سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری آرڈرز واپس لے لئے ، آئینی بینچ نے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کا حکم بھی دیا۔
جسٹس منصورنے 13 جنوری کو آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے متعلق نوٹسز جاری کیے تھے ، دوسری جانب وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس سے ڈسچارج ، معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا
آئینی بینچ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں جسٹس منصور نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، وہ یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے، غیر آئینی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کے توہین عدالت والے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے، جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلوں پر نظرِ ثانی اپیل کا فیصلہ ہوا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم پر سماعت ،سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کا فیصلہ
جسٹس محمد مظہر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے، کیا اس فیصلے کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر صرف چند افراد کو نہیں بلکہ سب کو ہے، جو کام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آ گئی تھی، یہ بھی عدالت ہی ہے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، سپریم کورٹ اور عدالتوں نے رہنا ہے، ہمیں ہی اپنے ادارے کا خیال رکھنا ہے، کوئی پریشان نہ ہو، ادارے کو کچھ نہیں ہو گا۔