کراچی کے صدر بازار میں موبائل فون کی ایک دکان پر گاہکوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ایک نوجوان جو بظاہر طالب علم معلوم ہو رہا تھا، ہاتھ میں پکڑے فون کی قیمت کم کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دکاندار نے مسکرا کر کہا اگر یہی فون قانونی طریقے سے آیا ہوتا تو تمہیں 10 ہزار روپے مزید دینے پڑتے۔یہ جملہ پاکستان میں موبائل فون کی موجودہ مارکیٹ کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جہاں ایک طرف سمگل شدہ فونز کی بھرمار ہے تو دوسری طرف ٹیکسوں میں اضافے سے قانونی طور پر درآمد کیے گئے موبائل فونز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان میں موبائل فونز کی غیر قانونی درآمد کوئی نئی بات نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں حکومتی ادارے اس کے خلاف متحرک نظر آ رہے ہیں۔حال ہی میں پاکستان کسٹمز نے کراچی کے صدر میں متعدد گوداموں پر چھاپے مارے اور تقریباً 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے سمگل شدہ موبائل فونز، ٹیبلٹس، ایئرپوڈز اور سمارٹ واچز برآمد کیں۔ کسٹمز حکام کے مطابق یہ کارروائی غیر قانونی تجارت پر قابو پانے اور قانونی درآمدات کے فروغ کے لیے کی گئی ہے۔ماضی میں بڑی تعداد میں غیر قانونی طریقے سے موبائل فونز درآمد کیے جاتے تھے۔ تاہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ڈیوائس آئیڈنٹیفکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) کے متعارف ہونے کے بعد اس میں کمی دیکھی گئی۔ اس نظام کے تحت وہ فون جو قانونی طریقے سے درآمد نہیں ہوئے، ان کی مقامی نیٹ ورکس پر رجسٹریشن ممکن نہیں رہی۔ لیکن مارکیٹ کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ سمگلنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ اب اس کے لیے مزید جدید طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔کراچی کے ایک ریٹیلر جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، بتاتے ہیں کہ لوگ اب بھی سمگل شدہ فونز خریدنے کو تیار ہیں کیونکہ یہ قانونی فونز سے سستے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے بہت سے فون بلاک کیے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سمگلنگ ختم ہو گئی۔ٹیکسوں کا بوجھ اور قیمتوں میں اضافہغیر قانونی طریقے سے موبائل فونز کی درآمد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پیپاکستان میں موبائل فونز پر عائد ٹیکسز کی شرح کافی زیادہ ہے۔ ایک درمیانے درجے کے سمارٹ فون کی قیمت پر ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز لاگو ہوتے ہیں، جس سے یہ عام صارف کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا اثر سب سے زیادہ سام سنگ اور ایپل جیسے مہنگے برانڈز پر پڑا ہے۔موبائل فونز کے ایک ڈیلر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ ’جو فون دبئی میں 80 ہزار روپے کا ملتا ہے، اس کی قیمت پاکستان میں 1 لاکھ 50 ہزار ہے۔ زیادہ ٹیکسز کی وجہ سے لوگ یا تو پرانے فون پر گزارا کرتے ہیں یا سمگل شدہ فونز خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘آل پاکستان موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفہام کے مطابق ’عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ موبائل مارکیٹوں سمگل شدہ موبائل فروخت کیے جا رہے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اب مقامی سطح پر تیار ہونے والے موبائل فونز درآمد کیے گئے موبائل فونز کے مقابلے میں مارکیٹ کا بڑا حصہ ہیں۔ لوگ اب پاکستان میں اسمبل ہونے والے چائینز موبائل فونز کو خریدنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ صارفین کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اب بھی درآمد کیے گئے برانڈڈ فونز کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں کراچی کی موبائل مارکیٹوں پر محکمہ کسٹمز اور دیگر اداروں نے کارروائیاں کی ہیں اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کروڑوں روپے مالیت کے فونز برآمد کیے گئے ہیں۔مقامی مینوفیکچرنگ: کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ٹیکسز کے باعث ایک عام فون کی قیمت میں بھی بے تہاشہ اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیٹیکسز اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پاکستانی صارفین کا رجحان زیادہ تر چینی برانڈز کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ شیاؤمی، ریئلمی، اوپو اور ویوو جیسی کمپنیاں جدید فیچرز کم قیمت میں فراہم کر کے مارکیٹ پر حاوی ہو چکی ہیں۔ ان کمپنیوں نے پاکستان میں اپنی مقامی مینوفیکچرنگ بھی شروع کر دی ہے جس سے قیمتوں میں کچھ حد تک کمی آئی ہے۔آئیکون ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر عبدالواہاب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے موبائل مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں جن کے تحت سام سنگ، ویوو اور انفی نکس جیسی کمپنیاں پاکستان میں ہی موبائل فونز تیار کر رہی ہیں۔عبدالواہاب کے مطابق ان اقدامات سے قیمتوں میں کچھ حد تک استحکام آیا ہے لیکن ابھی بھی درآمد شدہ فونز کی مانگ زیادہ ہے۔