’شایانِ شان استقبال کے خواہشمند‘ والد کو جگر عطیہ کرنے والی 21 سالہ بیٹی چل بسی

اردو نیوز  |  Mar 14, 2025

’میرے جگر کا ٹکڑا، میری بیٹی مجھے اپنے جگر کا ٹکڑا دے گی؟ اسے ہار پہنانا، پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا، پورے وارڈ میں جشن کروانا اور اس کی ویڈیو ضرور بنانا تاکہ میں دیکھ سکوں۔‘ 

ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے رہائشی خلیل احمد کو جب معلوم ہوا کہ انہیں ان کی بیٹی جگر عطیہ کرنے کے لئے تیار ہیں تو اُن کی خوشی دیدنی تھی۔

انہوں نے اس وقت ان کے پاس موجود اپنے برادر نسبتی راؤ ندیم کو بتایا کہ وہ سب علاج کے بعد ان کی بیٹی مقدس کا بھرپور استقبال کرنے کی تیاریاں کریں۔ تاہم راؤ ندیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی نوبت نہیں آئی کیونکہ والد کی صحت یابی سے قبل ہی مقدس چل بسی۔

شجاع آباد کے رہائشی خلیل احمد گزشتہ کئی سالوں سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ مسلسل علاج معالجے کے باوجود جب ان کو افاقہ نہ ہوا تو ڈاکٹروں نے جگر کی پیوند کاری کا مشورہ دیا۔ پیوند کاری کے لیے ان کی بیٹی مقدس کا نمونہ موافق ٹھہرایا گیا۔ گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز خیر پور میں پیوندکاری کے بعد خلیل احمد تو صحت یاب ہوگئے لیکن ان کی بیٹی مقدس چل بسی۔ 

50 سالہ خلیل احمد اپنے علاقے میں گھڑیاں مرمت کرتے ہیں۔ ان کی دکان میں کئی طرح کی گھڑیاں رکھی گئی ہیں، اور اب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے دکان میں موبائل فون کے چند ڈبے رکھ کر اسے موبائل اور گھڑی مرمت کرنے کا مرکز بنا دیا ہے۔

خلیل احمد پانچ بچوں کے باپ ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹوں میں سے مقدس وہ واحد بیٹی تھی جس نے تعلیم حاصل کی اور نجی سکول میں پڑھاتی تھیں۔

راؤ ندیم بتاتے ہیں ’21 سالہ مقدس نے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر مقامی سکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی۔ وہ گھر کے اخراجات میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی۔ تینوں بیٹیاں غیرشادی شدہ تھیں اور دونوں بیٹوں میں سے ایک چھوٹا بیٹا ابھی انٹر میں زیر تعلیم ہے جبکہ بڑا بیٹا راؤ نوید کچھ خاص تعلیم حاصل نہیں کر پایا۔‘

ان کے مطابق جب خلیل احمد کی بیماری بڑھتی گئی تو مقدس اپنے کام پر توجہ نہیں دے پا رہی تھی۔ وہ بتاتے ہیں 'مقدس نے اپنے والد کو کہا کہ آپ فکر نہ کریں آپ ٹھیک ہو جائیں گے، ہم ہیں نا۔ مقدس نے یہ ثابت بھی کیا وہ آخری دم تک لڑی اور اپنے والد کو کچھ نہ ہونے دیا لیکن خود نہ بچ پائی۔‘

خلیل احمد کے بیٹے راؤ نوید بتاتے ہیں 'میرے والد کئی برسوں سے بیمار تھے۔ مختلف دوائیاں لیتے رہے لیکن وہ کبھی ٹھیک ہو جاتے تو کبھی حالت بگڑ جاتی۔ پھر ڈاکٹروں نے کیمرے کے ذریعے دیکھ کر بتایا کہ ان کا جگر ختم ہوتا جا رہا ہے اور وہ خون نہیں بنا رہا جس کے بعد ہم گمبٹ گئے۔

راؤ ندیم کے مطابق دکان دو ماہ سے بند اور گھر میں سوگ کا عالم ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی'گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں انہیں پیوند کاری کا مشورہ دیا گیا لیکن اس سے قبل جگر عطیہ کرنے کے لیے ڈونر ڈھونڈنا سب سے بڑا امتحان تھا۔ راؤ نوید کے بقول 'ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ لیور ٹرانسپلانٹ کے بغیر آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ میرا جگر میچ نہیں ہوا جس کے بعد مقدس کے نمونے لیے گئے جو میچ ہو گئے۔ جب ڈاکٹر نے کہا کہ مقدس کا جگر ٹھیک ہے تو وہ اچھل پڑی۔ وہ اس بات پر خوش تھی کہ اب ہمارے والد ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن وہ آنے والے کٹھن مراحل سے بے خبر تھی۔‘

گمبٹ میں دو ماہ تک مقدس کے ٹیسٹ ہوتے رہے جس کے بعد جگر کی پیوندکاری کا عمل شروع ہوا۔ راؤ نوید بتاتے ہیں ’آپریشن کے بعد ابو اور مقدس کو ہوش آیا۔ مقدس ٹھیک تھی وہ وارڈ میں چل پھر رہی تھی اور کھا پی رہی تھی لیکن پھر اچانک اس کو بخار نے آ لیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ شاید اس کی کوئی نس بلاک ہو گئی ہے لیکن پھر معلوم ہوا کہ انفیکشن اس کے دل تک پھیل گیا ہے۔‘

مقدس کے ماموں راؤ ندیم بتاتے ہیں 'بچی نے جو کیا وہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔ جب اس کا جگر میچ ہوا تو اس کی خوشی مجھے اب تک یاد ہے۔ ہمیں تو یہ لگ رہا تھا کہ ڈونر ہو جائے تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی۔‘

راؤ ندیم کے بقول ’مقدس کو وینٹیلیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن اس کی زندگی بس اتنی ہی تھی۔ گزشتہ جمعے کو وہ انتقال کر گئی۔‘

جس وقت خلیل احمد آئی سی یو اور مقدس جنرل وارڈ میں تھی تو وقتاً فوقتاً خلیل احمد، راؤ ندیم کو بلاتے اور اپنی بیٹی کی خیریت دریافت کرتے۔

اس حوالے سے راؤ ندیم بتاتے ہیں 'خلیل بھائی بار بار پوچھتے میری مقدس نے کھانا کھایا ہے نا؟ وہ کہتے تھے کہ میری بات یاد رکھنا، اس نے مجھے زندگی دی ہے اس کا وہ استقبال ہونا چاہیے جو کسی کا نہ ہوا ہو۔ ویڈیو ضرور بنانی ہے تاکہ میں بھی دیکھ سکوں۔۔۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی بیٹی انہیں تو زندگی دے گئی لیکن خود زندگی اور موت کے کشمکش میں تھی۔'

سندھ کے ضلع خیرپور میں جگر کی پیوندکاری کا گمبٹ ہسپتال ملک بھر میں مشہور ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پیان کے بیٹے راؤ نوید بتاتے ہیں ’ہمیں ڈاکٹروں نے منع کر رکھا تھا کہ انہیں ایسی کوئی خبر نہیں دینی کیونکہ ایسی حالت میں ان کے لیے صدمہ برداشت کرنا مشکل تھا۔ ہم بہن کھو بیٹھے تھے اب باپ کھونا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم سب دل کھول کر مقدس کو خوش کریں تاکہ انہیں احساس نہ ہو کہ اس کا جگر کٹ گیا ہے۔ ابو کہتے تھے کہ انہوں نے مقدس کو سلیوٹ کرنا ہے لیکن اس کی تو نوبت ہی نہیں آئی۔‘

مقدس کی موت کے بعد مشکل وقت تب آن پڑا جب ان کے والد خلیل احمد کو یہ خبر دینا تھی۔ ایک طرف وہ صحت یاب ہو رہے تھے تو دوسری طرف ان کے لئے ایسی خبر ناقابل برداشت ہوتی۔

ان کے بیٹے راؤ نوید بتاتے ہیں ’ہم عجیب کیفیت سے دوچار تھے۔ ہم صرف یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابو کو مقدس کی موت کا نہ بتائیں تو وہ ساری زندگی خود کو کوستے رہیں گے کہ جس نے مجھے زندگی دی میں اس کا آخری دیدار بھی نہ کر پایا؟ وہ تو سلیوٹ کرنے کا سوچ رہے تھے۔ پھر ہم نے دل پر پتھر رکھ کر انہیں بتایا اور وہ منظر بیان نہیں ہو سکتا۔‘

راؤ ندیم کے مطابق دکان دو ماہ سے بند ہے اور آج کل گھر میں سوگ کا عالم ہے۔ ان کی بیٹھک مہمانوں سے بھری ہوئی ہے لیکن یہ مہمان خلیل احمد کی صحت یابی کی خوشی کیسے منائیں جب گھر میں جوان موت بھی ہوئی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More