بھارت کے ایک گاؤں میں ایک منفرد اور دل کو چھو جانے والی تحریک شروع ہوئی ہے، جہاں کے ہر رہائشی نے مرنے کے بعد اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ تلنگانہ کے ہنوماکونڈا ضلع کے گاؤں موچرلا کے لوگ انسانی اعضاء عطیہ کرنے کے حوالے سے ایک نیا روایتی قدم اٹھا چکے ہیں، حالانکہ بھارت میں یہ عمل ابھی تک کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس گاؤں میں تقریباً 500 لوگ آباد ہیں اور اس اقدام نے حقیقتاً تبدیلی کی ایک لہر پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ کچھ سالوں میں 70 افراد اپنی آنکھیں عطیہ کر چکے ہیں۔ منڈلا رویندر، جو پیشے کے لحاظ سے محکمہ آبپاشی کے انجینئر ہیں اور گاؤں کے رہائشی بھی ہیں، نے اس حوالے سے ایک اہم بیان دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے دہائیوں قبل اپنی ماں کی آنکھیں عطیہ کیں اور اس عمل کو اپنے والد کے اعضا کے عطیہ کے ذریعے بھی جاری رکھا۔
منڈلا رویندر کا کہنا ہے کہ "مرنے کے بعد اعضا ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔" انہوں نے نہ صرف خود اپنے اعضا عطیہ کرنے کا عہد کیا بلکہ دوسروں کو بھی اس عمل کے بارے میں آگاہ کر کے انہیں اس کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے اس عمل نے نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو متاثر کیا بلکہ قریب ترین دیہاتوں کے افراد کو بھی ترغیب دی، جس کے نتیجے میں 20 مزید افراد نے آنکھیں عطیہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
اس گاؤں کی اس منفرد لگن کو حال ہی میں ایک شاندار ایوارڈ کے ذریعے تسلیم کیا گیا۔ تلنگانہ کے گورنر کی جانب سے 'آنکھوں کے عطیہ میں بہترین' ایوارڈ گاؤں کے لوگوں کے اس اچھے عمل کو سراہا گیا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو نہ صرف انسانیت کی جیت کی مثال پیش کرتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی یہ سکھاتی ہے کہ ہماری زندگیوں کا اثر مرنے کے بعد بھی دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔