سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ سپر ٹیکس ایک مرتبہ خاص مقصد کے لیے لگایا گیا تھا اور ایک مرتبہ سپر ٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا قیامت تک چلے گا؟۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی، کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سپر لیوی ٹیکس حکومت نے 2015 میں لاگو کیا جس کا مقصد آپریشن ضرب عزب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی تھا۔
مخدوم علی نے کہا کہ حکومت نے منی بل 2015 میں ایک مرتبہ سپرٹیکس کا نفاذ کیا، 2015 سے 2022 تک سپرٹیکس نافذ رہا جس کا ابتدائی تخمینہ 80 ارب روپے اکٹھے کرنے کا تھا مگر نہیں معلوم حکومت نے سپر لیوی ٹیکس کی مد میں کتنی رقم اکٹھی کی۔
سپریم کورٹ نے سانحہ 9 اور 10 مئی کے تمام مقدمات ڈی لسٹ کر دیئے
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کوئی حساب ہے کہ سپر ٹیکس میں کتنی رقم اکٹھی ہوئی، وکیل مخدوم علی نے کہا کہ وزیر خزانہ کی کسی تقریر میں سپر ٹیکس کی وصولی اور خرچ کا نہیں بتایا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپر ٹیکس آپریشن کے متاثرین کی بحالی کیلئے تھا، حقیقت ہے دہشتگردی کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے، آپریشن میں مجموعی طور پر کتنے لوگ بے گھر ہوئے اور کن علاقوں سے ہوئے؟۔
جسٹس جمال نے سوال کیا کہ آپریشن سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے حکومتی پلان کیا تھا اورکیا متاثرہ علاقوں کی آباد کاری کا کوئی پی سی ون تیار ہوا؟ کیا متاثرہ علاقوں کی بحالی کا کوئی تخمینہ لگایا گیا؟ کیا منی بل کے ذریعے سروسز پر ٹیکس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟۔
سپریم کورٹ نے مقدمات کی جلد سماعت کے حوالے سے پالیسی تشکیل دے دی
وکیل مخدوم علی نے جواب دیا حکومت آمدن پر پہلے ہی انکم ٹیکس لے چکی تھی، ڈبل ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے سپر ٹیکس کا نام دیا گیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ اعتراض ہے قومی مجموعی فنڈز سے رقم صوبوں کی رضامندی کے بغیر کیسے خرچ ہو سکتی ہے۔ وکیل ایف بی آر رضاربانی نے دلائل دیے کہ متاثرین دہشتگردی کے خاتمے کے نتیجہ میں بے گھر ہوئے، مخدوم علی نے کہا کہ کیا دہشتگردی 2020 میں ختم ہو گئی؟ حکومت نے 2020 میں سپر ٹیکس وصولی ختم کر دی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔