پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جو سیاسی پارٹیاں وفاقی یا صوبوں میں برسرِاقتدار ہیں وہ مختلف سکیموں کے سہولت کارڈز کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔حال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے موجودہ حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے پر میڈیا کو اپنے کاموں سے متعلق ایک طویل بریفنگ دی۔
انہوں نے جہاں ترقیاتی کاموں کی فہرست بتائی وہیں سندھ میں متعارف کرائے گئے ’ہاری کارڈ‘کے ذریعے پونے دو لاکھ ہاریوں میں اربوں روپے کی تقسیم کو اپنی حکومت کا بڑا کارنامہ بتایا۔
اہم بات یہ کہ پاکستان میں کارڈ پالیٹیکس کا آغاز کرنے والی بھی پیپلز پارٹی ہی ہے جس نے سب سے پہلے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 2008 میں لانچ کیا جس سے ملک میں غریبوں کی بڑی تعداد کو براہِ راست ماہانہ رقم دی جاتی تھی۔یہ پہلا موقع تھا جب مینیوئل طریقے سے 70 اور 80 کی دہائی میں راشن کارڈ دیے جانے کے بعد ڈیجیٹیل طریقے سے حکومت نے عوام کو سہولت فراہم کی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو نواز شریف نے 2017 میں اس وقت محدود پیمانے پر ’صحت کارڈ‘ کا اجرا کیا۔سابق وزیراعظم عمران خان نے 2019 میں صحت کارڈ کا دوبارہ اجرا کیا اور اس کا دائرۂ کار پورے ملک تک پھیلا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان تحریک انصاف اس ’سہولت کارڈ‘ کا کریڈٹ لیتی نظر آتی ہے۔کارڈ پالیٹیکس میں تیزی مریم نواز کے دور میں دیکھی گئی جنہوں نے ایک ہی سال میں کسان کارڈ، مزدور کارڈ، خواتین کارڈ، اقلیتی کارڈ، آسان کاروبار کارڈ، ایجوکیشن کارڈ اور لائیو سٹاک کارڈ جاری کیے اور ان کی خوب تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔اب پیپلز پارٹی بھی ’ہاری کارڈ‘ لے کر میدان میں آ گئی ہے۔ ملک میں ’کارڈ پالیٹیکس‘کے حوالے سے ڈاکٹر سہیل منیر سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے 2019 میں صحت کارڈ کا دوبارہ اجرا کیا اور اس کا دائرۂ کار پورے ملک تک پھیلا دیا (فوٹو:پی ٹی آئی ایکس)اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’معیشت ڈیجیٹلائزڈ ہو رہی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ہو رہی ہے۔اس لیے حکومت وہی کام جو پہلے مینوئل طریقے سے کر رہی تھی وہ ڈیجیٹل طریقے سے کر رہی ہے۔ آنے والے دور میں جب گلی محلّے کی دُکانیں بھی ڈیجیٹل اکانومی پر شفٹ ہو جائیں گی تو یہ سب نارمل لگے گا۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر سہیل منیر نے کہا کہ ’ہم ابھی بھی تھوڑے لیٹ ہیں۔ پچھلے 20 برسوں میں حکومتوں نے جو فیصلے لیے وہ اصل میں وقت کی ضرورت تھی۔ اقوام متحدہ اور دیگر ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے حکومتوں کے ساتھ مل کر پالیسی بنا رہے ہوتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ جو 2017 میں دیا گیا اس پر 2011 میں کام شروع ہو چکا تھا۔ تو یہ سب اس ارتقائی عمل کا حصّہ ہے اور اس سے شفافیت کے معیار میں بھی بہتری آئی ہے۔‘اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کی رائے بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلا دور ہے ہی ڈیجیٹل اکانومی کا، سیاسی جماعتیں چاہ کر بھی اب اس سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکتیں۔‘اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’سرکاری دفاتر تک پیپر لیس ہونے جا رہے ہیں۔ گوگل پے پاکستان میں آچکا ہے تو یہ ڈیجیٹل کارڈ کا اجرا اسی بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اکانومی ڈیجیٹل ہو رہی ہے۔‘قیس اسلم کے مطابق سیاسی جماعتیں تو کسی بھی بات کو اپنی کامیابی کے طور پر بنا کر پیش کر سکتی ہیں اور اسی میں ان کی سیاست پوشیدہ ہوتی ہے۔ باقی جو جتنی اچھی برانڈنگ کر لیتا ہے وہ سیاسی فائدے کے لیے ہی ہوتا ہے۔