گرفتار فلسطینی طالب علم کو ملک بدری کا سامنا، محمود خلیل کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

اردو نیوز  |  Mar 12, 2025

کولمبیا یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاج کی قیادت کرنے والے ایک فلسطینی طالب علم کو امریکہ کے وفاقی امیگریشن حکام کی جانب سے گرفتار کرنے کے بعد ملک بدری کا سامنا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق محمود خلیل کی گرفتاری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ غزہ میں جنگ کے خلاف کیمپس میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

30 برس کے محمود خلیل امریکہ میں قانونی طور پر مستقل رہائش رکھتے ہیں، منگل کو وفاقی عدالت نے ان کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی تھی۔

محمود خلیل کی رہائی کے لیے نیویارک میں سینکڑوں افراد نے احتجاج بھی کیا۔

محمود خلیل کے ساتھ کیا ہوا؟

محمود خلیل کو سنیچر کی شب ہوم لینڈ سکیورٹی اہلکاروں نے اس وقت حراست میں لیا، جب وہ اور ان کی اہلیہ اپر مین ہٹن میں واقع کولمبیا یونیورسٹی کے ملکیتی اپارٹمنٹ میں واپس آرہے تھے۔

اہلکاروں نے جوڑے کو بتایا کہ خلیل کو اس لیے حراست میں لیا جا رہا ہے، کیونکہ ان کا سٹوڈنٹ ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ان کے وکلا کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جب ان کی اہلیہ نے دستاویزات فراہم کیں کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں، تو اہلکاروں نے کہا کہ وہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا۔

وکلا نے ان کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

وفاقی عدالت نے محمود خلیل کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی تھی۔ (فوٹو: اے پی)خلیل کو ملک بدری کا سامنا کیوں ہے؟

خلیل کو ملک بدری کا سامنا اس لیے ہے، کیونکہ سنیچر کو گرفتاری کے بعد ہوم لینڈ سکیورٹی نے ان پر عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ منسلک سرگرمیوں کی قیادت کا الزام عائد کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے منگل کو وضاحت دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ محمود خلیل نے مظاہروں کا اہتمام کیا جہاں حماس کے حامی پروپیگنڈے کو تقسیم کیا گیا تھا۔

ٹرمپ کی پریس سکریٹری کیرولین لیوئٹ نے کہا کہ ’یہ انتظامیہ ایسے افراد کو برداشت نہیں کرے گی، جو ہمارے ملک میں تعلیم حاصل کریں اور پھر امریکیوں کو ہلاک کرنے والی دہشت گردی کی حامی تنظیموں کا ساتھ دیں۔‘

خلیل کے وکلا نے فوری طور پر وائٹ ہاؤس کے دعوؤں کا جواب نہیں دیا۔

محمود خلیل کون ہے؟

خلیل گزشتہ موسم بہار میں، کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والے مظاہروں میں سب سے نمایاں کارکنوں میں سے تھے، ایسے مظاہرے دنیا بھر کے دیگر کالجوں کے کیمپسز میں بھی ہوئے۔

انہوں نے طالب علم مذاکرات کار کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ایک ایسا کردار جس میں وہ یونیورسٹی کے حکام اور پریس کے ساتھ اکثر بات کرتے تھے۔

حال ہی میں، وہ ان فلسطین حامی کارکنوں میں شامل تھے، جنہیں کولمبیا یونیورسٹی میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔

خلیل نے دسمبر میں کولمبیا کے سکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔

احتجاج میں حصہ لینے والوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)امریکی میں خلیل کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

مقدمے کے مطابق خلیل شام میں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش ان کے فلسطینی دادا دادی نے کی، جن کو ان کے آبائی وطن سے نکالا گیا تھا۔

وہ 2022 میں سٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ آئے تھے۔

خلیل اور ان کی اہلیہ امریکی شہری ہیں۔ انہوں نے 2023 میں شادی کی۔ گزشتہ برس ان کو امریکہ میں مستقل طور پر رہنے کے لیے گرین کارڈ مل گیا تھا۔

کیا حکومت گرین کارڈ ہولڈر کو ڈیپورٹ کر سکتی ہے؟

مختصر جواب یہ ہے کہ ہاں، حکومت گرین کارڈ رکھنے والے افراد کو ملک بدر کر سکتی ہے، لیکن حکومت کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ اس شخص کو ڈیپورٹ کیا جا سکتا ہے۔

امیگریشن قانون کے ماہر اور کورنیل لا سکول کے ریٹائرڈ پروفیسر سٹیفن ییل لوہر کے مطابق ملک بدری مختلف جرائم میں سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے ہو سکتی ہے، جن میں قتل، حملہ، چوری، ٹیکس چوری، گھریلو تشدد اور غیر قانونی آتشیں اسلحہ رکھنا شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر مستقل رہائشی کو دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کی صورت میں بھی ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت میں حکومت کو ملک بدری کے الزامات عائد کرنے کے لیے مقدمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

مظاہرین محمود خلیل کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)خلیل کہاں ہیں؟

خلیل کو وسطی لوزیانا کے قصبے میں وفاقی امیگریشن کے حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔

جینا میں سینٹرل لوزیانا آئی سی ای پروسیسنگ سینٹر میں تقریباً 1160 قیدیوں کو رکھا جا سکتا ہے۔

لوزیانا پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے دوران تارکین وطن کی حراست کا مرکز بن گیا تھا، اس کے نو مراکز ہیں، جن میں سے زیادہ تر نجی ٹھیکیدار چلاتے ہیں۔

آگے کیا ہوگا؟

ماہرین نے اے پی کو بتایا کہ خلیل کو امیگریشن عدالت میں 10 دن یا ایک ماہ کے دوران پیش کیا جا سکتا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کو کب پیش کیا جائے گا۔

مین ہٹن میں ایک وفاقی جج نے حکومت کو حکم دیا کہ خلیل کو اس وقت تک ملک بدر نہ کیا جائے، جب تک عدالت کیس کا جائزہ نہ لے۔ کیس کی سماعت بدھ کو ہونی ہے۔

ان کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں نیویارک واپس بھیج دیا جائے کیونکہ ان کی اہلیہ آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More