جنوبی افریقہ نے صدر ٹرمپ سے نفرت کے الزام میں امریکہ سے اپنے سفیر کی ملک بدری کے امریکی فیصلے کو ’افسوسناک‘ قرار دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جمعے کو کہا تھا کہ ’جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول کا اب امریکہ میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے ایکس پر اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ میں صدر ٹرمپ کا حوالہ یتے ہوئے لکھا کہ ابراہیم رسول ایک نسلی تعصب کے شکار سیاست دان ہیں جو امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور پریزیڈنٹ آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس (امریکی صدر) سے نفرت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس ان کے ساتھ بات چیت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور اس لیے انہیں پرسونا نان گریٹا (ناپسندیدہ شخصیت) سمجھا جائے گا۔‘ یعنی ایسا شخص جسے امریکہ خوش آمدید نہیں کہے گا۔جنوبی افریقہ کے صدارتی دفتر نے بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’افسوسناک ملک بدری کو نوٹ کر لیا ہے اور تمام متعلقہ اور متاثرہ سٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں سفارتی ضابطے کو برقرار رکھیں۔‘بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جنوبی افریقہ امریکہ کے ساتھ باہمی طور پر مفید تعلقات استوار کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔‘جنوبی افریقہ کے سفیر کی بے دخلی امریکہ کی جانب سے ایک انتہائی غیر معمولی اقدام ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں تازہ ترین پیش رفت ہے۔صدر ٹرمپ نے فروری میں جنوبی افریقہ کے لیے امریکی امداد روک دی تھی۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس متنازع ایکٹ کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں سفید فام افراد کی ملکیت والے زرعی فارمز پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ صدر نے کہا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے کسانوں کو امریکہ میں آباد ہونے کے لیے خوش آمدید کہیں گے۔ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ارب پتی ایلون مسک ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کی حکومت پر ’کھلے عام نسل پرستانہ ملکیت کے قوانین‘ رکھنے کا الزام لگایا ہے۔