امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 26, 2025

امریکی کانگریس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی سے متعلق ایک بِل پیش کیا گیا ہے اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی امریکہ آمد پر پابندی کو بھی اس بِل کا ایک اہم حصہ بنایا گیا ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں 24 مارچ کو رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ کے عنوان سے یہ بِل پیش کیا۔

اس بل میں درج ہے کہ ایسی مخصوص بیرونی شخصیات پر پابندی عائد کی جائے جو پاکستان میں سیاسی حریفوں کو قید کرنے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

اِس بِل کے حوالے سے رپبلکن رکن جو ولسن کا مطالبہ ہے کہ ’ویزے پر پابندی کے ذریعے پاکستان کی فوجی قیادت پر دباؤ ڈالا جائے تا کہ (پاکستان میں) جمہوریت کی بحالی اور عمران خان کی رہائی ممکن ہو۔‘

امریکی ایوان نمائندگان میں اس بل کے پیش کیے جانے پر بی بی سی نے دفتر خارجہ کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے عمران خان کی قید پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے۔

Getty Images’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے اور اسے پیش کرنے والے کون ہیں؟

جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ آیا وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی پر بات کریں گے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماؤں کو یہ امید تھی کہ امریکی صدر انسانی حقوق سے متعلق اپنی آواز بلند کریں گے۔

تاہم ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے ابھی تک عمران خان سے متعلق کوئی بات کی۔ کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں انھوں نے پاکستان کا ذکر ضرور کیا مگر یہ شدت پسند تنطیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شدت پسند کی گرفتاری سے متعلق تھا۔

صدر ٹرمپ نے اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر حملے کے ملزم کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

دریں اثنا ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ملک کی عسکری و سیاسی قیادت کے خلاف امریکی ویزوں کی پابندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ’جب جنرل عاصم منیرعمران خان سمیت سیاسی کارکنان کو رہا کر دیں تو پھر ان پر یہ پابندی اٹھائی جا سکتی ہے۔‘

اپنے ایک ٹویٹ میں اس بل سے متعلق جو ولسن نے لکھا کہ اس میں یہ واضح ہے کہ ’پاکستان میں جمہوریت کی بحالی امریکہ کی پالیسی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کانگریس میں پیش کیے جانے والا یہ بل پاکستان کے آرمی چیف جنرل ’عاصم منیر پر ایک ماہ کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’تمام جرنیلوں اور سرکاری حکام اور ان کے اہل خانہ پر بھی پابندی عائد کرنے کا جائزہ لیا جائے۔‘

جو ولسن ایوان کی خارجہ امور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ رپبلکن پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

جوولسن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے رکن ڈیموکریٹ جیمز ورنی پنیٹا ہیں جو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلجنس افسر رہ چکے ہیں۔

جو ولسن کچھ عرصے سے عمران خان کی رہائی سے متعلق متحرک ہیں۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کو ’نیوٹرل‘ رہنے کا پیغام: کیا عمران خان کے لہجے میں تبدیلی ایک نئی حکمت عملی ہے؟چائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟

جو ولسن نے رپبلکن سٹڈی کمیٹی کے سربراہ آگسٹ پلگر کے ساتھ مل کر گذشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوجی قیادت سے بات کریں۔

جو ولسن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد پوسٹس میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اگست 2023 سے متعدد مقدمات میں گرفتار ہیں، جنھیں وہ ’سیاسی‘ قرار دیتے ہیں۔

جو ولسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر خط جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اور آگسٹ پلگر وزیر خارجہ مارکو روبیو پر زور دیتے ہیں کہ ’پاکستان میں جمہوریت کو بحال اور عمران خان کو رہا کروایا جائے۔‘

’پابندی کا امکان نہیں‘

ماہرین اس طرح کی قانون سازی کو انفرادی عمل قرار دے رہے ہیں۔

سینیئر صحافی نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’یہ خبر پی ٹی آئی کے لیے اطمینان کا باعث تو ہے‘ مگر اس خوشی کی انھیں کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ ان کی رائے میں ’یہ ایک انفرادی فعل ہے اور ایسی کسی مجوزہ پابندی کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔‘

ان کی رائے میں اس قانون سازی پر جاری لابنگ حکومت کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں بن سکتی ہے۔

وکیل مارگن کیرل کولوروڈو اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔ وہ قانون سازی کے مرحلے میں لابنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف سخت مؤقف رکھتی ہیں۔

انھوں نے اپنے دفتر میں بھی ایسے افراد پر پابندی عائد کر رکھی ہے جو انھیں کسی بھی طرح سے سپورٹ کی آفر کرتا ہے۔ ان کے مطابق وہ جب سپیکر تھیں تو انھوں ایسے افراد پر اپنے دفتر میں داخلے پر پابندی عائد رکھی تھی۔

مارگن کیرل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی نظام میں لابنگ خود امریکہ کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔‘ ان کی رائے میں کوئی بھی قانون سازی کسی خاص گروہ یا شعبے کی ایما پر نہیں کی جانی چاہیے۔

مارگن کیرل کی رائے میں ’جب کوئی بھی سیاسی رہنما دوسرے حلقوں سے کسی بھی قسم کی معاونت حاصل کرتا ہے تو پھر اسے ادائیگی بھی کرنا پڑتی ہے۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ قانون سازی کے عمل کو لابنگ سے دور رکھا جانا چاہیے۔

پاکستان پر اس قانون سازی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

امریکی تھنک ٹینک دا ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ایکس پر لکھا کہ ’پاکستان کے بارے میں امریکی قانون سازی کا ایک اہم ترین حصہ آج متعارف کرایا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس بل میں ایسے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پاکستان کے آرمی چیف پر امریکی پابندیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس بل کا قانون بننے کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن یہ پاکستان کی قیادت کو خوفزدہ کر دے گا۔‘

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر عابدہ حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کسی رکن کانگریس کے بیان یا بل پر حکومت نوٹس لینا چاہے تو لے سکتی ہے وگرنہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ابھی نہیں لگتا کہ حکومت اس ’سٹیج‘ پر عمران خان کو رہا کرے گی۔‘

عابدہ حسین کی رائے میں اس قانون سازی سے بظاہر امریکی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ اس پر کوئی ردعمل دے گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفارتکاروں کا بھی کام ہے کہ وہ ایسے لابی کرنے والے اراکین پر نظر رکھیں اور ان سے اس طرح رابطے برقرار رکھیں کہ وہ یوں پاکستان اور اس کے اداروں اور اہم شخصیات سے متعلق واضح موقف نہ لے سکیں۔

عمران خان کی رہائی کے لیے گذشتہ برس لکھا گیا خط

عمران خان کی رہائی سے متعلق اس سے قبل بھی امریکہ میں ایسے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔

امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے سابق صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ان پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستانی جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے اسلام آباد حکومت پر واشنگٹن کا اثرو رسوخ استعمال کریں۔

اس خط میں قانون سازوں نے لکھا ’ہم آج آپ پر زور دیتے ہیں کہ آپ پاکستان کے سابق وزیر اعظم خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے پاکستان کی حکومت پر امریکہ کا اثرورسوخ استعمال کریں۔‘

اس خط کے محرک امریکی نمائندے گریگ کیسر تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس کے متعدد اراکین کی طرف سے اس طرح کی پہلی اجتماعی کال ہے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں تاریخی بے ضابطگیاں اور الیکشن فراڈ ہوا جب کہ ووٹرز کو بھی انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوششیں ہوئیں۔

اراکینِ کانگریس نے خط میں کہا کہ ہم عمران خان کی فوری رہائی اور پاکستان میں پارٹی کے اراکین اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر حراست کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جوبائیڈن انتظامیہ پاکستان کی حکومت سے عمران خان کے تحفظ کی ضمانت لے اور امریکی سفارت خانے کے اہلکار جیل میں سابق وزیرِ اعظم سے ملاقات کریں۔

آرمی چیف کا پاکستان کو ’ہارڈ سٹیٹ‘ بنانے کا بیان: ’طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی ہے‘آرمی چیف نے عمران خان کے ’خطوط نہ پڑھ کر‘ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت کو کیا پیغام دیا؟احتجاج، مذاکرات اور جیل سے لکھے گئے خطوط: پاکستان میں عام انتخابات کے ایک سال بعد تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟’عمران خان سے متعلق ٹرمپ کے تاثرات نہیں جانتا‘:پاکستان میں اپنے بیانات سے ہلچل مچانے والے امریکی جینٹری بیچ کون ہیں؟آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟چائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More