’ساحل‘ جہاں دہشت گردی کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 08, 2025

Getty Imagesمالین فوج ساحل میں موجود اسلامی جنگجوؤں سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں

گلوبل ٹیرر انڈیکس (جی ٹی آئی) کے مطابق افریقہ کا ساحل خطہ ’عالمی دہشت گردی کا مرکز‘ بن چکا ہے اور پہلی مرتبہ ہے کہ دنیا میں ’دہشتگردی کی وجہ سے ہونے والی تمام اموات میں سے آدھی سے زیادہ اموات‘ اس خطے میں ہوئی ہیں۔

اس ادارے کی جانب سے شائع کی گئی نئی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ’دہشتگردی سے منسلک 51 فیصد اموات‘ خطہ ساحل میں ہوئی ہیں۔ یعنی سنہ 2024 میں دہشتگردی کے باعث کُل 7555 اموات ہوئیں جن میں سے 3885 ساحل خطے میں ہوئیں۔

جی ٹی آئی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر جہاں یہ نمبر اب سنہ 2015 کی ریکارڈ 11 ہزار اموات سے کم ہوا ہے لیکن ساحل میں سنہ 2019 کے بعد سے اس تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے اور شدت پسند گروہ اس خطے کی جانب ’اپنی توجہ مبذول کر رہے ہیں۔‘

یہ انڈیکس انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے شائع کیا گیا ہے جو ایک ایسا تھنک ٹینک ہے جو عالمی امن اور تنازعے کے بارے میں تحقیق کرتا ہے۔ اس تھنک ٹینک کی جانب سے دہشتگردی کی تعریف ’غیر ریاستی گروہ کی جانب سے طاقت اور تشدد کا غیرقانونی استعمال جس سے سیاسی، معاشی، مذہبی یا سماجی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور ایسا خوف، زبردستی یا دھمکیوں سے کیا جائے۔‘

BBC

صحرائے صحارا کے جنوب میں واقع خطہ ساحل افریقہ کی جنوبی بندرگاہ سے براعظم میں مشرق تک پھیلا ہوا ہے۔

اس خطے میں 10 ممالک شامل ہیں جن میں برکینا فاسو، مالی، نائیجر، کیمرون، گنی، دی گیمبیا، سینیگال، نائیجیریا، چیڈ اور موریطانیہ شامل ہیں۔

یہاں شرحپیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور آبادی کا دو تہائی حصہ 25 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔

رپورٹ کے مطابق مغرب کے برعکس جہاں ’انفرادی دہشتگردی بڑھ رہی ہے‘ ساحل میں عسکریت پسند حہادی گروپس کی توسیع تیزی سے بڑھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر حملے دو جہادی تنظیموں نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے الحاق شدہ گروپ اور جماعت نصرت الاسلام والمسلمین (جے این آئی ایم) شامل ہیں۔ جے این آئی ایم القاعدہ کی ایک برانچ ہے۔

افریقی سکیورٹی سیکٹر نیٹ ورک کے چیئر نیاگیل باگایوکو بتاتی ہیں کہ ’وہ نئے قانونی احکامات جاری کر رہے ہیں۔ وہ شریعت کی بنیاد پر عدل کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

اس کے لیے وہ اثرو رسوخ کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

BBCکیا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کبھی ختم ہو سکے گی؟دہشت گردی کے خلاف جنگ: کیا اب بڑی فوجی تعیناتیوں کا دور ختم ہو رہا ہے

اقوام متحدہ کے مالی کے حوالے سے ماہرین کے پینل کے مطابق 2020 اور 2021 میں ملک میں ہونے والی بغاوتوں کے بعد ساحل نے مبینہ طور پر مالی میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں کی تعداد دوگنی کر دی ہے۔

یہ زیادہ تر مشرق میں برکینا فاسو اور نائجر کے ساتھ اپنی سرحدوں کے قریب، جبکہ جے این آئی ایم نے بھی اپنی رسائی کو بڑھانا جاری رکھے ہوئے ہے۔

جی ٹی آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں گروہوں نے داعش کے معاملے میں بچوں سمیت مزید جنگجو بھرتی کیے ہیں۔

جیو پولیٹیکل رسک کنسلٹنسی فرانکوفون افریقہ ایٹ کنٹرول رسکس میں مہارت رکھنے والے سینئر تجزیہ کار بیورلی اوچیانگ کا کہنا ہے کہ ’کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ جب تک لوگ عسکریت پسند گروپ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ بے اختیاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

یہ وہ کمیونٹیز ہیں جو بہت کمزور ہیں۔

جی ٹی آئی کی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح سیاسی عدم استحکام اور کمزور گورننس باغی گروہوں کے بڑھنے کے لیے مثالی حالات پیدا کر رہے ہیں۔

ساحل کو بعض اوقات افریقہ کی ’بغاوت کی پٹی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سنہ 2020 سے اب تک اس خطے میں چھ کامیاب بغاوتیں ہو چکی ہیں جن میں مالی میں دو، برکینا فاسو میں دو، گنی میں ایک اور نائجر میں ایک بغاوت شامل ہے۔ یہ تمام ممالک اب فوج کے زیر انتظام ہیں۔

لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی میں اس خطے کی ماہر ڈاکٹر فلہانمی اینا کہتی ہیں کہ ’ساحل کو معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کئی برس تک سیاسی رہنماؤں کی جانب سےنظر انداز کیا گیا، جن کی ترجیح عوام پر مبنی حکومت نہیں تھی۔ مقامی لوگوں کی شکایتوں میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروپوں نے اس سب صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

Getty Images

ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ ’یہ تاثرتھا کہ سول حکومتیں باغی گروپوں کی طرف سے سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہیں۔ لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے کے باوجود صورتحال کو نہیں دیکھا اور سکیورٹی ابتر ہو گئی۔‘

ڈاکٹر اینا کا کہنا ہے کہوہ پیشہ ورانہ طور پر گورننس کی سختیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جی ٹی آئی کے مطابق 2024 میں برکینا فاسو مسلسل دوسرے سال دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک رہا۔

14 برسوں میں جب سے یہ رپورٹ شروع ہوئی، یہ وہ واحد ملک ہے جو اس فہرست میں سب سے اوپر ہے، یہ عراق یا افغانستان نہیں ہے۔

جی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق جہادی گروہ ساحل میں متعدد غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں اغوا برائے تاوان اور مویشیوں کو اغوا کرنا بھی شامل ہے۔

خطہ ساحل جنوبی امریکہ سے یورپ میں کوکین لے کر آنے والے منشیات سمگلروں کے لیے ایک اہم گزرگاہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ’منشیات کی سمگلنگ ساحل میں دہشت گردی سے منسلک سب سے زیادہ مالی طور پر منافع بخش غیر قانونی سرگرمیوں میں سے ایک کی نمائندہ کرتی ہے۔‘

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چند گروہ براہ راست منظم جرائم میں ملوث ہونے سے اجتناب برتتے ہیں لیکن وہ ٹیکس لگا کر یا ادائیگوں کے بدلے میں تحفظ فراہم کرکے پیسہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ یہ ماڈل نہ صرف آمدن بناتا ہے بلکہ یہ ان گروہوں کو مقامی کمیونٹیز میں بھی شامل کرتا ہے جو مضبوط ہوتی ہیں اور جن کا اثر ورسوخ زیادہ ہوتا ہے۔

بغاوت کرنے والے ساحل کے قدرتی وسائل سے کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں بھی ہیں۔

خیال رہے کہ نائجر یورینیم پیدا کرنے والا دنیا کا ساتواں سب سے بڑا ملک ہے، اور پورے خطے میں پائی جانے والی غیر منظم کاریگر سونے کی کانوں سے اکثر دولت اسلامیہ ساحل اور جے این آئی ایم جیسے گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

Getty Images

حالیہ عرصے میں ہونے والی بغاوتوں کے بعد ساحل کی حکومتوں نے عسکریت پسندوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے فرانس اور امریکہ جیسے مغربی اتحادیوں سے ہٹ کر چین اور روس کا رخ کیا ہے۔

اوچیانگ کا کہنا ہے کہ ’ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روس افریقی کور (سابق ویگنر) کے نام سے مشہور خطے میں روسی نیم فوجی دستوں پر زیادہ مضبوط کنٹرول حاصل کر رہا ہے۔

ان کا کام مقامی فوجوں کو تربیت دینا اور ان کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ خطے میں ہونے والے فساد پر کنٹرول کر سکیں مگر ابھی تک یہ پراثر ثابت نہیں ہوا ہے۔

اس کے نتیجے میں جی ٹی آئی کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اب نام نہاد ’دہشت گردی کے مرکز‘ سے آگے ہمسایہ ممالک میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

اصل میں اس کا کہنا ہے کہ یہ پہلے ہی ہو سکتا ہے، ٹوگو نے 2024 میں 10 حملے اور 52 ہلاکتیں ریکارڈ کیں، جو انڈیکس شروع ہونے کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔یہ زیادہ تر برکینا فاسو کے ساتھ ملک کی سرحد پہ تھے۔

اوچیانگ اس اندازے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بینن یا ٹوگو یا دیگر ساحلی مغربی افریقی ریاستوں جیسے ممالک میں خطے کے اندر عسکریت پسند گروہوں کی توسیع یقینی دکھائی دیتی ہے۔‘

کیا دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کبھی ختم ہو سکے گی؟دہشت گردی کے خلاف جنگ: کیا اب بڑی فوجی تعیناتیوں کا دور ختم ہو رہا ہےجنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ: عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ کیا تھا؟دہشت گردی کو کسی ایک ملک سے نہیں جوڑا جا سکتا: چین
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More