں۔ میں چاہوں گا کہ وہ دونوں رُک جائیں۔‘

اس سے قبل دیے گئے اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'وہ کشمیر کے لیے ہزاروں برس سے لڑ رہے ہیں۔۔۔ میں دونوں طرف کے رہنماؤں کو جانتا ہوں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ مسئلہ حل کر لیں گے۔ اس وقت بہت کشیدگی ہے مگر یہ تو ہمیشہ سے ہے۔'

اسی طرح گذشتہ روز امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی ’فوکس نیوز‘ کو ایک انٹرویو دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’انڈیا نے حملہ کیا، پاکستان نے جواب دیا۔ دونوں ممالک کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے، پاکستان اور انڈیا کی جنگ ایٹمی جنگ نہیں بننی چاہیے، اگر ایسا ہوا تو بہت نقصان ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ انڈیا کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ ہم پاکستانیوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔‘

Getty Imagesجے ڈی وینس: ’امریکہ انڈیا یا پاکستان میں سے کسی بھی ملک کو ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہہ سکتا‘

جنوبی ایشیا میں پیدا ہوتے بحران پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکہ نے ابتدائی طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں کم پہل کی۔

جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے امریکہ تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ امریکہ 1999 اور 2019 میں پاکستان اور انڈیا کے دوران ثالثی کی کوششوں کے دوران کافی متحرک رہا تھا لیکن شاید اس بار امریکہ اس معاملے میں زیادہ سرگرم نظر نہ آئے۔

نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کے بیان پر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وینس کا بیان ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔‘

’اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کو بین الاقوامی معاملات میں زیادہ مداخلت کی ضرورت نہیں اور یہ کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے لیکن امریکہ فریقین میں کشیدگی کم کرنے کے لیے بہت آگے تک نہیں جائے گا اور یہ پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں بڑی تبدیلی ہو گی۔‘

رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستانی فوج کا ’رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے‘ گرانے کا دعویٰ: بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیانڈین پنجاب میں سات اور آٹھ مئی کی درمیانی شب ہوئے دھماکوں کا معمہ: امرتسر اور گورداسپور میں لوگوں نے کیا دیکھا؟وزارت اقتصادی اُمور کے ہیک شدہ اکاؤنٹ سے قرض کی اپیل اور کراچی پورٹ کی تباہی کی خبر: ’انڈین میڈیا آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے‘

لیکن کچھ دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی رہنماؤں کے چند بیانات پر یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں ہچکچا رہا تھا۔

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’امریکہ بالکل ہچکچا نہیں رہا اور اس سارے عمل میں شامل ہے۔‘

امریکہ کے موجودہ سیکریٹری خارجہ مارک روبیو کے پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور انڈیا میں وزیرِ خارجہ سے ٹیلیفونک رابطے ہوئے ہیں۔

ان ٹیلیفونک رابطوں کے بعد امریکہ سے جاری ہونے والے بیانات میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری مارک روبیو نے دونوں ممالک سے کشیدگی میں کمی لانے کی درخواست کی ہے اور ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان براہ راست بات چیت‘ پر زور دیا ہے۔

سابق سفیر ملیحہ لودھی ان رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر امریکہ (کشیدگی کم کروانے کی کوششوں میں) شامل نہیں ہوتا تو سیکریٹری روبیو دونوں ممالک میں بار بار فون نہیں کر رہے ہوتے۔‘

Getty Imagesحالیہ کشیدگی میں پاکستان اور انڈیا دونوں جانب جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں

نیویارک کی البانی یونیورسٹی سے منسلک پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلیری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’صدر ٹرمپ کی ٹیم اس وقت متعدد براعظموں پر متعدد بحرانوں کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے حکومتی حکام کی بھی کمی کا سامنا ہے۔‘

’متعدد شخصیات کی تقرری ہی نہیں ہوئی اور جن کی تقرری کی گئی تھی انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ نے بڑے بحرانوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

’بظاہر یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ امریکہ ماضی کے مقابلے میں انڈیا اور پاکستان کے تنازع میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرے گا۔‘

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر محمد شعیب بھی کچھ اس طرح کا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس معاملے پر غیر جانبدار مؤقف اپنایا اور ثالثی کی پیشکش کی۔‘

امریکہ کی ہچکچاہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کی دو وجوہات تھیں: ’پہلی یہ کہ امریکہ ایک وقت میں یوکرین، ایران، غزہ، چین اور تجارتی معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ ٹرمپ پاکستان اور انڈیا کو ایک تاریخی تنازع قرار دے رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں توقع تھی کشیدگی کم ہونے سے پہلے کچھ لڑائی ضرور ہو گی۔‘

لیکن تمام ہی تجزیہ کاروں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ واشنگٹن نے جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںدو جوہری طاقتوں کے درمیان براہِ راست عسکری ٹکراؤ: ’صورتحال حقیقی طور پر خطرناک ہو چکی ہے‘پاکستان اور انڈیا میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر: ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان حالات کیسے بہتر ہوئے؟پاکستان، انڈیا کشیدگی کم کروانے کے لیے ایران ثالث کا کردار کیوں ادا کرنا چاہتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More