انسانی بالوں کی اربوں ڈالر کی انڈسٹری: ’لوگ پھینک دیتے ہیں لیکن یہ تو سونا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 19, 2025

ذیشان علی دس سال سے کام کر رہے ہیں اور ان کا کام اب انڈیا بھر میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن ان کی پرفارمنس میں بالوں کی 45 مختلف قسم کی وگ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

ممبئی میں رہنے والے ذیشان کہتے ہیں کہ ’یہ مجھے اپنی شناخت بدلنے میں مدد دیتی ہیں۔ درست وگ مجھے سٹیج پر بہتر کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔‘

لیکن اپنی مرضی کی شناخت اختیار کرنا اتنا آسان نہیں ہوا کرتا تھا۔ ذیشان بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے کام کا آغاز کیا تو وگ انڈیا میں بہت مشکل سے ملتی تھی۔ زیادہ تر باہر سے منگوانی پڑتی تھیں یا پھر کپڑے اور دھاگے کی مدد سے خود بنانی پڑتی تھی۔‘

لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ ذیشان کے مطابق ’ٹرینڈ بدل رہا ہے۔ اب صرف فلموں میں یا سٹیج پر نہیں، بلکہ بہت سی خواتین بھی الگ نظر آنے کے لیے وگ پہنتی ہیں۔ یہ سٹائل بن گیا ہے۔‘

انڈیا میں وگ بنانے کے لیے بالوں کی مانگ رہی ہے۔ دنیا بھر میں انڈیا انسانی بال مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو عالمی رسد کا 85 فیصد فراہم کرتا ہے۔

چنائی کے کولاچی وینکاٹیش 20 سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے شروعات بال اکھٹا کرنے والے کی حیثیت سے کی تھی۔

وہ گھروں سے بال مانگتے یا پھر کوڑے سے بال الگ کر لیتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والدین بھی یہی کام کرتے تھے۔ حجام کی دکان، یا پھر گھروں سے جو بال حاصل کیے جاتے ہیں انھیں نان ریمی بال کہا جاتا ہے۔

دوسری قسم ہوتی ہے ریمی بالوں کی جو براہ راست سر سے انتہائی احتیاط سے اسی مقصد کے لیے اتارے جاتے ہیں کہ ان سے وگ تیار ہو گی۔ تاہم دونوں قسم کے بال بکتے ہیں۔

کولاچی کہتے ہیں کہ ’لوگ ان کو پھینک دیتے ہیں لیکن یہ سونا ہے۔‘

مقامی سطح پر بال اکھٹا کرنے والے انھیں کولاچی جیسے تاجروں کو بیچتے ہیں اور انھیں فی کلو کے حساب سے ایک ڈالر تک معاوضہ ملتا ہے۔

یہ معاوضہ بالوں کی لمبائی اور معیار کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ چھوٹے یا خراب حالت میں بال کا معاوضہ کم جبکہ لمبے بالوں کا معاوضہ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک ایسے شخص کے لیے جو اکیلے ہی بال اکھٹا کرتا اور بیچتا ہے، اس کام میں زیادہ پیسہ نہیں۔

کولاچی کے مطابق ’محنت سے کام کرنے والا ایک دن میں ایک سے پانچ کلو بال اکھٹا کر لے گا، اور چھ ڈالر تک کما لے گا۔ یہ تو کچھ زیادہ نہیں، خصوصا دیہی علاقوں میں جہاں کم سے کم اجرت بھی اس سے زیادہ ہے۔‘

’ہمارا کام عالمی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کی انڈسٹری کا حصہ ہے لیکن کمائی اتنی نہیں کیوں کہ قیمت پر بیوپاریوں کا کنٹرول ہے۔‘ انڈیا سے اکھٹا ہونے والے بال کولاچی جیسے تاجر چین بھجوا دیتے ہیں جہاں پر وگ تیار ہوتی ہیں۔

ببجیمن چیریان پلیکس کونسل نامی ادارے کے ساتھ کام کرتے ہیں جو انڈیا میں اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے حکومت سے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چین میں وگ بنانے کی انڈسٹری پانچ سے چھ ارب ڈالر کی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چین میں سینکڑوں فیکٹریاں ہیں جبکہ انڈیا بھی اس کام میں بہت پیچھے ہے۔‘ ان کے مطابق حکومت کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔

’اس کے لیے آٹومیٹڈ نظام درکار ہوتا ہے، جدید طریقے اور پروڈکشن تاکہ انڈیا بھی اس شعبے میں آگے بڑھ سکے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو بال برآمد کرنے کے بجائے براہ راست تیار شدہ وگ فروخت کرنی چاہیے۔ ’تاہم اس کے لیے سرمایہ کاری، تحقیق اور تربیت ضرروی ہے۔‘

ندھی تیواری نے 2009 میں دلی میں ایسے ہی ایک کاروبار کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد بڑے پیمانے پر معیاری وگ تیار کرنا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بال گرنے کی وجہ سے اب اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔‘ اور بدلتے ہوئے رویوں نے بھی کمپنی کی مدد کی ہے۔

’اب اس پر کھلے عام بات ہوتی ہے، یہ ایسا معاملہ نہیں رہا جس پر شرم محسوس کی جاتی ہو۔‘ دوسری جانب وگ کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور پرکشش بنانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

ندھی تیواری کا کہنا ہے کہ ’تھری ڈی پرنٹڈ وگ اور ڈیجیٹل کلر میچنگ آلات کی بدولت اب وگ بنانا بہت بہتر ہو گیا ہے۔ ہلکی، آرام دہ جن میں کسی کو مشکل نہ ہو۔‘

اس مارکیٹ میں ریمی بال کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت ملک کے جنوب میں واقع مندروں سے آتی ہے جہاں عقیدے کے تحت بال منڈوائے جاتے ہیں۔

’راج ہیئر انٹرنیشنل‘ مندروں سے بال مہیا کرنے والوں میں ایک بڑا نام بن چکا ہے۔ چنائی میں اس کمپنی کی فیکٹری میں ملازمین رنگ، لمبائی اور خصوصیات دیکھ کر بال الگ الگ کرتے ہیں۔

کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو جارگ چیریون کا کہنا ہے کہ ’ریمی بال ایک سمت میں ہوتے ہیں اور ریشمی سے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی مانگ اور قیمت ذیادہ ہوتی ہے۔‘

کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم بال ضائع ہوں۔ اس کام کے لیے انھوں نے ایک میشن بنا رکھی ہے جو کم سے کم عملے کے ساتھ تیز تر طریقے سے یہ کام سرانجام دیتی ہے۔ جارج کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانا ایک مسلسل کام ہے۔

اور کاروبار چمک رہا ہے۔ جارج کے مطابق ’انڈیا کے انسانی بال معیار کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہیں اور ان کی طلب آسمان کو چھو رہی ہے۔‘

ذیشان علی بھی چاہتے ہیں کہ مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ انڈین وگ نظر آئے۔ ان کا مشورہ ہے کہ ’وگ ایسی ہونی چاہیے کہ جسے دیکھتے ہی انسان عش عش کر اٹھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More