پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں منگل کی شام شدت پسندوں کے حملے کا ہدف تو فوجی علاقہ تھا لیکن بارود بھری گاڑیوں کی مدد سے کیے جانے والے دھماکوں میں چھاؤنی کے قریب واقع آبادی کے مکانات خصوصاً کوٹ براڑہ نامی گاؤں بری طرح متاثر ہوا ہے۔
یہ حملہ ماہ رمضان میں ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب لوگ افطاری میں مصروف تھے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ بیان میں اس حملے میں پانچ فوجیوں اور 13 شہریوں کی ہلاکت جبکہ 32 شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی اجتماعی نماز جنازہ بدھ کے روز بنوں میں ادا کی جا رہی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کی جانب سے بنوں چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنایا اور اس کارروائی کے دوران چار خودکش حملہ آوروں سمیت 16 شدت پسند مارے گئے۔
شدت پسندوں نے بنوں چھاؤنی میں گھسنے کی کوشش کے دوران بارود سے بھری دو گاڑیاں چھاؤنی کی دیوار سے ٹکرائیں جس کے نتیجے میں زوردار دھماکے ہوئے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ متعدد خودکش دھماکوں کی وجہ سے جہاں چھاؤنی کی بیرونی دیوار جزوی طور پر منہدم ہوئی وہیں ایک مسجد اور قریب واقع عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
سکیورٹی حکام کے مطابق ان دھماکوں سے تین شہری مسجد میں ہلاک ہوئے جبکہ باقی شہری دھماکے کی وجہ سے بازار میں واقع عمارت منہدم ہونے سے ہلاک ہوئے۔
حملہ چھاؤنی پر اور نقصان شہری آبادی کا
کوٹ براڑہ اس حملے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے اور دھماکوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے 32 افراد میں سے 23 کا تعلق اسی گاؤں سے ہے جبکہ 13 ہلاک شدگان میں سے بھی 11 اسی گاؤں سے ہیں جن می سے چھ افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا گیا ہے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ حکام کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم پانچ بچے شامل ہیں جن کی عمریں ڈیڑھ سال سے نو سال کے درمیان ہیں۔
جبکہ زخمی ہونے 32 افراد میں کم از کم 14 بچے شامل ہیں جن کی عمریں دو سال سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
ان دھماکوں سے چھاؤنی کا بیرونی دروازہ بھی مکمل تباہ ہو گیا اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہاں شاید کوئی دروازہ تھا ہی نہیں۔
دھماکے کے وقت کا منظر بیان کرتے ہوئے بنوں سول ہسپتال میں موجود ایک زخمی ظاہر شاہ نے بتایا کہ وہ ایک مشکل وقت تھا۔ ہم افطاری کے لیے دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز آئی، جس کے بعد بہت تیز ہوا (شاک ویو) چلی، ہم نے فوری طور بچوں کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اوپر سے چھت کا ملبہ، شیشے اور دیگر اشیا ہم پر آ گریں، جس سے ہمارے سر میں چوٹیں آئی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہم تقریباً 45 منٹ تک ایسے ہی وہیں دبے رہے بعد میں جو لوگ محفوظ تھے وہ اندر آئے اور انھوں نے ہمیں بڑی مشکل سے نکالا۔ باہر چونکہ فائرنگ ہو رہی تھی اس لیے باہر جانے یا ہسپتال جانے میں دشواری تھی لیکن اہل علاقہ کے لوگوں نے گھر کے افراد کے ساتھ مدد کی اور ہمیں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔‘
دھماکے کے وقت تباہ ہونے والی مسجد میں موجود ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں افطاری کے بعد وضو کی تیاری کر رہا تھا کہ اتنے میں زوردار دھماکہ ہوا اور چھت گرنے لگی۔ میں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر مسجد سے باہر نکلا اور اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ کیا ہوا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مسجد میں امام مسجد اور قاری سمیت چھ سے سات افراد موجود تھے اور بعد مجھے معلوم ہوا کے وہ ملبے کے نیچے آ گئے۔‘
محمد وسیم ایک صحافی ہیں۔ اس دھماکے میں ان کے مکان کو بھی نقصان پہنچا ہے اور دیواروں اور چھت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ ایسا لگا کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ ’دھماکہ ایسا تھا جیسے اپنے گھر میں ہوا ہو حالانکہ دھماکے کا مقام کافی دور تھا۔‘
ان کے مطابق ’ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مساجد میں اعلانات ہونے لگے کہ لوگ پہنچیں، یہاں مکان کی چھت کر گئی ہے۔ لوگ پنے بچوں اور زخمی خواتین کو لے کر ہسپتال کی طرف جا رہے تھے۔ وہ سب ایک قیامت کا منظر تھا۔‘
محمد وسیم نے بتایا کہ اس علاقے میں 10 سے 15 مکان ایسے ہیں جن میں ایک یا دو کمرے یا دیواریں مکمل طور پر گر گئے ہیں جبکہ بعض کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔’بیشتر گھروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور اب ان کی مرمت شاید نہ ہو سکے اور یہ مکان دوبارہ سے تعمیر کرنا ہوں گے۔‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ اس علاقے میں کچے گھر نہیں بلکہ پختہ آر سی سی چھتیں ہیں اور زیادہ نقصان ان مکانات میں لگی فالس سیلنگز، شیشے اور پنکھے گرنے سے ہوا ہے۔
مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حملے کے بعد بنوں میں آج سوگ ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ کوٹ براڑہ کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ اب علاقے ہلاک شدگان کے لیے فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔
’گڈ طالبان‘ کون ہیں، یہ بنوں کیسے پہنچے اور اب ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟گل بہادر گروپ: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا لکی مروت کے بعد بنوں اور باجوڑ میں بھی پولیس اہلکار سراپا احتجاج کیوں ہیں؟’شہری لاشیں اور زخمی وارڈز تک پہنچاتے رہے‘
حملے کے بعد بنوں شہر کے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹس کے تینوں ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔
ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے افطار کے وقت بازار میں ہوئے اور ابتدائی طور پرایسا نہیں لگ رہا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں زخمی یا لاشیں آئیں گی کیونکہ عام طور افطار کے وقت لوگ اپنے گھروں میں موجود رہتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق ان کا یہ اندازہ جلد ہی غلط ثابت ہوا کیونکہ دھماکوں کی شدت بہت زیادہ تھی اور انھیں بتایا گیا کہ زیادہ تعداد میں زخمی اور لاشیں آ سکتی ہیں جس کے بعد اضافی عملہ بھی طلب کر لیا گیا جبکہ ادویات بھی سٹاک کر لی گئیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دھماکوں کے بعد زخمی اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے علاوہ بڑی تعداد میں عام شہری بھی ہسپتالوں میں پہنچے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس ہنگامی صورتحال میں عام شہریوں نے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نہ صرف گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر لائی جانے والی لاشوں اور زخمیوں کو وارڈز تک پہنچانے میں عملے کی مدد کی ہے بلکہ خون کے عطیات بھی دیے۔
بنوں پہلی بار نشانہ نہیں بنا
اطلاعات کے مطابق جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اس تنظیم کا تعلق کالعدم دہشت گرد گروپ حافظ گل بہادر سے ہے۔ ماضی میں بھی اس تنظیم نے شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔
بنوں میں اس سے پہلے بھی چھاؤنی کے علاقے میں حملے اور دھماکے ہو چکے ہیں۔ جولائی 2024 میں بنوں میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پاکستانی فوج کے سپلائی ڈپو کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکار اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل دسمبر 2022 میں بھی بنوں چھاؤنی میں دھماکے اور فائرنگ کی گئی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی جیش فرسان محمد نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس حملے کے بعد فائرنگ سے دو شہری بھی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
گل بہادر گروپ: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا’گڈ طالبان‘ کون ہیں، یہ بنوں کیسے پہنچے اور اب ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟فوجی آپریشن کی ڈرون ویڈیوز: کیا پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے؟پاڑہ چنار کے راستے کی بندش: ’زندگی میں پہلا رمضان جس میں افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں‘طورخم میں افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان جھڑپ: سرحد کی بندش اور چوکی کی تعمیر پر تنازع