پاکستان کی حکومت کچھ عرصے سے دعویٰ کر رہی ہے کہ ملک میں کاروبار کے حالات اب موافق ہونا شروع ہو گئے ہیں۔حال ہی میں عام انتخابات کا ایک سال پورا ہونے پر حکومت نے مقامی میڈیا پر اپنے کاموں کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی ہے، جس سے یہ تأثر دیا گیا کہ ملک کے معاشی حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔تو کیا واقعی ایسا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس بہتری کو جانچنا کتنا آسان ہے؟ اس طرح کے کئی سوال گردش کر رہے ہیں۔حال ہی میں سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ایی سی پی) نے اپنے اعدادوشمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق صرف جنوری کے مہینے میں ملک بھر میں تقریباً ساڑھے تین ہزار نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ ایس ای سی پی کا دعویٰ ہے کہ کسی ایک مہینے میں اتنی کمپنیوں کا رجسٹرڈ ہونا ایک ’تاریخی‘ ریکارڈ ہے جو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا۔ایس ای سی پی کے ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ریکارڈ اس لیے ہے کہ گزشتہ برس کی ماہانہ اوسط کی نسبت جنوری 2025 کے مہینے میں 39 فیصد نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’ان میں سب سے زیادہ کاروباری کمپنیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ای کامرس سے وابستہ ہیں جن کی تعداد ساڑھے 600 سے زائد ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ اب کاروبار کرنے کے لیے لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے۔‘حالیہ مہینوں میں نئی رجسٹرڈ کمپنیوں کے اعدادوشمار میں جس ایک نئی کیٹیگری کا اضافہ ہوا ہے، اس میں کارپوریٹ فارمنگ ہے۔جنوری کے مہینے میں اس شعبے میں 73 نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔گزشتہ دو برس میں حکومتی سطح پر کارپوریٹ فارمنگ کی تشہیر کی گئی (فوٹو: روئٹرز)خیال رہے کہ گزشتہ دو برس میں حکومتی سطح پر کارپوریٹ فارمنگ کی تشہیر کی گئی۔ جبکہ پاکستان کی بری فوج بھی بڑے پیمانے پر کارپوریٹ فارمنگ کر رہی ہے جس کے لیے سب سے زیادہ زمین پنجاب سے لیز پر لی گئی ہے۔محمد عادل ایک پڑھے لکھے کسان ہیں اور انہوں نے بھی کارپوریٹ فارمنگ کے لیے حال ہی میں کمپنی رجسٹرڈ کروائی ہے۔وہ کہتے ہیں ’حکومت اب پروڈکشن پر زور دے رہی ہے اور کارپوریٹ فارمنگ کو سپورٹ کیا جا رہا ہے، اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بھی اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائی ہے۔ کمپنی رجسٹرڈ کروانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے آپ کے پاس ایک مضبوط پلیٹ فارم آ جاتا ہے۔‘لاہور کی رہائشی خاتون عنبرین علی نے بھی حال ہی میں اپنی ایک کمپنی رجسٹرڈ کروائی ہے۔ وہ بچوں کے کپڑوں کا ایک آن لائن سٹور چلاتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’میں نے 10 لاکھ روپے سے یہ کاروبار شروع کیا تھا اور اب میں اس سطح پر پہنچ گئی ہوں جہاں مجھے ایک دفتر اور عملے کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں نے اب اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروا لی ہے اور کاروبار کو پھیلانے کا منصوبہ بنا رہی ہوں۔‘ایک برس مکمل ہونے پر حکومت نے مقامی میڈیا پر اپنے کاموں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ہے (فائل فوٹو: بی ایس ایس کامرس)عنبرین علی نے بتایا کہ ’دو برس پہلے تک تو حالات اتنے خراب تھے کہ کبھی کاروبار کو پھیلانے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ اب صورت حال کچھ بدل رہی ہے۔‘شہریوں کے کاروبار کی جانب متوجہ ہونے اور کمپنیوں کی رجسٹریشن سے متعلق نئے رویے پر بات کرتے ہوئے سینیئر کارپوریٹ وکیل ملک عثمان اعوان کہتے ہیں کہ ’دو چیزیں پچھلے چند ماہ میں ہوئی ہیں جس سے لوگوں کو اعتماد بڑھا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایک تو سٹاک مارکیٹ کی صورت حال ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ سٹاکس کے اس غیرمعمولی پھیلاؤ کے اصل محرکات کیا ہیں، لیکن اس سے مارکیٹ میں بہتری کا تأثر ضرور قائم ہے اور دوسری چیز شرح سود کا نیچے آنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ بینکوں سے پیسہ نکال رہے ہیں اور عام لوگوں میں بھی کاروبار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔‘