پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورہ نیوزی لینڈ ختم ہوا۔ آج تیسرا ون ڈے میچ بھی ہار گئے اور یوں ون ڈے میچز میں وائٹ واش ہو گیا، تین صفر سے بدترین شکست۔ ٹی20 میچز میں بھی بہت بری طرح ہارے، مگر خوش قسمتی سے ایک میچ جیت لیا تھا تواس فارمیٹ میں وائٹ واش نہیں ہوا، چار ایک سے شکست ہوئی۔ٹی20 سیریز میں بابراعظم اور محمد رضوان کو ڈراپ کر کے نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا تو ٹی20 شکست کو ناتجربہ کار ٹیم کی شکست کہا جا سکتا ہے، ون ڈے سیریز میں یہ بھرم بھی ختم ہوا کہ اس بار بابراعظم، محمد رضوان کے ساتھ عبداللہ شفیق، امام الحق بھی شامل تھے، جبکہ حارث رؤف کو بھی ون ڈے سکواڈ میں شامل کر لیا گیا۔ یوں بولنگ بھی ناتجربہ کار نہیں تھی، نسیم شاہ، حارث روف، وسیم جونیئر، فہیم اشرف وغیرہ پر مشتمل خاصا تجربہ کار پیس اٹیک تھا، البتہ عاکف جاوید نئے فاسٹ بولر ہیں اور سپنر سفیان مقیم کی انٹری نئی تھی۔
نوجوان ٹی20 ٹیم کی طرح ہماری تجربہ کار ون ڈے ٹیم بھی شکست فاش سے دوچار ہوئی، تینوں میچز تقریباً یک طرفہ ہارے۔ ایک میچ بھی آخری اوور تک نہیں گیا۔ شکست بڑی تھی اور خاصی ذلت انگیز بھی۔ اس میں البتہ ہمارے لیے سیکھنے کے چند نکات ضرور ہیں۔ اگر ہم غور کریں۔
مسئلہ فارم نہیں بلکہ کوالٹی ہےاس دورے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مسئلہ پاکستانی کھلاڑیوں کی فارم کا نہیں بلکہ ان کی کوالٹی اور کیپیسٹی کا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی کھلاڑی بہت اچھا ہے، مگر آج کل اس کی فارم اچھی نہیں اور کل کو فارم واپس آ جائے تو وہ کمال کر دکھائے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کے بیشتر کھلاڑی اوسط اور اس سے تھوڑے نیچے درجے کے ہیں، دو تین کھلاڑی آوٹ کلاس بھی ہیں، ایک آدھ ورلڈ کلاس مگر ان کے بھی کیپیسٹی کے ایشوز ہیں۔ ماڈرن کرکٹ کے معیار سے وہ اپ ٹو ڈیٹ نہیں۔ انہیں اپنی کیپیسٹی (استعداد، صلاحیت) بہتر بنانا ہو گی، تب ان کی کارکردگی اچھی ہو گی۔اب ہمیں اپنے اوسط درجے کے کھلاڑیوں سے بتدریج جان چھڑانی اور ان کی جگہ نئے باصلاحیت غیرمعمولی کھلاڑیوں کو شامل کرنا ہے۔ عثمان خان نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف تکنیک سے عاری کھلاڑی ہے بلکہ تیز پچوں پر ناکام ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی جگہ کسی زیادہ باصلاحیت نوجوان کھلاڑی کو کھلائیں اور اس پر وقت اور توانائی انویسٹ کریں۔ حسن نواز کی تکنیک میں بھی خامیاں ہیں، مگر وہ عثمان خان سے کچھ بہتر ہے اور پھر نوجوان ہے، اسے مزید سکھایا جا سکتا ہے،اچھی کوچنگ اسے پالش کر سکتی ہے۔جیسے سفیان مقیم ایک باصلاحیت غیرمعمولی مسٹری سپنر ہے۔ شاداب خان، اسامہ میر، محمد نواز وغیرہ جیسے گھسے پٹے اوسط سپنرز کی نسبت سفیان کو زیادہ مواقع ملنے چاہییں، اسے اچھی سپن کوچنگ دیں، یہ میچ وننگ پلیئر ہے۔شاداب خان، اسامہ میر، محمد نواز وغیرہ جیسے گھسے پٹے اوسط سپنرز کی نسبت سفیان مقیم کو زیادہ مواقع ملنے چاہییں۔ (فوٹو: اے ایف پی)پالیسی میں تسلسل رکھیں مگر کمبی نیشن درست ہوہیڈ کوچ عاقب جاوید کے آنے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ پرانے کھلاڑیوں کو باہر بٹھا کر یا وقتی طور پر سائیڈ میں کر کے نوجوان یا ڈومیسٹک کے پرانے کھلاڑیوں کو مواقع دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ اچھا ہے، اسے جاری رکھنا چاہیے۔ اگر نئے چانسز نہ ملتے تو سفیان مقیم جیسا سپنر ٹیم کو نہ ملتا، فیصل اکرم کی صورت میں آپشن سامنے نہ آتی۔ حسن نواز کی انٹری بھی نہ ہوتی، جبکہ محمد حارث بھی ٹیم میں نہ آ پاتا۔ اسی طرح عاکف جاوید کی بولنگ دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ اسے کم از کم دو برس پہلے موقع مل جانا چاہیے تھا۔ اندازہ ہوا کہ ڈومیسٹک سرکٹ میں ٹیلنٹڈ کھلاڑی اور بھی ہوں گے، انہیں مواقع نہیں دیے جا رہے۔باصلاحیت کھلاڑی خواہ نیا ہو یا ڈومیسٹک میں چند برس گزارنے والا، انہیں مواقع ضرور دیں۔ ایک 30 سالہ اچھا کھلاڑی بھی تین چار برس کے لیے قومی ٹیم کو فتوحات دلا سکتا ہے تو اسے کیوں موقع نہ ملے؟ ٹیم کمبی نیشن البتہ ٹھیک کریں۔ہمارے پاس باصلاحیت بولنگ آل راونڈرز نہیں۔ یہ ڈھونڈنے ہوں گے۔ شاداب، فہیم اشرف، خوشدل شاہ کوئی مستقل آپشن نہیں۔ اسی طرح پاور ہٹرز کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ ون ڈے اور ٹی20 دونوں میں یہی مسئلہ ہے۔ ہماری بیٹنگ ٹیل بعض اوقات خاصی لمبی اور بہت کمزور ہوتی ہے، ہمارے بولرز کو نیٹ میں مزید بیٹنگ پریکٹس کرانا ہو گی۔ نسیم شاہ میں آل راونڈر بننے کے امکانات ہیں، شاہین شاہ بھی بن سکتا ہے۔ حارث رؤف، ابرار، سفیان سب کو بڑے شاٹس کھیلنے کی ٹریننگ دلوانا ہو گی۔عاکف جاوید کی بولنگ دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ اسے کم از کم دو برس پہلے موقع مل جانا چاہیے تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)سٹارز بولرز کو کئی چیزیں سیکھنا ہوں گیدورہ نیوزی لینڈ میں ہماری فاسٹ بولنگ بری طرح ایکسپوز ہوئی ہے۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے پریمیئر فاسٹ بولرز نیوزی لینڈ جیسی تیز باونس والی پچز پر بھی اچھی تباہ کن بولنگ نہیں کرا پا رہے۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف ، نسیم شاہ تینوں کو اپنی خامیوں پر کام کرنا ہو گا۔ عباس آفریدی اور وسیم جونیئر کے اپنے مسائل ہیں۔ ڈومیسٹک سے آنے والے تجربہ کار محمد علی، عاکف جاوید کو بھی بعض چیزیں سیکھنا ہوں گی۔حیرت ہے کہ تینوں مین پاکستانی فاسٹ بولرز شاہین، نسیم، حارث رؤف اپنی اچھی بھلی سپیڈ کے باوجود باونسر نہیں کراتے، نجانے کیوں؟ حارث رؤف شارٹ آف لینتھ کراتا ہے، کمر تک گیند اٹھاتا ہے مگر ویل ڈائریکٹڈ باونسر نہیں۔ یا اگر باونسر کرائے تو وہ اتنا اونچا ہوتا ہے کہ بلے باز آرام سے چھوڑ دے یا وائیڈ بال ہو جائے۔ ان تینوں کو یہ چیزیں سیکھنا ہوں گی۔عباس آفریدی ٹی20 کے اچھے بولر ہیں، وہ اچھی سلو بال کراتے ہیں، مگر یہ تب خامی بن جائے جب عباس آفریدی ایک اوور میں تین چار سلو گیندیں کرائے۔ سلو بال کی خوبی ہی یہ ہے کہ باولر 140 142 کی سپیڈ سے گیند کرا رہا ہے اور بیچ میں وہ 110، 115 کی سپیڈ سے سلو بال کرا دے گا تو مخالف بلے باز بھونچکا رہ جائے، گیند مس ہو جائے گی یا اونچا شاٹ لگ کر وکٹ مل جائے گی۔ البتہ فاسٹ بولر ہر دوسرا گیند سلو کرائے گا تو بلے باز اسے جج کر لے گا اور پھر آرام سے سلو بال پر چھکا لگ جائے گا۔ عباس آفریدی کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔حیرت ہے کہ شاہین، نسیم، حارث رؤف اپنی اچھی بھلی سپیڈ کے باوجود باونسر نہیں کراتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)وسیم اکرم کے بقول پی ایس ایل میں کراچی کنگ کا رمان رئیس بھی ایسی ہی ویری ایشن کے ساتھ گیندیں کراتا تھا، تجربہ کار وسیم اکرم نے اسے سمجھایا کہ جب تک وہ 140 سے زیادہ سپیڈ سے گیندیں نہیں کرائے گا، یہ سلو ویری ایشن موثر نہیں ہوں گی۔ عباس آفریدی کو بھی یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔عاکف جاوید کے بولنگ ایکشن میں لمبا جمپ لینے پر راشد لطیف اور باسط علی وغیرہ نے اعتراضات کیے ہیں۔ یہ ہمارے سسٹم کی خامی ہے کہ ایک لڑکا کئی برس تک ٹاپ لیول کی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتا رہا، وہ ایمرجنگ فاسٹ بولر تھا، پی ایس ایل بھی کھیلا، مگر کسی نے اس کے ایکشن میں اس خامی کو بروقت دور نہیں کرایا۔ اب اتنا لمبا کھیلنے کے بعد کچھ نہیں ہو سکتا، ایکشن کو چھیڑا گیا تو عاکف جاوید بیکار ہو جائے گا۔ سبق مگر یہ ملتا ہے کہ نوجوان فاسٹ بولرز کے یہ مسائل انڈر19 ہی میں ٹھیک کر لیے جائیں۔شاہین شاہ آفریدی پر محنت کریںشاہین شاہ آفریدی کا مسئلہ یہ ہے کہ کئی برس تک ان کا اِن کٹر گیند خطرناک رہا، خاص کر نئی گیند سے وہ فل لینتھ پر گیند کرا کر اندر لاتے اور وکٹ لے لیتے تھے۔ اکثر ان کے پہلے اوور میں وکٹ مل جاتی۔اب سب بدل گیا ہے۔ دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ شاہین شاہ کو اس دوران انجریز ہوئیں۔ فاسٹ بولرز انجریز کے بعد کچھ نہ کچھ بدل جاتے ہیں، ان کے ایکشن میں معمولی سی تبدیلی آ جاتی ہے، وہ زیادہ زور نہیں لگاتے کہ کہیں پھر سے ان فٹ نہ ہو جائیں۔ یارکر کراتے ہوئے جسم کو جو مشقت اٹھانا پڑتی ہے، اس سے بھی گریز کرتے ہیں۔شاہین شاہ آفریدی کو اب گیند باہر نکالنے میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)دوسری سب سے بڑی بات یہ کہ ماڈرن کرکٹ میں ہر ٹیم کے ساتھ ڈیٹا اینالسٹ ہوتے ہیں، وہ مخالف ٹیم کے بولروں کے ایکشن اور باولنگ کا تجزیہ کر کے حکمت عملی بناتے اور اسی حساب سے اپنے بلے بازوں کو نیٹ میں پریکٹس کراتے ہیں۔ آج کل بولرز اور بلے باز دونوں کو اپنے کھیل میں مسلسل بہتری اور کچھ نہ کچھ نیا لانے کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ ان پر ہوم ورک کر کے انہیں ناکام بنا دیا جاتا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کا لیٹ اِن کٹر اب خطرناک نہیں رہا، مخالف بلے باز اس کے لیے تیار رہتا ہے اوربہت بار ایسی پچز پر جہاں گیند سوئنگ نہ ہو رہا ہو، وہاں فل لینتھ گیند کرانے کا مطلب لانگ آف، لانگ آن یا سٹریٹ چوکا کھانا ہے۔ ایسا شاہین شاہ کے ساتھ مسلسل ہو رہا ہے۔ اوپر سے وہ ذہن استعمال کر کے پلان بی پر جانے کے بجائے ایک چوکا کھانے کے بعد مزید زور لگا کر ویسی گیند کراتا اور مزید چوکے چھکے کھاتا ہے۔ ایک مین فاسٹ بولر ایک اوور میں دو تین چھکے کھا لے تو پوری بولنگ دباؤ میں آ جاتی ہے۔شاہین شاہ آفریدی کو اب گیند باہر نکالنے میں مہارت حاصل کرنا ہو گی، وہ اچھی آوٹ سوئنگ گیندیں کرانے کے بعد کوئی کوئی گیند اندر لائیں گے تو وہ زیادہ خطرناک ہو گی۔ سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کا بھی شاہین کے لیے یہی مشورہ ہے۔ شاہین کو انِ کٹر کے ساتھ لیگ کٹر کرانا سیکھنا ہو گا۔ وہ آوٹ سوئنگ کرانے لگے ہیں مگر اس میں مہارت نہیں اس لیے تسلسل نہیں رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ شاہین شاہ کو یارکر خاص کر وائیڈ آف آف سٹمپ یارکر کرانے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ ڈیتھ اوورز میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔ بُمرا اپنے ان سوئنگ یارکر کی وجہ سے ڈیتھ اوورز میں اتنا خطرناک ہے، اس کے لیے مگر بمرا نے بہت محنت کی۔ شاہین شاہ کو بھی یہ سب کرنا ہو گا۔ وہ اپنے اتنے لمبے قد کے باوجود ویل ڈائریکٹڈ باونسر نہیں کراتا، حالانکہ بہت بار یہ بہترین حربہ ثابت ہوتا ہے۔بابر اعظم طبعاً اور مزاجاً کرکٹنگ شاٹس کھیلتے ہیں، یعنی محفوظ سٹینڈرڈ شاٹس۔ (فوٹو: اے ایف پی)بابر اعظم کے تکنیکی مسائل حل کرنے ہوں گےپاکستانی ٹیم کے لیے بابر اعظم پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ بابر پاکستانی ٹیم کا تکنیکی اعتبار سے بہترین بلے باز ہے، اس کی نظر اچھی ہے، وہ سیدھے بلے سے شاٹس کھیل سکتا ہے، اس کا کور ڈرائیو غیرمعمولی ہے، وہ فاسٹ بولرز کے ساتھ سپنرز کو بھی اچھا کھیل سکتا ہے۔ البتہ وقت گزرنے کےساتھ اس کے بعض تکنیکی ایشوز سامنے آئے ہیں۔بابر طبعاً اور مزاجاً کرکٹنگ شاٹس کھیلتا ہے، یعنی محفوظ سٹینڈرڈ شاٹس۔ وہ غیرروایتی سٹروکس جیسے ریورس سوئپ، ریورس فلک، سکوپ شاٹ نہیں کھیلتا۔ وہ اندھا دھند کریز سے باہر نکل کر اونچا شاٹ نہیں کھیل سکتا، وہ وکٹیں چھوڑ کر آف سٹمپ کے باہر کی گیند کو فائن لیگ کی طرف کھیلنے جیسے ایڈونچر نہیں کرتا۔ یہ ایک زمانے میں خامی نہیں بلکہ خوبی تھی، بڑے بلے باز ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حنیف محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار ان کا بیٹا شعیب محمد پریکٹس کر رہا تھا، شیعب نے اونچے شاٹس کھیلنے کی کوشش کی تو حنیف محمد چلا اٹھے، بیٹے کو بے ساختہ کہا، گراونڈڈ شاٹس کھیلو بیٹا، ورنہ بھوکے مرو گے۔ مطلب یہ تھا کہ رسکی شاٹس کھیلتے رہے تو ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ سکور نہیں کر پاؤ گے اور ٹیم سے باہر ہونا پڑے گا۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد کی بات درست تھی، تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ آج مگر وائٹ بال کرکٹ خاص کر ٹی20 کرکٹ میں غیرروایتی ایڈونچرس شاٹس کھیلنا پڑتے ہیں۔ بے شک اندھادھند بیٹنگ ہو، سٹروکس پر کنٹرول نہ ہو، مگر رنز بننے چاہییں، یہ زیادہ اہم ہے۔ اسی وجہ سے سٹیو سمتھ جیسے بڑے بلے باز کے لیے آسٹریلین ٹی20 سکواڈ میں جگہ بنانا مشکل ہو گیا۔ جو روٹ بہترین انگلش بلے باز ہے، مگر ٹی20 میں اسے نہیں کھلایا جاتا، نیوزی لینڈ کے ولیمسن بمشکل اپنی جگہ بنا پا رہے ہیں، کوہلی نے البتہ بڑے شاٹس کھیلنے میں مہارت حاصل کر لی، اسی وجہ سے وہ ٹی20 کھیلتے رہے، تاہم کوہلی کے لیے بھی یہ آسان نہیں رہا۔بابر اعظم گذشتہ کچھ عرصے میں فاسٹ بولرز کی اندر آتی اِن کٹر گیندوں پر آوٹ ہوتے رہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)خود پاکستان کے محمد یوسف اور یونس خان جیسے بہترین بلے باز ٹی20 کرکٹ کے لیے فٹ نہیں۔ یونس نے تو ٹی20 ورلڈ کپ اپنی کپتانی میں جیتنے کے بعد ٹی20 کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ محمد یوسف کو ٹی20 میں کھلایا نہیں جاتا تھا۔ وجہ یہی تھی کہ یہ دونوں لمبے چھکے نہیں لگا سکتے اور اندھا دھند ہٹنگ کا ان کا مزاج نہیں تھا۔بابر اعظم کے لیے اسی وجہ سے ٹی20 کرکٹ میں مشکل ہو رہی ہے کہ وہاں پر 140 سے 150، 55 کے سٹرائیک سے کھیلنا پڑتا ہے، وہاں سنگلز کا مطلب ہے 100 کا نہایت پست سٹرائیک ریٹ۔ وائٹ بال کرکٹ میں چھکے، چوکوں کے بغیر گزارا نہیں۔بابر اعظم گذشتہ کچھ عرصے میں فاسٹ بولرز کی اندر آتی اِن کٹر گیندوں پر آوٹ ہوتے رہے، لیگ سپنر کی گگلی اور خاص کر لیفٹ آرم سپنرز کا آرم گیند اور مسٹری کھبے سپنر کا اندر آتا گیند انہیں پریشان کرتا ہے۔ بابر کو ان چیزوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔بابر کو بڑے شاٹس پر زیادہ محنت کرنا ہو گی۔ وہ اچھے بھلے سیٹ ہو کر 40، 50 کرنے کے بعد جب تیز کھیلنے کی باری آتی ہے تب ایک اونچا شاٹ کھیل کر اکثر ڈیپ مڈ وکٹ پر باونڈری پر کھڑے فیلڈر کو کیچ تھما کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹیم کے لیے تباہ کن ہے۔ بابر فل بیٹ سپیڈ کے ساتھ اچھا ٹائم کرتے ہیں مگر گیند کی ایلی ویشن اتنی نہیں ہوتی کہ چھکا ہو، وہ کیچ ہو جاتا ہے۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بابر اعظم ہمیشہ ٹیم کو بیچ منجدھار دھوکہ دے جایا کریں گے۔