صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس نے شہریوں کو تنگ کرنے والے نوجوان ٹک ٹاکرز کو حراست میں لے لیا ہے۔تاتارا پولیس سٹیشن حیات آباد نے 10 ایسے نوجوانوں کو حوالات میں بند کیا جو رات کے نصف پہر گھروں کے دروازوں پر پتھر مار کر بھاگ جاتے تھے۔ یہ نوجوان شہریوں کو یوں تنگ کرنے کی ویڈیوز بھی بناتے جو بعدازاں ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی جاتی تھیں۔پشاور کیپیٹل پولیس کے مطابق عوامی شکایات ملنے پر حیات آباد فیز تھری اور فیز فور کے علاقوں میں ابابیل سکواڈ کے پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جنہوں نے موقع پر نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔
پولیس کے مطابق نوجوانوں کا یہ گروپ نماز تراویح کے بعد شہریوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنے کی ویڈیوز بناتا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’اس گروہ کی حرکتوں کی وجہ سے حیات آباد کے پوش علاقوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ ان نوجوانوں کی عمریں 15 سے 17 برس کے درمیان ہیں اور یہ روز تراویح کے بعد آوارہ گردی کرنے کے لیے گروہ کی شکل میں گھروں سے نکلتے تھے۔‘حیات آباد پولیس کے مطابق پولیس حراست میں ان نوجوانوں نے اپنی غلطی تسلیم کر کے شہریوں سے معافی مانگ لی ہے۔ پولیس نے ان تمام لڑکوں کے والدین کو پولیس سٹیشن طلب کیا جنہوں نے اپنے بچوں کی ضمانت دے کر تحریری معافی نامہ جمع کروایا جس کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق نوجوان کسی سنگین جرائم میں ملوث نہیں تھے نہ ان کے خلاف ایسی کوئی شکایات تھیں اس لیے بچوں کو معافی نامہ لے کر چھوڑ دیا ہے۔پشاور پولیس نے تمام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں آوارہ نوجوانوں کے خلاف پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکے۔حیات آباد کے مقامی شہری جمشید بنگش نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’رمضان کے شروع ہوتے ہی ان نوجوانوں نے یہ حرکتیں شروع کر دی تھیں۔ محلے میں آئے روز شور شرابے سے سونا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھروں پر پتھراؤ سے گیٹ کو نقصان بھی پہنچا چکے ہیں۔‘ابابیل سکواڈ کے پولیس اہلکاروں نے موقع پر نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)نوید احمد بھی اسی علاقے کے رہائشی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان لڑکوں کے ساتھ شہریوں کی ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی مگر یہ سدھرنے کی بجائے مزید شرارتیں کرنے لگے۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ گروہ ٹک ٹاک پر ویوز کے لیے ایسی بے ہودہ حرکتیں کرتا ہے، اس سے پہلے یہ گھنٹی بجا کر بھاگ جاتے تھے مگر اب دروازوں پر پتھر برساتے ہیں۔‘نوید احمد کے مطابق پولیس نے ان لڑکوں کے خلاف کارروائی کر کے اچھا کیا ورنہ کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ سکتا تھا۔