بولان میں ہائی جیک ہونے والی جعفر ایکسپریس بحال: ’ٹرین کی بحالی سے خوشی ہے بس یہی دعا ہے اللہ خیر کرے‘

بی بی سی اردو  |  Mar 28, 2025

Getty Imagesپاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور تک ملک کے چاروں صوبوں کو جوڑنے والیٹرین جعفر ایکسپریس 17 روز تک معطل رہنے کے بعد دوبارہ کوئٹہ سے اپنے منزل پشاور کی جانب جمعے کو روانہ ہوئی۔

بلوچستان کے علاقے بولان میں حملے کا نشانہ بننے والی ریل گاڑی جعفر ایکسپریس پر دور سے گولیوں یا راکٹ کے گولوں سے ہونے والا نقصان دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم اگر اسے قریب سے دیکھا جائے تو بعض نشان اب بھی موجود ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور تک ملک کے چاروں صوبوں کو جوڑنے والی یہ ٹرین 17 روز تک معطل رہنے اور بوگیوں کی مرمت اور سکیورٹی کلیئرینس کے بعد دوبارہ کوئٹہ سے اپنے منزل پشاور کی جانب جمعے کو روانہ ہوئی ہے۔

اس موقع پر جہاں ایک جانب کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر پشاور کے لیے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس کے انجن کو خوب سجایا گیا تھا وہیں اس سلسلے میں ایک تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی جمال شاہ کاکڑ ریلوے سٹیشن کوئٹہ پر ٹرین سروس کی بحالی کی تقریب کے مہمان خاص تھے۔ اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے جمال شاہ کاکڑ نے کہا کہ ٹرین سروس کی بحالی سے لوگوں کو سفر کی اچھی سہولت ملے گی۔

ڈی ایس ریلوے کوئٹہ ڈویژن عمران حیات نے اس موقع پربتایا کہ ’جعفر ایکسپریس میں پہلے سے بکنگ کی گئی تھی اور آج اس ٹرین میں چار سو سے زائد مسافر سفر کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ٹرین کی سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں تاہم انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔

Getty Imagesاس موقع پر جہاں ایک جانب کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر پشاور کے لیے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس کے انجن کو خوب سجایا گیا تھا وہیں اس سلسلے میں ایک تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔

قبل ازیں ٹرین کی روانگی سے دو روز قبل وفاقی وزیر ریلویز حنیف عباسی نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن کا دورہ اور متاثرہ بوگیوں کا معائنہ کیا تھا۔ اس موقع پر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ٹرینوں کی سکیورٹی کے لیے ایک منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔

اپنے دورۂ کوئٹہ سے قبل وفاقی وزیر ریلویز حنیف عباسی نے اسلام آباد میں بلوچستان میں ٹرینوں کی سکیورٹی کی حوالے سے جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں انھوں نے یہ بتایا تھا کہ بولان میں ٹرینوں کے سکیورٹی کے لیے ڈرون کا استعمال کیا جائے گا۔

تاہم انھوں نے کوئٹہ میں ٹرین سروس کی بحالی کے حوالے سے کی جانے والی پریس کانفرنس میں ٹرینوں کی سیکورٹی کے لیے ڈرون یا اس نوعیت کے دیگر جدید سکیورٹی اقدامات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

انھوں نے بتایا کہ ’ریلوے پولیس میں سکیورٹی کے لیے پہلے مرحلے میں پانچ سو پولیس اہلکاروں کی بھرتی کی جائے گی جن کی 70 فیصد تعیناتی بلوچستان میں کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جائیں گے اور دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے لیے ان کو جدید تربیت فراہم کی جائے گی۔‘

حنیف عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ٹرینوں کی سکیورٹی کے لیے فرنٹیئر کور کے ساتھ منصوبہ بنایا گیا ہے اور ہم اس منصوبے کے تحت ان ٹرینوں کو چلائیں گے۔‘

یاد رہے کہ 11 مارچ کو مسلح عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے علاقے بولان میں جعفر ایکسپریس کو ایک حملے کا نشانہ بنایا تھا اور اس ٹرین کو ہائی جیک کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

جس کے بعد ٹرین اور مسافروں کی بازیابی کے لیے پاکستان کی فوج نے ایک آپریشن کیا تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران ٹرین پر حملے میں ملوث 33 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ حملے میں عسکریت پسندوں نے 18 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد کو ہلاک کیا تھا۔

کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیاتھا کہ ٹرین پر حملے کے بعد جھڑپوں میں اس کے 12 جنگجو مارے گئے تھے۔

واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ٹرین سروس کے معطل ہونے سے کوئٹہ سمیت جیکب آباد تک بلوچستان کے تمام ریلوے سٹیشن ویران ہو گئے تھے۔ تاہم جمعہ کو کوئٹہ سے جعفر ایکسپریس کی پشاور کے لیے روانگی اور پشاور سے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس کے کوئٹہ پہنچنے پر ریلوے سٹیشن کوئٹہ کی رونقیں بحال ہو گئیں ہیں۔

ٹرین سروس کی بحالی پر مسافروں کا خوشی کا اظہارGetty Imagesجہاں بیشتر مسافر ٹرین سروس کی بحالی پر خوش تھے وہیں کچھ اب بھی 11 مارچ کو پیش آنے والے واقعے کے باعث کچھ خوف اور فکر بھرے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔

جمعہ کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پرجعفر ایکسپریس کی پشاور کے لیے روانگی کے وقت ایک گہما گہمی دیکھنے میں آئی۔ جہاں بیشتر مسافر ٹرین سروس کی بحالی پر خوش تھے وہیں کچھ اب بھی 11 مارچ کو پیش آنے والے واقعے کے باعث کچھ خوف اور فکر بھرے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔

اس موقع پر شوکت علی نامی ایک مسافر نے جو کوئٹہ سے جعفر ایکسپریس کی اکانومی کلاس میں رحیم یار خان جانے کے لیے سوار ہوئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹرین سروس کی بحالی پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرین سروس کی جلد بحالی حکومت کی جانب سے ایک اچھا قدم ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم آج روانہ ہوئے ہیں اور اپنے گھر جا کراپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں گے۔‘

چیچا وطنی جانے والے محمد سلیم نامی مسافر نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ دس ماہ سے اپنے گھر سے دور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹرین کی بحالی سے بہت خوشی ہے بس ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ خیر کرے۔‘

ایک مسافر شہزاد کا کہنا تھا کہ ٹرین کی بحالی کی انھیں خوشی ہے کیونکہ اب متوسط طبقے کے مسافروں کو آمدورفت میں مشکلات نہیں ہوں گی۔

جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانیجعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟واحد ٹرین جو چاروں صوبوں کو جوڑتی ہےGetty Imagesجعفر ایکسپریس کوئٹہ سے وہ واحد مسافر ٹرین ہے جو کہ چاروں صوبوں سے گزرتی ہے۔

جعفر ایکسپریس بلوچستان کے معروف مسلم لیگی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر تاج محمد جمالی کے والد میر جعفر خان جمالی کے نام سے منسوب ہے۔

جعفر خان جمالی کا شمار بلوچستان سے بانی پاکستان محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ جب ان کے قریبی عزیز میر ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ان کے دور میں پہلے سے چلنے والی ایک ٹرین کو میر جعفر خان کے نام سے منسوب کر کے اس کا نام جعفر ایکسپریس رکھ دیا گیا تھا۔

جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے وہ واحد مسافر ٹرین ہے جو کہ چاروں صوبوں سے گزرتی ہے۔ یہ کوئٹہ سے سندھ کے شہر سکھر پہنچتی ہے اور وہاں سے صوبہ پنجاب کے شہروں ملتان اور لاہور کے راستے راولپنڈی سے ہوتے ہوئے خیرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور تک جاتی ہے۔

ماضی کے مقابلے میں ریلوے ٹریک کی خستہ حالی اور ریل کے انجن پرانے ہونے کی وجہ سے جعفر ایکسپریس کوئٹہ اور پشاور کے درمیان یہ مسافت 30 گھنٹے سے زائد میں طے کرتی ہے۔

سنہ 2000 سے قبل کوئٹہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں کے درمیان کوئٹہ سے زیادہ ٹرینیں چلتی تھیں۔ لیکن مالی مشکلات اور سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اس وقت ان کی تعداد صرف تین ہے جن میں جعفر ایکسپریس کے علاوہ بولان میل اور چمن پسینجر ٹرین شامل ہیں۔

بولان میل کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ہفتے میں تین دن جبکہ چمن پسینجرکوئٹہ اور بلوچستان کے سرحدی شہر چمن کے درمیان چلتی ہے۔

جعفر ایکسپریس کا آپریشن بحال ہونے سے دو روز قبل وفاقی وزیر ریلویز حنیف عباسی نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے دورہ کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بولان میل کو کوئٹہ اور کراچی کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا اعلان کیا۔

لوکو شیڈ کوئٹہ اور متاثرہ بوگیوں کی مرمت

جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے کئی روز بعد سکیورٹی کلیئرنس ملنے پر ریلوے کی ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچی تھیں اور ٹریک کی مرمت کر کے متاثرہ بوگیوں کو کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں پہلے ٹرین کی حملے سے متاثرہ بوگیوں کی ایک جامع تلاشی لی گئی تھی اور اس دوران ان سے دو دستی بم بھی برآمد ہوئے تھے۔

ریلوے پولیس کوئٹہ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس متعلق بی بی سی کو بتایا کہ ان میں سے ایک دستی بم استعمال نہیں ہوا تھا جبکہ دوسرا پھٹ نہیں سکا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ جو دستی بم استعمال نہیں ہوا تھا اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے قبضے میں لے کیا تھا جبکہ دوسرے دستی بم کو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔

ٹرین کی متاثرہ بوگیوں کی مرمت کا کام کوئٹہ سٹیشن پر موجود لوکو شیڈ میں کیا گیا اور چار سے پانچ روز میں متاثرہ بوگیوں کی مرمت اور رنگ و روغن کا کام مکمل ہوا۔بوگیوں پر گولیوں اور راکٹ کے گولوں کی وجہ سے پڑنے والے سوراخ بھرنے کے بعد ان کو رنگ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ نشان اب دور سے نظر نہیں آتے۔

لوکو شیڈ میں کھڑی ٹرین کی بوگیوں کی مرمت کرنے والے ایک ریلوے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جن بوگیوں کو اندر سے نقصان پہنچا تھا ان کو اچھی طرح مرمت کیا گیا ہے جس کے بعد ’یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی شدید حملے کا نشانہ بنی تھی۔‘

درہ بولان اور ماضی میں ٹرینوں پر حملےGetty Imagesجہاں کوئٹہ سے جعفرآباد تک ریلوے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے نقصان پہنچایا جاتا رہا وہیں ٹرینوں پر ریموٹ کنٹرول بم حملوں کے علاوہ ان پر پہاڑوں سے راکٹوں سے بھی حملے ہوتے رہے۔

بلوچستان میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بلوچستان میں حالات خراب ہوئے تو کوئٹہ سے بلوچستان کے سندھ سے متصل سرحدی ضلع جعفرآباد تک ٹرینوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم یہ حملے سب سے زیادہ درّہ بولان میں ہوتے رہے۔

جہاں کوئٹہ سے جعفرآباد تک ریلوے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے نقصان پہنچایا جاتا رہا وہیں ٹرینوں پر ریموٹ کنٹرول بم حملوں کے علاوہ ان پر پہاڑوں سے راکٹوں سے بھی حملے ہوتے رہے۔

یہ حملے کمی و بیشی کے ساتھ اب بھی جاری ہیں تاہم بولان میں سب سے بڑا حملہ 11 مارچ 2025 کو مشکاف اور پنیر کے درمیان جعفر ایکسپریس پر کیا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے بلوچستان میں ٹرینوں پر اب تک ہونے والا بڑا حملہ تھا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ٹرین ہائی جیکنگ کا پہلا واقعہ تھا۔

درّہ بولان ماضی میں بھی بلوچستان میں مزاحمت کے بڑے مراکز میں سے ایک رہا ہے اور مورخین کے مطابق نہ صرف انگریزوں کو بولان اور اس سے متصل علاقوں میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ قیام پاکستان کے بعد 70 کی دہائی میں بھی یہ شورش کا بڑا مرکز تھا۔

جس طرح موجودہ شورش میں یہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے اسی طرح 70 کی دہائی کے اوائل کی شورش میں بھی یہ اسی کالعدم تنظیم کی کارروائیوں کا مرکز رہا۔

بولان انتظامی لحاظ سے ضلع کچھی کا حصہ ہے جو کہ کوئٹہ اور سبی کے درمیان دشوار گزار پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں کوئٹہ کے جنوب مشرق میں کولپور سے لے کر ڈھاڈر تک 80 کلومیٹر سے زائد ایک درّہ بھی ہے جو کہ درّہ بولان کہلاتا ہے۔

یہ درہ صدیوں سے تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے جو کہ ماضی میں انڈیا، افغانستان اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک کے درمیان اہم تجارتی گزرگاہ رہی ہے۔

اسی طرج یہ درّہ بلوچستان کے سرد اور گرم علاقوں کے درمیان نقل مکانی کرنے والے خانہ بدوشوں کی بھی گزرگاہ ہے جو کہ سردی میں کچھی، سبی اور نصیر آباد کی جانب جاتے ہیں جبکہ گرمی میں واپس کوئٹہ اور دیگر سرد علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

جب انگریز اس خطے میں آئے تو انھوں نے بولان میں ریل اور روڈ کا نیٹ ورک بچھا دیا۔ یہاں روڈ مکمل طور پر درّہ بولان سے گزرتی ہے۔ درّہ کے علاقوں سے روڈ اور ریلوے لائن ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں جبکہ بعض علاقوں میں ان کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہے۔

چونکہ بعض علاقوں میں ریلوے لائن کو روڈ کے قریب تعمیر کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے پہاڑوں کو کاٹ کر ریلوے لائن کے لیے سرنگیں بنائی گئیں۔

بولان ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ تھا اس لیے انگریزوں نے سبی کے قریب مشکاف سے لے کر کوئٹہ کے قریب کولپور تک ریلوے لائن کو گزارنے کے لیے پہاڑوں میں 17 سرنگیں بنانے کے علاوہ متعدد پل بھی تعمیر کیے۔

اندازاً ان سرنگوں اور پلوں کو اب 130 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن یہ آج بھی مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔

ان میں سے مشکاف کے قریب سب سے بڑی سرنگ کی لمبائی ایک کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ جب ٹرین ان سرنگوں اور درہ بولان کے دیگر علاقوں سے گزرتی ہے تو وہ متعدد علاقوں میں بل کھاتی ہوئی سانپ کی مانند دکھائی دیتی ہے۔

’بوگیوں میں جگہ، جگہ خون اور مسافروں کا بکھرا سامان‘: حملے کے بعد جعفر ایکسپریس کا دورہ کرنے والے صحافیوں نے کیا دیکھا؟جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟جعفر ایکسپریس حملہ: ’ہم نے میت کا آخری دیدار کسی کو بھی نہیں کرایا‘جعفر ایکسپریس پر حملہ کیسے ہوا؟ شدت پسندوں سے لڑنے والے پولیس اہلکار کے مغوی بننے سے فرار تک کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More