Getty Images
افغانستان میں عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ، داعش، کے ایک خودکش حملہ آور نے حال ہی میں قندوز میں ایک بینک کے قریب دھماکہ کیا۔
داعش نے بعد میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے طالبان فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا تاہم اس حملے میں متعدد عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔
گزشتہ دو ماہ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ داعش کی خراسان شاخ نے خودکش بمبار کو استعمال کیا۔ دو ماہ قبل ایک خودکش بمبار نے طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمن حقانی کو ان کے دفتر کے اندر ہلاک کر دیا تھا۔
افغان طالبان کے لیے تاریخ خود کو دہرا رہی ہے کہ ایک ایسا ہتھیار جو ماضی میں وہ استعمال کرتے رہے، اب ان کے ہی خلاف استعمال ہو رہا ہے یعنی ’خودکش حملہ آور۔‘ داعش وقتاً فوقتاً اسی حکمت عملی سے طالبان کے اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہے۔
داعش کے خود کش حملوں کا نشانہ بننے والے طالبان کی حکومت کے پانچ سرکردہ عہدیداروں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔
ایسے میں بی بی سی نے خود کش بمبار کی تاریخ کا جائزہ لیا کہ یہ ہتھیار اور اس کی حکمت عملی کیسے بنی اور خصوصی طور پر افغانستان میں اس کا استعمال کیسے ہوا تاہم اس سے قبل جانتے ہیں کہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت کے خلاف داعش نے خود کش بمبار استعمال کرتے ہوئے کیا کارروائیاں کی ہیں۔
مصنوعی ٹانگ سے خود کش حملہ
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد، رحیم اللہ حقانی، جو طالبان کے سب سے اہم علما میں سے ایک تھے، کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی طرف آنے والا معذور شخص خودکش بمبار تھا۔
اس شخص نے رحیم اللہ حقانی کے قریب پہنچتے ہی پلاسٹک کی مصنوعی ٹانگ میں چھپائے ہوئے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔
ایک ماہ سے بھی کم عرصہ بعد، مجیب الرحمان انصاری، جو طالبان کے حامی ایک اور ممتاز عالم تھے، ایک خودکش حملے میں مارے گئے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس وقت علما سے احتیاط برتنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے حملوں کو روکنا مشکل کام ہے۔
اس مہلک حملے کے چھ ماہ بعد، داؤد مزمل، جو کہ بلخ کے گورنر اور طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بااعتماد ساتھی تھے، کے دفتر میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنی بارودی بیلٹ کو دھماکے سے اڑا دیا، جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔
بلخ کے گورنر کے قتل کے چار ماہ بعد، دھماکہ خیز مواد سے لیس کار میں ایک خودکش حملہ آور نے صوبہ بدخشاں کے نائب اور قائم مقام گورنر نثار احمد احمدی کی گاڑی کے قریب پہنچ کر دھماکہ کر دیا۔ یوں تیسرے درجے کے ایک طالبان رہنما کو ایک اور خودکش بمبار نے ہلاک کر دیا۔
افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیکراچی میں ہونے والا ’پہلا خودکش حملہ‘ کب اور کس نے کیا تھا؟بااثر حقانی خاندان کے سربراہ خلیل الرحمان حقانی کو ’ہاتھ پر لگے پلستر میں چھپے بم کی مدد سے خودکش حملہ آور‘ نے کیسے نشانہ بنایا؟کراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟
ان پانچ حملوں میں سے چار میں، خودکش بمبار پیدل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ داعش مخالف خیالات رکھنے والے رحیم اللہ حقانی کو پہلے بھی کم از کم دو بار نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئے تھے۔
بلخ کے گورنر داؤد مزمل پر حملے میں، جنھوں نے اس سے قبل ننگرہار میں داعش کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑ رکھی تھی، خودکش بمبار سکیورٹی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب رہا۔
خلیل الرحمٰن حقانی کے معاملے میں خودکش بمبار سکیننگ کرنے والے گیٹ سے بھی گزرنے میں کامیاب رہا۔
چار سی سی ٹی وی کیمروں سے پتہ چلتا ہے کہ داؤد مزمل کے خلاف خودکش حملہ آور کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد کہیں تلاشی نہیں لی گئی۔
اب تک یہ واضح ہو چکا ہے کہ داعش طالبان حکومت کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے حالانکہ طالبان نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھوں نے داعش کی کمر توڑ دی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ خودکش حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
جب افغان مجاہدین نے خود کش حملے سے انکار کر دیا
افغانستان میں مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان تقریباً 10 سالہ جنگ کے دوران ایک بھی خودکش حملہ نہیں ہوا۔
سٹیو کیل نے سوویت یونین کے دور کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ’گوسٹ وارز‘ میں لکھا کہ ’پاکستانی فوج کی انٹیلیجنس سروس کے افغان سیکشن کے سربراہ محمد یوسف نے کابل کے شمال میں واقع سٹریٹجک سلانگ سرنگ کو اڑانے کی کوشش کی۔‘
’ان کا ارادہ تھا کہ بارود سے بھرے ٹرکوں کی مدد سے یہ کام کیا جائے۔ پاکستانی ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی نے ٹینکروں کو دھماکہ خیز مواد سے بھرنے میں مدد کی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سوویت فوجی اس سرنگ کے اندر کسی بھی ٹرک کو فوری طور پر روک لیتے تھے۔‘
’لہذا ایسا نہیں لگتا تھا کہ اس طرح کے مشن کو انجام دینے کا کوئی عملی طریقہ ہے جب تک کہ ٹرک ڈرائیور اس مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار نہ ہو۔ یوسف نے جن افغانوں کو تربیت دی تھی انھوں نے خود کش حملوں کی تجویز کو مذہب کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا۔‘
سٹیو کیل کے مطابق ’صرف عرب رضاکاروں نے، جن کا تعلق سعودی عرب، اردن، الجزائر اور دیگر ممالک سے تھا، خودکش حملوں کی حمایت کی۔ وہ بالکل مختلف ثقافت میں پلے بڑھے تھے، اپنی زبان بولتے تھے اور اسلام کی اپنی تشریح رکھتے تھے اور گھر اور خاندان سے بہت دور رہتے تھے۔‘
تاہم، افغان مجاہدین نے خودکش حملوں کی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے پہلا خودکش حملہ 19 نومبر 1995 میں اسلام آباد میں قائم مصر کے سفارتخانے میں ہوا تھا جب ایک مبینہ مصری حملہ آور نے بارود سے بھرا ٹرک سفارتخانے کے احاطے میں اڑا دیا جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہوئے۔
جب طالبان نے خود کش حملوں کی حکمت عملی کو اپنایاBBC2021 میں کابل میں ایک خودکش حملے کے بعد کے مناظر
دو دہائیوں سے بھی کم عرصے کے بعد، خودکش حملوں کے لیے نفرت جوش و خروش میں بدل گئی۔ 2006 میں طالبان نے امریکی اور اتحادی فوج کے خلاف جنگ کے دوران صرف ایک سال میں 119 خودکش حملے کیے۔ یعنی ہر تین دن میں تقریباً ایک خودکش حملہ اور یہ ان کارروائیوں کے علاوہ تھے جو ناکام ہوئے۔
سراج الدین حقانی، جن کے چچا خلیل الرحمان حقانی افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے چھ ماہ بعد ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے، نے ایک بار کہا تھا کہ صرف ان کے گروپ، حقانی نیٹ ورک کے 1,050 ارکان نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں خودکش حملے کیے ہیں۔
طالبان حکومت کے آنے کے دو ماہ بعد انھوں نے کابل کے انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں ان طالبان ارکان کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کی جنھوں نے خودکش حملے کیے تھے۔ انٹر کانٹینینٹل ہوٹل پر بھی طالبان نے دو بار خودکش حملے کیے تھے۔
چند ماہ قبل سراج الدین حقانی کے حکم پر صوبہ پکتیا کے ایک ضلع میں ایک خود کش حملہ آور کے اعزاز میں یادگار بنائی گئی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے اولین خودکش بمباروں میں سے ایک تھا جس نے امریکی گاڑیوں کے قافلے کو کار بم سے نشانہ بنایا تھا۔
اسی دوران پاکستان میں بھی خود کش حملوں میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں پہلا خود کش حملہ ہونے کے سات برس بعد دوسرا خودکش حملہ آٹھ مئی 2002 کو کراچی کے شیرٹن ہوٹل کے باہر ہوا جس میں فرانسیسی انجینیئرز کو نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے میں 11 فرانسیسیوں سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں یہ پہلا خودکش حملہ تھا جس میں پاکستانی خودکش حملہ آور ملوث تھا۔
خود کش بمباروں کی تربیت گاہ
ایک مشہور برطانوی صحافی کارلوٹا گال کے مطابق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع پشین کے تقریباً ہر گاؤں میں ایسے خاندان تھے جنھوں نے اپنے بچے افغانستان کی جنگ میں کھو دیے تھے۔
پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان بھی خودکش بمباروں کو استعمال کرتی رہی ہے جبکہ حال ہی میں علیحدگی پسند بی ایل اے کی جانب سے بھی خود کش بمباروں کو استعمال کیا گیا۔
مشہور امریکی صحافی سٹیو کول نے اپنی کتاب ’ڈائریکٹوریٹ ایس‘ میں لکھا کہ ’وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران پاکستانی فوج کے ایک افسر نے پاکستانی طالبان کا وہ سکول دیکھا جہاں خود کش حملہ آوروں کو تربیت دی جاتی ہے۔‘
’یہ افغانستان کی سرحد کے قریب شمالی وزیرستان کے ضلع رزمک میں ایک ایسی تربیت گاہ تھی جہاں خودکش حملہ آوروں کو کنکریٹ کے کمروں میں تربیت دی جاتی تھی۔‘
سٹیو کول کے مطابق ’ان کمروں کی دیواروں پر موت کے بعد کی زندگی کے موضوعات پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں، پھل دار درخت، سرسبز پہاڑ، روشن گلیاں اور اونٹ اور گھوڑوں جیسے جانور۔ ایک کمرے میں کنواری لڑکیوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں، جن میں سے ایک تالاب کے پانی سے گھڑے کو بھر رہی تھی۔ لڑکیوں اور جانوروں کے چہرے نہیں تھے۔‘
’آخری کمرے کی دیواروں پر، پاکستانی افسر نے ان خودکش بمباروں کے نام دیکھے جنھوں نے اپنا مشن مکمل کر لیا تھا۔ یہ نام خون سے لکھے ہوئے تھے۔‘
سٹیو کول کے مطابق ’پاکستانی افسر نے بعد میں دریافت کیا کہ پاکستانی طالبان خود کش حملہ کرنے والوں کو ویلیم اور زانیکس جیسی ادویات کے انجیکشن اور درد کم کرنے والے ہفتہ وار انجیکشن لگایا کرتے تھے۔‘
’اس تربیت گاہ میں ایسے کم عمر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی جو یا تو بیمار تھے، یا شدید ذہنی اور نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھے، یا کسی بھی وجہ سے ان میں بدلہ لینے کا محرک موجود تھا۔‘
’جو لوگ ذہنی طور پر بیمار یا معذور تھے انھیں ریموٹ کنٹرول کی مدد سے خود کش حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘
خودکش بمبار اور تاریخ
پاکستان اور افغانستان میں خودکش حملوں نے سنگین اثرات مرتب کیے۔ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی گاڑیوں پر ’قریب نہ آنے‘ کے نشانات لگا دیے گئے۔
افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے کمانڈر میک کرسٹل کی نگرانی میں کیے گئے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2009 میں صرف تین ماہ کے عرصے میں، برطانوی افواج نے عام گاڑیوں پر 93 مواقع پر فائرنگ کی کیونکہ انھیں خطرہ محسوس ہوا۔
اس کے نتیجے میں 200 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن ان میں سے کوئی بھی خودکش حملہ آور نہیں تھا۔
ترک افواج، جو نیٹو رکن ہونے کے باعث افغانستان میں تعینات تھیں، طالبان کے ممکنہ حملوں سے بچانے کے لیے اپنی گاڑیوں پر قرآن کی آیات نصب کر لیا کرتے تھے۔
بااثر حقانی خاندان کے سربراہ خلیل الرحمان حقانی کو ’ہاتھ پر لگے پلستر میں چھپے بم کی مدد سے خودکش حملہ آور‘ نے کیسے نشانہ بنایا؟کراچی میں ہونے والا ’پہلا خودکش حملہ‘ کب اور کس نے کیا تھا؟کراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کا پہلا حملہ کرنے والے ’انجینیئر غفار‘ جنھیں امریکیوں نے راولپنڈی میں تربیت دیملا عمر: ایک آنکھ سے زخمی طالبان قائد کی خفیہ زندگی اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کہانیجوگرز جن کے ذریعے بےنظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے والے کا پتا چلا