پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ عہدیداران کے درمیان ایک اہم ملاقات چل رہی تھی جہاں بات قرضوں کے رول اوور سے شروع ہوئی مگر پھر اچانک یو اے ای کے حکام نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند کمپنیوں کی طرف سے شکایات پر بات شروع کر دی۔
پھر دونوں ممالک کے حکام نے اتفاق کیا کہ پاکستان ایک ایسا نظام تشکیل دے گا جس سے آئندہ سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو ’ون ونڈو‘ کے ذریعے دور کیا جائے گا۔
اسی نوعیت کی ہونے والی چند دیگر ملاقاتوں کے بعد پاکستان کی جانب سے ایک خصوصی کونسل تشکیل دی گئی جس کا نام ’ایس آئی ایف سی‘ یعنی سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل رکھا گیا۔
سینیئر ماہر معیشت ڈاکٹر وقار احمد بھی ماضی میں اِس کونسل کا حصہ رہ چکے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے یہ بات آئی تھی کہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق اُن کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ایسی کوئی اتھارٹی ہونی چاہیے کہ سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔
اُن کے مطابق چین کی طرف سے بھی ایسی ہی درخواست آئی تھی جس کے بعد ’ایس آئی ایف سی‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ایس آئی ایف سی نے زراعت و لائیو سٹاک، معدنیات، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام، صنعت، سیاحت و نجکاری جیسے پانچ اہم شعبوں کو ٹارگٹ کیا اور فیصلہ ہوا کہ ان شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا۔
وہ تمام پانچ شعبے جو ایس آئی ایف سی نے منتخب کیے اُن سب کے لیے ایک، ایک پرائیویٹ کمپنی رجسٹر کی گئی۔ ایس آئی ایف سی کے تحت بننے والی ان کمپنیوں کی سربراہی ریٹائرڈ آرمی افسران کر رہے ہیں جبکہ ایس آئی ایف سی کے سربراہان کی لِسٹ میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا نام بھی شامل ہے۔
دوسری جانب ناقدین اس ادارے میں فوج کی شمولیت اور فیصلہ سازی میں فوجی افسران کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایس آئی ایف سی کی وجہ سے سویلین معاملات میں سویلین اداروں کی طرف سے فیصلہ سازی کی سپیس مزید کم ہو رہی ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت بنائی جانے والی یہ کمپنیاں اِن شعبوں میں پہلے سے کام کرنے والے بعض مقامی افراد کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہیں اور متاثرہ مقامی افراد اُن سے خوش نہیں ہیں۔
جبکہ اس بات کے بھی کوئی واضح شواہد نہیں ہیں کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد سے گذشتہ دو برسوں میں اس ادارے کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پرکوئی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہو۔
بی بی سی نے دو شعبوں یعنی زراعت اور سیاحت سے متعلق معاملات جاننے کے لیے گلگت بلتستان اور سندھ کا دورہ کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں بعض مقامی افراد ایس آئی ایف سی کی جانب سے سیاحت کے شعبے میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے ناخوش ہیں جبکہ سندھ میں کسان ’گرین انیشی ایٹیو‘ کے تحت زراعت کے منصوبوں اور پانی کے مسئلے پر سراپا احتجاج ہیں۔
ان مسائل کی طرف جانے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ایس آئی ایف سی اور اس کے تحت قائم ہونے والی کمپنیاں کام کیسے کر رہی ہیں؟
ایس آئی ایف سی کا تنظیمی ڈھانچہ اور اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟
ایس آئی ایف سی کا تنظیمی ڈھانچہ ایسا بنایا گیا ہے کہ جس میں فوج اور انتظامیہ دونوں ہی کو حصہ دار بنایا گیا ہے۔
ایپکس کمیٹی کی سربراہی وزیر اعظم خود کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور فوج کے سربراہ اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔
ہر شعبے میں بنائی گئی کمپنیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار نے بتایا کہ ’اِن کا مقصد سرمایہ کاروں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ وہ معاہدے کر سکیں اور سرمایہ کاری کر سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کمیٹیوں کا مقصد غیرملکی سرمایہ کاروں کو یقین دلانا ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔‘
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی باگ ڈور فوج کے پاس ہے اور فوج کے ایک حاضر سروس افسر اس کونسل کے نیشنل کوآرڈینٹر ہیں۔ اس کونسل کا ایک سیکریٹریٹ وزیراعظم ہاؤس میں قائم کیا گیا ہے۔
سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات ایس آئی ایف سی کے تحت قائم ایک کمپنی 'گرین ٹورازم' کے سربراہ ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایس آئی ایف سی کے وجود میں آنے کے بعد متعدد شعبوں میں کام شروع ہوا اور یہ کونسل تمام صوبوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جہاں وزیراعظم کی سربراہی میں تمام وزرائے اعلیٰ ایک جگہ مل بیٹھتے ہیں اور پالیسی سے متعلق معاملات کو دیکھتے ہیں۔‘
زراعت: ’پاکستان گرین انیشی ایٹیو‘BBCچولستان اور دیگر نہروں کی تعمیر کے باعث ایک بار پھر پنجاب اور سندھ میں سیاسی لڑائی شروع ہو گئی ہے
زراعت کے شعبے میں ایس آئی ایف سی کے ’پاکستان گرین انیشی ایٹیو‘ کے تحت ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ کی ایسی غیرآباد زمین کی نشاندہی کی گئی ہے جسے آباد کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ زمین صوبوں سے لی جا رہی ہے اور ان میں سب سے زیادہ زمین صوبہ پنجاب میں ہے۔ یہ زمین 20 سے 30 سال کی لیز پر دی جائے گی۔
ایسا ہی ایک علاقہ چولستان ہے جسے گرین انیشی ایٹیو کے تحت زراعت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت گریٹر تھل کینال، موجودہ تھل کینال کی ری ماڈلنگ، جلال پور کینال اور گریٹر چولستان کینال بنائی جا رہی ہیں۔
15 فروری کو چولستان میں ایسے نئے زرعی منصوبوں کا افتتاح کیا گیا جو پاکستان گرین انیشی ایٹیو کا حصہ ہیں۔ اس حوالے سے ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ ’پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس ہے، جدید زراعت کے طریقے صوبے کے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پنجاب حکومت کے گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت حاصل ہونے والی کامیابیاں حوصلہ افزا اور ترقی کی نوید ہیں۔‘
پانی کا مسئلہ: ’ہمیں کہا گیا اوپر سے پانی نہیں آ رہا‘
اس منصوبے کے تحت چولستان اور دیگر نہروں کی تعمیر کے باعث ایک بار پھر پنجاب اور سندھ میں سیاسی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔
سندھ میں چولستان کینال کے خلاف قوم پرست، مذہبی جماعتوں اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بار کونسلز کی جانب سے گذشتہ کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے اور اس احتجاج میں کاشتکار بھی شامل ہیں۔ سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما محمود نواز کہتے ہیں کہ اگر کاغذوں پر تیس، چالیس لاکھ ایکٹر زمین آباد کریں اور آمدن بھی دکھائیں تو اچھا لگتا ہے ’لیکن اس کے لیے پانی کہاں سے آنا ہے؟‘
’اگر اس کے لیے پہلے سے آباد زمینوں کا پانی لے کر جانا ہے تو یہ پاکستان کی معشیت کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہو گی۔‘
اس حوالے سے ہونے والے مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے کہا کہ ’سندھ میں پہلے ہی پانی نہیں ہے۔ یہاں پہلے ہی قحط کا ماحول چل رہا ہے۔ اور اب عسکری اداروں کی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے سندھ کے حصے میں جو بچا کچھا پانی آ رہا ہے اس پر بھی کینال بنا کر ہمیں پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟بہاولنگر میں پولیس سٹیشن پر فوجی اہلکاروں کا مبینہ دھاوا: ’جو ہوا پورے پاکستان نے دیکھا، اب نوکری کرنے کا دل نہیں چاہتا‘فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟
وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ کی تحصیل جھول سے تعلق رکھنے والے کاشتکار تاج محمد خاصخیلی نے ہمیں اپنی گندم کی وہ فصل دکھائی جس کو مناسب مقدار میں پانی نہیں مل پا رہا۔
اس کے بعد وہ ہمیں کریلے کی سوکھی فصل دکھانے لے گئے، جہاں بانسوں پر لٹکتی ہوئی بیلیں خشک ہو چکی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’سبزی کی کاشت حساس ہوتی ہے۔ اگر فوری پانی نہ ملے تو یہ فوراً سوکھ جاتی ہے۔‘
BBCسانگھڑ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار تاج محمد خاصخیلی اپنی کریلے کی اُس فصل کو دیکھ رہے ہیں پانی نہ ملنے کے باعث سوکھ چکی ہے
'نہریں پہلی ہی سوکھی ہوئی ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اوپر سے پانی نہیں آ رہا ہے۔ صرف اس کریلے کی فصل پر فی ایکڑ چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ اس میں بیج، کھاد اور لیبر شامل ہے اور جب پانی نہ آئے تو یہ رقم ڈوب جاتی ہے اور اس سے غریب کسان کی آمدن بھی چلی جاتی ہے۔'
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 50.4 ملین آبادی کا مسکن سندھ پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہے۔
سندھ کی 77 فیصد زرعی زمین نہری پانی سے سیراب ہوتی ہے جبکہ یہاں کاشتکاروں کی اکثریت چھوٹے کسانوں پر مشتمل ہے جن کے پاس اوسط بارہ ایکڑ تک زمین ہے۔
پنجاب میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت شروع ہونے والے نئے منصوبوں کے لیے پانی کی دستیابی کے بارے میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کو پنجاب کے محکمہ آبپاشی نے آگاہ کیا ہے کہ یہ پانی پنجاب اپنے حصے میں سے فراہم کرے گا۔
’سندھ کے حصے کا ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیں گے‘
پنجاب کا کہنا ہے کہ ماہ اپریل، مئی اور جون میں وہ 1991 کے پانی کے معاہدے کی شق 14 ڈی کے تحت پانی مہیا کرے گا۔
اس شق میں کہا گیا ہے کہ صوبوں کو اپنے مختص کوٹہ کے اندر رہتے ہوئے پانی کے حصے میں رد و بدل کی اجازت ہو گی۔ اسی طرح بارشوں کے موسم میں پانی کی تقسیم کے بارے میں پنجاب کا موقف ہے کہ جولائی سے اگست میں سیلابی پانی میں سے وہ اپنا حصہ لے گا۔
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے صوبائی وزیر جام خان شورو کہتے ہیں کہ 1991 کا جو معاہدہ ہے اس میں ارسا کا ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے وہ اس پر عمل نہیں کر پا رہے۔
’اس معاہدے کے تحت 14 ملین ایکڑ فٹ پانی صوبوں کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا اور دس ایم ایف انڈس ڈیلٹا کی بحالی کے لیے مختص تھا تو جب وہ پانی پورا نہیں آ رہا اور 15 سے 20 فیصد کمی ہو رہی ہے اس صورتحال میں کیسے نیا کمانڈ ایریا بنایا جا سکتا ہے۔‘
BBC’عسکری اداروں کی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے سندھ کے حصے میں جو بچا کچھا پانی آ رہا ہے اس پر بھی کینال بنا کر ہمیں پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘
انھیں جب بتایا گیا کہ پنجاب کا مؤقف ہے کہ وہ اپنے حصے میں سے پانی فراہم کریں گے تو جام خان شورو کا کہنا تھا کہ ارسا میں پنجاب اپنا جو اکاؤنٹ دیتا ہے اس میں ’ہمیشہ 15 سے 20 فیصد قلت بتائی جاتی ہے۔ اگر ان کے اپنے ہی حصے میں قلت ہے تو اضافی پانی کہاں سے آئے گا؟‘
جام خان شورو بتاتے ہیں کہ پنجاب میں پانی کے نئے منصوبوں کے خلاف حکومت سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو تین سمریاں بھیجی ہیں جس نے فیصلہ کرنا ہے کیونکہ جب دو صوبوں میں تنازع ہوتا ہے تو فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کو لینا ہوتا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ نہروں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کا دوٹوک موقف ہے کہ انھیں کسی بھی صوبے کی خوشحالی پر اعتراض نہیں ہے لیکن ’سندھ کے حصے کا ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دیں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلی سندھ نے سی سی آئی کی میٹنگ بلانے کے لیے ذاتی درخواست کی ہے اس کے علاوہ تحریری درخواست بھی کی ہے۔ انھیں جلد اجلاس کی امید ہے۔
دریں اثنا وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں یہ یقین دہائی کرائی تھی کہ سندھ کے حصے کے پانی کا رُخ نہیں موڑا جائے گا اور کوئی صوبہ دوسرے صوبے کو اس کے وسائل سے محروم نہیں کرے گا۔
سیاحت: ’گرین ٹورازم‘
زراعت کے ’گرین پاکستان انیشی ایٹیو‘ منصوبے کی ہی طرح ایس آئی ایف سی نے سیاحت کے شعبے میں گرین ٹورازم کا پروگرام لانچ کیا ہے جس کا مقصد پاکستان میں سیاحت کے شعبے کی جانب غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔
اس ضمن میں بنائی گئی 'گرین ٹورازم کمپنی لمیٹڈ' کے مینیجنگ ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حسن اظہر حیات نے بی بی سی کو بتایا کہ ایس آئی ایف سی کے وجود میں آنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ سیاحت کا بھی ایک شعبہ ہمارے پاس ہے جو کہ ایک 'لو ہینگنگ فروٹ' ہے یعنی اگر اس شعبے پر کام کیا جائے تو فوائد جلد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق دنیا میں اس وقت سیاحت سے 9.8 فیصد ریونیو حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان اس شعبے سے 5.2 یا کچھ اندازوں کے مطابق 5.6 فیصد ہی حاصل کر پاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'ہم نے گلگت بلتستان حکومت سے بھی درخواست کی ہے ہم کسی انٹرنیشنل ہوٹل گروپ کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ یہاں فائیو سٹار ہوٹلز بنائے کیونکہ ابھی بھی اگر ایک لاکھ سیاح یہاں آ جائیں تو انھیں رکھنے کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔ ہم اس فرق کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا کردار سہولت کاری کا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خزانے میں ڈالرز آئیں۔ ہم کسی سے مقابلہ نہیں بلکہ شراکت داری چاہتے ہیں۔ ہم جوائنٹ وینچر کرنا چاہتے ہیں۔'
جنرل حسن اظہر حیات نے کہا کہ ان کی گرین ٹورازم نے ’صوبوں سے مل کر 18 سائٹس پر کام شروع کیا ہے۔ جن میں سکردو، ہنزہ، نلتر، کالام، چھتر پلین، کٹاس راج، واہگہ، ننکانہ صاحب، گورکھ ہل وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سمبانی اور گڈانی پر سی لائن ریزروٹ بن رہے ہیں۔‘
تاہم گلگت بلتستان کے مقامی افراد اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات پر انتہائی ناخوش ہیں۔
’سیاحت سکھانے کی بجائے بہتر سہولیات دینے کی ضرورت‘
بی بی سی نے گرین ٹورازم کمپنی کے کچھ منصوبوں کا گلگت بلتستان میں جا کر خود جائزہ لیا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر اس شعبے سے متعلق رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی کے صدر ایڈووکیٹ احسان علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ گرین نہیں بلکہ بلیک دھندا ہے، جو مقامی افراد کے مفاد کے خلاف جبر کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ معیشت پر سکیورٹی اداروں کا تو پہلے ہی قبضہ ہی تھا مگر جو ایک آدھ شعبہ سیاحت کا رہ گیا تھا اب اس پر بھی نظریں جما لی ہیں۔'
Getty Images
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’یہ جو معاہدہ اس خطے کی حکومت کے ساتھ کیا گیا ہے یہ فوج کا اپنا تیار کردہ یکطرفہ معاہدہ ہے، جس میں شرائط بھی خود طے کی گئی ہیں، اور اس معاہدے پر کابینہ اراکین سے دستخط حاصل کر لیے گئے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ بھی گرین کمپنی نے بھی طے کرنا ہے کہ اس معاملات سے کتنا منافع ہوا اور پھر کتنا حصہ علاقےکی حکومت کو ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ سب مبہم ہے جبکہ تنازع کے حل کے لیے غیرجانبدار کمیٹی بھی نہیں بنائی گئی ہے۔‘
سکردو میں مقیم سماجی کارکن نجف علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس علاقے میں کمائی کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ سیاحت ہے۔ باقی اس خطے میں مواصلات فوجی کمپنی 'ایس سی او' چلاتی ہے، سڑکیں فوج کا شعبہ این ایل سی تعمیر کرتا ہے اور باقی شعبوں میں بھی سرمایہ دار باہر سے آتے ہیں۔‘
ان کے مطابق 'اب سیاحت کے شعبے میں گرین ٹورازم کے نام سے ایک کمپنی سامنے آ گئی ہے جس نے سرکاری ریسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اِن کی اوپن بِڈنگ کی جائے تاکہ مقامی لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔‘
مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘بلیک ہاک ڈاؤن: جب پاکستانی فوجیوں اور ٹینکوں نے صومالی جنگجوؤں کے نرغے میں پھنسے امریکی فوجیوں کو بچایا
نجف علی کے مطابق ’سیاحت تو پورے پاکستان کو گلگت بلتستان کے لوگوں نے سکھائی ہے۔ ضرورت یہ تھی کہ یہاں ٹرانسپورٹ، بجلی اور مواصلات کی بہتر سہولیات دی جاتیں اور سڑکوں کو محفوظ بنایا جاتا تو سیاحت خود بخود فروغ پا جاتی۔‘
تاہمجنرل ریٹائرڈ حسن اظہر حیات کا کہنا ہے کہ یہاں سے جو منافع حاصل ہو گا وہ فوج کو جانے کے بجائے سیاحت کے فروغ کے لیے خرچ ہو گا۔ ان کے مطابق 20 فیصد رقم مقامی ترقیاتی کاموں میں خرچ کی جائے گی جبکہ 35 فیصد رقم متعلقہ صوبائی حکومت کو ملے گی۔
واضح رہے کہ گرین ٹورازم کے تحت جن ہوٹلوں کا انتظام گرین کمپنی نے سنبھالا ہے۔ وہ ہوٹل گذشتہ تین سال سے بند پڑے تھے کیونکہ عمران خان کی حکومت نے ان ہوٹلوں کی نجکاری کا اعلان کیا تھا جبکہ یہاں کام کرنے والے ملازمین کو جبری ریٹائرمنٹ دے کر رخصت کر دیا گیا تھا، جس پر یہ مظاہروں اور احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
جنرل احسن اظہر نے مقامی آبادی کے اعتراضات سے متعلق کہا کہ ’یہ معاملہ گلگلت بلتستان کی حد تک ہے اور ہم مستقبل میں جو کچھ کریں گے مقامی آبادی کو اعتماد میں لے کر کریں گے۔‘
BBCنجف علی: ’سیاحت تو پورے پاکستان کو گلگت بلتستان کے لوگوں نے سکھائی ہے‘خیبر پختونخوا کا ’فوج سے ہوٹلوں کی واپسی‘ کا مطالبہ
دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ گرین ٹورازم سے صوبائی اثاثے واپس لینے کے لیے متعلقہ محکمے سے رابطے میں ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم ہی نہیں کرتے جو گرین ٹورازم نامی کمپنی نے ایک نگران حکومت سے کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جو پی ڈی ایم کی حکومت کو یہ اختیار ہی حاصل نہیں تھا کہ وہ صوبائی اثاثوں کو کسی کے حوالے کر دے۔
زاہد چن زیب نے کہا کہ جو انھوں نے صوبائی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا وہی ان کا موقف ہے کہ ’فوج اپنے کام پر توجہ دے اور سیاحت کا شعبہ صوبائی حکومت کے حوالے کرے۔‘
زاہد چن زیب نے کہا کہ 'نگران حکومت کے دور میں صوبے کے 19 میں سے 17 پی ٹی ڈی سی ہوٹلز لے لیے گئے اور جس شخص (اس وقت کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن اظہر حیات) نے یہ کام کیا اس نے بعد میں اپنی گرین ٹورازم کمپنی بنا دی۔'
انھوں نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں فوج کا نام لیے بغیر کہا کہ ’آپ کا کاروبار کے ساتھ کیا کام ہے۔ آپ ساٹھ ساٹھ فیصد منافع لے جاتے ہیں۔ جس کام میں آپ ہاتھ ڈالیں وہ سونا اور ہمارے لیے مٹی رہ جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ 'کاروبار کرنا تو عام پبلک کا کام ہے۔'
گرین ٹورازم کے سربراہ جنرل حسن اظہر حیات نے کہا کہ 'چن زیب صاحب کی تقریر (حکومتی سطح پر کمپنی کی مخالفت کی) ایک واحد مثال ہے۔‘
ان کے مطابق اس میں 'تھوڑی غلط فہمی ہے۔ گرین ٹورازم کو 'نیشنل ڈویلپمنٹ' کے لیے لے کر آگے جانا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم اٹھارویں ترمیم کے تحت متعلقہ صوبائی حکومتوں کے پاس گئے اور ان سے بات چیت کر کے یہ سب معاہدات کیے۔‘
ان کے مطابق پی ٹی ڈی سی کے ہوٹل پانچ، پانچ سال سے بند پڑے تھے، جن کی ’ہم نے تعمیر نو کی ہے۔‘
BBCلیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حسن اظہر حیات کے مطابق خیبر پختونخوا میں بعض سرکاری ہوٹلوں کی تعمیر نو کی گئی ہے
جنرل حسن اظہر حیات کے مطابق ’تمام صوبوں نے ہمارے ساتھ اپنی پراپرٹیز کی فہرست شیئر کی جو ایک شیئرنگ فارمولا پر لی گئی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہر صوبے کا شیئرنگ فارمولا مختلف ہے۔‘ ان کے مطابق ’جو پراپرٹیز صوبوں نے ہمیں آفر کیں وہ سب تو ہم نے لی بھی نہیں۔ مثال کے طور پر جی بی نے ہمیں 178 پراپرٹیز کی فہرست دی۔ مگر ہمارے پاس اتنی 'کیپسٹی' نہیں تھی، اس وجہ سے ہم نے صرف 37 پراپرٹیز ہی لیں۔‘
ان کے مطابق ’شیئرنگ فارمولا صوبوں کی مرضی کے عین مطابق ہے اور اس کی باقاعدہ صوبائی کابینہ سے منظوری لی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کئی جگہیں ایسی ہیں کہ ہم صوبوں کو واپس کرنا چاہتے ہیں اور اگر صوبے بھی کچھ واپس لینا چاہتے ہیں تو وہ اس بورڈ کے ذریعے واپس لے سکتے ہیں۔ یہ کوئی زبردستی والی بات نہیں ہے۔‘
Getty Imagesایس آئی ایف سی اور غیر ملکی سرمایہ کاری
اِس بات کے کوئی واضح شواہد نہیں ہیں کہ 'ایس آئی ایف سی' کے قیام کے بعد پچھلے دو سال میں اِس ادارے کی وجہ سے پاکستان میں کتنی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ہوئی ہے۔
چند ماہ پہلے جب بی بی سی نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے بات کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ چار دوست ممالک نے 'ایس آئی ایف سی' کے تحت 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ کونسل پاکستان کے لیے 27 ارب ڈالر کا ایک 'کور' ہے جس میں پاکستان کے دوست ممالک نے تقریباً اگلے پانچ سالوں کے لیے 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی ہے، جس میں سعودی عرب کے پانچ ارب ڈالر، یو اے ای اور کویت نے دس، دس ارب ڈالر جبکہ آذربائیجان نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ سرمایہ کاری پاکستان نہ آئے۔ انھوں نے کہا کہ 'جس طرح سی پیک پاکستان کے لیے 46 ارب ڈالر کا ایک کور تھا اور جو ابتدا میں ایسے ہی یقین دہانیوں اور اعلانات سے آگے بڑھا تھا تو بالکل یہ کونسل بھی ایسے ہی پاکستان کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو گی۔'
تاہم حال ہی میں جب اُن سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اب تک موصول ہونے والی سرمایہ کاری سے متعلق کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
تاہم دوسری جانب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال جولائی سے دسمبر تک پاکستان میں ہونے والی فارن ڈائریکٹ اِنویسٹمنٹ میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اِس اضافے میں ’ایس آئی ایف سی‘ کا بہت بڑا کردار ہے، لیکن اِس بارے میں واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس ضمن میں پیش کیے گئے تازہ موقف کو بھی درست مان لیا جائے تو تب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ ممالک کی جانب سے وعدہ کی گئی سرمایہ کاری کس مد میں ہو گی۔
ان کے مطابق اب تک صرف اتنا واضح ہے کہ کوئی خاص غیرملکی سرمایہ کاری نہیں ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کونسل کے ہونے والے اجلاسوں میں یکطرفہ فیصلے صادر کیے جا رہے ہوتے ہیں جبکہ معیشت کی اپنی ایک سمت ہوتی ہے جسے ہدایات دے کر نہیں چلایا جا سکتا ہے۔
جبکہ پالیسی انسٹیٹیوٹ 'ایس ڈی پی آئی' کے ڈاکٹر ساجد امین جاوید کہتے ہیں کہ ابھی اس کونسل کی کارکردگی کو جانچنا قبل از وقت ہو گا۔
ان کی رائے میں سرمایہ کاری آنے میں وقت لگتا ہے۔
ایس آئی ایف سی میں فوج کے کردار پر تنقید کیوں؟
ناقدین کے مطابق ایس آئی ایف سی میں ہر سطح پر فوج کا بطور ادارہ عمل دخل، اور اس کے ساتھ ساتھ ایس آئی ایف سی کے معاملات میں بظاہر احتساب اور شفافیت کی کمی ایسے مسئلے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور جن کی وجہ سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی کہ 'ایس آئی ایف سی' کی وجہ سے سویلین معاملات کے لیے سویلین اداروں کی طرف سے فیصلہ سازی کی سپیس مزید کم ہو رہی ہے؟
تاہم دوسری جانب اِس کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ اِس طرح کے منصوبوں یا پراجیکٹس میں فوج کا کردار اہم ہے کیونکہ یہی ادارہ ہے جو ملک کی بیوروکریسی اور ریڈ ٹیپ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تو یہاں پر بنیادی سوال یہ بنتا ہے کہ کیا فوج کا 'ایس آئی ایف سی' میں شامل ہونا واقعی مسئلہ ہے؟
اس سوالات کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا تاہم اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
لیکن آرمی چیف ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ معاشی استحکام اور امن و امان کے لیے شروع کیے جانے والے حکومتی منصوبوں کو سپورٹ کرنے کے لیے فوج پرعزم ہے اور ملک کی معیشت میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنا اُن کی معاشرتی ذمہ داری ہے۔
چند ماہ قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا تھا کہ 'اس وقت پاکستان انتہائی مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے اور ایسے میں اگر فوج بھی اس مشکل سے ملک کو نکالنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور سہولت کاری کر رہی ہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ان چیلنجز سے مل جل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔'
صحافی و تجزیہ کار بینظیر شاہ کا ایس آئی ایف سی میں فوج کے عمل دخل سے متعلق سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ 'ایک ملک جہاں پارلیمانی جمہوری نظام ہوتا ہے وہاں فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ کابینہ ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ الگ سے ایک ایپکس فیصلہ ساز ادارہ قائم کر دیں جیسا کہ ایس آئی ایف سی تو کنفیوژن یہ بنتی ہے کہ اہم فیصلہ سازی کون کرے گا؟ آپ نے ایک ایسا ادارہ بنا دیا جس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے اور وہاں ایسے افراد ہیں جو غیرمنتخب ہیں اور جن کے پاس یہ اتھارٹی نہیں ہے کہ وہ گورننس سے متعلقہ معاملات کو دیکھیں۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں شفافیت نہیں ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ ان کا بجٹ کتنا ہے، اس میں کتنے افسران کام کرتے ہیں۔۔۔'
انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’ون ونڈو یا ون سٹاپ شاپ سویلین ادارے کیوں نہیں بنا سکتے، یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی شامل کر کے بنانا کیوں ضروری ہیں؟‘
انھوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ایک پرائیوٹ کمپنی بنائی گئی ہے جسے ہزاروں ایکٹر زمین دی گئی ہے جو آگے اسے لیز آؤٹ کرے گی۔ ’یہ ایک عجیب صورتحال ہے کوئی حکومت کیوں ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کو اپنی زمین دے گی۔ صرف اتنا نہیں ہے بلکہ پرائیوٹ کمپنی کے ساتھ پرافٹ شیئرنگ بھی کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے کوئی تفصیلات کسی کو فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔‘
بینظیر شاہ کا خیال ہے کہ یہ صورتحال شفافیت کے فقدان کو جنم دے رہی ہے۔
فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘بہاولنگر میں پولیس سٹیشن پر فوجی اہلکاروں کا مبینہ دھاوا: ’جو ہوا پورے پاکستان نے دیکھا، اب نوکری کرنے کا دل نہیں چاہتا‘جنگی مشق یا ’بارش سے متاثرہ فصل خشک کرنے کی کوشش‘: سوشل میڈیا پر فوجی ہیلی کاپٹروں کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟’گرین پاکستان‘ منصوبہ کیا ہے اور اس میں فوج کو اہم ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟