Getty Imagesشائقین کی آمد سے ٹورازم اکانومی کو جو فروغ ملے گا، وہ بھی پاکستان میں معاشی سرگرمی کے لیے امید کا سبب ہو گی
نومبر2021 میں جب چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے قوم کو چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پا لینے کی نوید دی تو بیشتر شائقین نہیں جانتے تھے کہ اس کامیابی کے اصل منصوبہ ساز وہ دو اذہان تھے جو اپریل 2020 میں اس کی داغ بیل ڈال رہے تھے اور نومبر 2020 میں آئی سی سی کو بولیاں بھی جمع کروا چکے تھے۔
تب چیئرمین احسان مانی اور ڈائریکٹر وسیم خان کی ساجھے داری پاکستان کرکٹ کے لیے خاصی سود مند ثابت ہو رہی تھی کہ ایک جانب وسیم خان اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر غیر ایشیائی ٹیموں کی میزبانی کھوج رہے تھے تو دوسری جانب احسان مانی ہوم کرکٹ کی مکمل بحالی کی بنیاد پر پاکستان میں آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کا مقدمہ جوڑ رہے تھے۔
اگرچہ 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد بھی دو آئی سی سی ایونٹس پاکستان کے حصے میں آئے جہاں اسے چیمپیئنز ٹرافی 2008 کی میزبانی اور ورلڈ کپ 2011 کی میزبانی میں انڈیا اور سری لنکا کا شریک کیا گیا مگر بعد ازاں عین وقت پر یہ دونوں ایونٹس پاکستان کی جھولی سے اٹھا کر آپس میں بانٹ لے گئے تھے۔
چیمپیئنز ٹرافی کا ’کرٹن ریزر‘: لاہور کے شاہی قلعے میں خصوصی تقریب کے دوران کیا کیا ہوا؟چیمپیئنز ٹرافی 2017: جب آٹھویں نمبر کی ٹیم پاکستان نے انڈیا کو ڈرامائی شکست دی’دی گریٹسٹ رائیولری‘: انڈیا اور پاکستان کے کرکٹرز پر سیاست، توقعات اور شائقین کے دباؤ کی کہانیچیمپیئنز ٹرافی 2025: ٹکٹوں کی تلاش، شیڈول، سٹیڈیمز کی تیاری سمیت وہ سوال جن کے جواب آپ جاننا چاہتے ہیں!
2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد تو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اس قدر دشوار تھی کہ نجم سیٹھی جیسی سفارتی صلاحیتوں کے حامل چیئرمین بھی سالہا سال کی تگ و دو کے بعد جب زمبابوے کو دورۂ پاکستان کے لیے آمادہ کر پائے تو انھیں مہمان کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے دینا پڑے تھے۔
چیمپیئنز ٹرافی 2017میں کامیابی اور پہلی بار پی ایس فائنل کے لاہور میں انعقاد کی بنیاد پر جب نجم سیٹھی ورلڈ الیون کو تین میچز کے لیے پاکستان لے آئے تو اگرچہ عمران خان نے اسے ’ریلو کٹوں‘ کی ٹیم قرار دیا تھا مگر دراصل وہی ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مستقل بحالی کا پہلا قطرہ بنا تھا۔
پھر بطور چیئرمین احسان مانی کو اپنے پیشروؤں پر یہ سبقت بھی تھی کہ وہ ماضی میں آئی سی سی کے صدر رہ چکے تھے اور اس ایونٹ آرگنائزنگ کمیٹی کا بھی حصہ تھے جس نے 1996 کے ورلڈ کپ میں پہلی بار کرکٹ براڈکاسٹ رائٹس کی ریکارڈ شکن ڈیل سے گلوبل کرکٹ اکانومی میں انقلاب برپا کیا تھا۔
Getty Imagesہوسٹنگ فیس، شراکتی فیس اور ٹرافی جیتنے کی صورت میں پی سی بی دس ملین ڈالر کے لگ بھگ کما سکتا ہے جو اس رقم کا چوتھائی بھی نہیں جو یہ سٹیڈیمز کی تعمیرِ نو پر خرچ کر چکا ہے
اپنے سالہا سال کے تجربے کی روشنی میں، احسان مانی آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کے لیے ایسا پروپوزل تیار کرنا چاہ رہے تھے جو ممکنہ بد سے بدتر نتائج کی صورت بھی پاکستان کو کچھ فائدہ تو پہنچا ہی جائے۔
جبھی انھوں نے اکیلی چیمپیئنز ٹرافی ہی نہیں بلکہ ٹی 20 ورلڈ کپ، انڈر 19 ورلڈ کپ اور ویمن کرکٹ ورلڈ کپ سمیت چھ آئی سی سی ایونٹس کے لیے بولیاں جمع کروائیں جن میں سے ایک ایمریٹس کرکٹ بورڈ کے ساتھ ورلڈ کپ 2031 کی مشترکہ میزبانی بھی تھی۔
خود انھیں بھی ادراک تھا کہ وہ ان چھ میں سے بمشکل ایک ہی بولی جیت پائیں گے کہ اس رائٹس سائیکل کے 28 ایونٹس کے لیے آئی سی سی کو 100 سے زیادہ بولیاں جمع کروائی گئی تھیں مگر آئی سی سی کی داخلی سیاست سے واقف احسان مانی نے ایمریٹس کرکٹ بورڈ کے ساتھ مشترکہ میزبانی کی بولی سے پاکستان کی لابنگ کا گوشہ بھی قدرے بہتر کیا۔
سو، جب بطور چیئرمین رمیز راجہ نے چیمپیئنز ٹرافی کے حقوق جیتنے کا مژدہ سنایا تو اس ’اچانک‘ خوشخبری کے پیچھے دراصل سالہا سال کی وہ کاوشیں تھیں جہاں نجم سیٹھی بھی اسی قدر تحسین کے مستحق تھے جتنی اس کے اصل مہم جوؤں احسان مانی اور وسیم خان کا حق تھی۔
جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست کی پیچیدگیوں اور عالمی کرکٹ پر انڈین ’راج‘ کے سبب یہ ایونٹ بھی اسی انجام کو گامزن تھا جو اس کے 2008 ایڈیشن کا ہوا تھا، جسے بالآخر ایک برس کے التوا کے بعد جنوبی افریقہ میں منعقد کیا گیا تھا۔
لیکن یہاں محسن نقوی کی باثمر لابنگ اور دوہرے انتظامی اختیارات نے پاکستان کو وہ برتری دلائی کہ بالآخر یہ نہ صرف ایونٹ کے بیشتر حصے پر اپنی میزبانی بچانے میں کامیاب رہا بلکہ ہوسٹنگ فیس کی مد میں بھی آئی سی سی سے پورے چھ ملین ڈالر پائے گا۔
گلوبل ایونٹس کی میزبانی کسی بھی معیشت کو اچانک اٹھان دے سکتی ہے۔ 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ نے انڈین اکانومی میں 1.39 ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا۔ 48 میچوں پر مشتمل اس ایونٹ میں فی میچ کمائی اوسطاً 250 کروڑ (انڈین) روپے سے زیادہ تھی۔ یہ رقم ایک سپر ہٹ بالی ووڈ فلم کے نیٹ پرافٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
گو چار درجن میچز پر محیط ون ڈے ورلڈ کپ کی معیشت کا درجن بھر میچز کے ایونٹ سے کوئی تقابل ممکن نہیں اور پاکستانی مارکیٹ کا حجم بھی انڈیا سے کہیں کم ہے مگر کڑے آئی ایم ایف پروگرام میں جکڑی پاکستانی معیشت بھی اس ایونٹ سے کچھ قوت پانے کی خواہاں ہے۔
اگرچہ ہوسٹنگ فیس، شراکتی فیس اور ٹرافی جیتنے کی صورت میں پی سی بی دس ملین ڈالر کے لگ بھگ کما سکتا ہے جو اس رقم کا چوتھائی بھی نہیں جو یہ حال ہی میں سٹیڈیمز کی تعمیرِ نو پر خرچ کر چکا ہے مگر ٹکٹوں کی فروخت سے یہ اپنے غموں کا کچھ مداوا کر پائے گا اور مہمان شائقین کی آمد سے ٹورازم اکانومی کو جو فروغ ملے گا، وہ بھی پاکستان میں معاشی سرگرمی کے لیے امید کا ایک سبب ہو گی۔
اس ایونٹ کے انعقاد سے حاصل شدہ آمدن تو شاید پاکستان کی معاشی درماندگی کے مداوے کو محض ایک قطرہ ہی ثابت ہو مگر ایسے گلوبل ایونٹ کو کامیابی سے پروان چڑھا کر پاکستان پھر سے اپنا وہ امید بھرا چہرہ دنیا کو دکھا سکتا ہے جو پچھلی بار تیس برس پہلے نظر آیا تھا۔
چیمپیئنز ٹرافی 2025: ٹکٹوں کی تلاش، شیڈول، سٹیڈیمز کی تیاری سمیت وہ سوال جن کے جواب آپ جاننا چاہتے ہیں!چیمپیئنز ٹرافی کا آفیشل ترانہ جاری: ’اس میں ان اکھڑ مزاجوں کے لیے سبق ہے جو کرکٹ کھیلنے پاکستان نہیں آ رہے‘’دی گریٹسٹ رائیولری‘: انڈیا اور پاکستان کے کرکٹرز پر سیاست، توقعات اور شائقین کے دباؤ کی کہانیچیمپیئنز ٹرافی 2017: جب آٹھویں نمبر کی ٹیم پاکستان نے انڈیا کو ڈرامائی شکست دیچیمپیئنز ٹرافی کا ’کرٹن ریزر‘: لاہور کے شاہی قلعے میں خصوصی تقریب کے دوران کیا کیا ہوا؟