’اُف، تمہارے اصول، تمہارے آدرش! تمہارے سارے اصولوں کو گوندھ کر ایک وقت کی روٹی نہیں بنائی جا سکتی ہے روی! کیا دیا ہے تمہارے ان آدرشوں نے۔۔۔ ؟ چار پانچ سو روپے کی پولیس کی نوکری، ایک کرائے کا کوارٹر، ایک ڈیوٹی کی جیپ، دو جوڑی خاکی وردی۔ آج میرے پاس بلڈنگ ہے، پراپرٹی ہے، بینک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟
روی کا تاریخی جواب آتا ہے: ’میرے پاس ماں ہے۔‘
یہ مکالمہ فلم ’دیوار‘ کا ہے جسے اگرچہ بہترین اداکار کا ایوارڈ نہ مل سکا لیکن اسے بہترین فلم سمیت سات فلم فیئر ایوارڈ ملے۔
اگر فلم ’زنجیر‘ نے امیتابھ بچن کی ’اینگری ینگ مین‘ شبیہہ بنائی اور ان کا نیا تعارف کرایا تو فلم ’دیوار‘ نے ان کے اس کردار پر مہر صداقت ثبت کیا۔
فلم ’دیوار‘ وقت کے ساتھ میل کا پتھر ثابت ہوئی لیکن اس کے بننے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ سلیم جاوید کی لکھی اس فلم سے لوگوں نے جذباتی لگاؤ محسوس کیا۔
اس فلم کے مکالمے اتنے ہی مشہور ہیں جتنے کہ فلم ’شعلے‘ کے۔ آج اس فلم کو آئے ہوئے پورے 50 برس ہو گئے ہیں لیکن اس کے مکالمے اتنے ہی تر و تازہ ہیں جتنے کہ پہلے دن تھے۔
فلم میں امیتابھ بچن (وجے) کے چھوٹے بھائی روی کا کردار نبھانے والے ششی کپور کا ڈائیلاگ ’میرے پاس ماں ہے‘ آج بھی ناظرین کے دل کو چھو لینے والا ہے۔ یا پھر مندر میں جب امیتابھ بچن بھگوان کے سامنے جا کر کہتے ہیں کہ ’آج تو تم بہت خوش ہوگے‘ بھی لوگوں کے دلوں کو اسی طرح چھوتا ہے۔
لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس فلم کے لیے ظاہری انتخاب امیتابھ بچن نہیں بلکہ اس زمانے کے سپر سٹار راجیش کھنہ تھے جبکہ ششی کپور کے رول کے لیے نوین نشچل اورماں کے کردار کے لیے ویجنتی مالا کو پسند کیا گیا تھا۔ لیکن اس زمانے میں جاوید اختر کی راجیش کھنہ سے ان بن ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے اپنی ساری طاقت امیتابھ کے پیچھے جھونک دی تھی اور جب ویجنتی مالا نے سنا کہ راجیش کھنہ اس فلم میں نہیں ہیں تو انہوں نے بھی ماں کے کردار کو منع کر دیا۔
یش چوپڑا اس فلم کو بنانے میں تذبذب کا شکار تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امیتابھ بچن اور جاوید اختر نے ایک میڈیا ہاؤس کے ساتھ مشترکہ گفتگو میں بتایا کہ جب سلیم جاوید نے فلم دیوار کی کہانی لکھی تو انہوں نے سب سے پہلے اسے امیتابھ بچن کو سنایا اور پھر امیتابھ بچن نے فلمساز اور ہدایتکار یش چوپڑا کو اس کے بارے میں بتایا تو انہوں نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اسے قبول کیا۔
لیکن جب وجے کا کردار ادا کرنے کے لیے سلیم جاوید نے امیتابھ بچن کا ذکر کیا تو یش چوپڑا نے کہا کہ کیا امیتابھ تم لوگوں کو اس لیے کمیشن دیتا ہے۔ لیکن جاوید اختر کا کہنا تھا کہ فلم زنجیر کی کامیابی کی بعد جب بھی وہ فلم لکھنے بیٹھتے تو ان کے ذہن میں امیتابھ بچن ہوتے تھے۔
چنانچہ یہ دیکھا گيا کہ امیتابھ بچن کی کامیاب فلموں کی فہرست میں سلیم جاوید کی سکرپٹ اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔
انہوں نے دی ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت دیوار کا پروجیکٹ سامنے آیا اس وقت وہ رمیش سپی کی فلم ’شعلے‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ چنانچہ دیوار کی زیادہ تر شوٹنگ رات میں ہوئی۔
اس وقت امیتابھ بچن دن میں شعلے کی اور رات میں دیوار کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ امیتابھ بچن نے فلم کی کامیابی کا سہرا سکرپٹ کو دیا تو جاوید اختر نے اس کا سہرا امیتابھ بچن کی اداکاری کو دیا کیونکہ ان کے خیال میں اسے کوئی دوسرا اس طرح ادا نہیں کر سکتا تھا جس طرح امیتابھ بچن نے کیا۔
امیتابھ بچن نے فلم کی کامیابی کا سہرا سکرپٹ کو دیا تو جاوید اختر نے اس کا سہرا امیتابھ بچن کی اداکاری کو دیا۔ (فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
انٹرنیشنل جرنل آف ریسرچ کلچر سوسائٹی میں اس فلم پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا گیا تھا جس میں اس کی عصری معنویت سے بحث کی گئی ہے۔
’دیوار‘ درحقیقت دو بھائیوں کے درمیان حقیقی رکاوٹ کی نمائندگی ہے، یعنی ان کے خیالات و نظریات اور واقعات کی پیش رفت میں ہر جگہ اختلافات ہیں۔ بچپن میں باپ پر لگے الزامات اور اس سے پیدا ہونے والے صدمے کے نتیجے بڑا بھائی وجے جرم کی دنیا میں قدم رکھتا ہے جبکہ دوسرا یعنی روی پولیس افسر بنتا ہے۔ ان کرداروں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی سے ان کے آس پاس کے لوگ متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر ان کی ماں۔
جس طرح سے وجے کے کردار کو پسند کیا گیا اس کے بارے میں امیتابھ بچن نے کہا کہ فلم میں عام طور پر گرے کردار کی تعریف کی جاتی ہے۔ کردار پر جتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں وہ اس کے سامنے سر نہیں جھکاتا بلکہ اس کے خلاف لڑتا ہے اور اس لیے لوگ اس کی لڑائی کو جائز مانتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس میں اور بھی عوامل تھے جیسے ان کے ہاتھ پر ’میرا باپ چور ہے‘ کا ٹیٹو بنا دیا جانا اس کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
وہ بظاہر ساری دنیا سے ٹکراتا ہے لیکن ماں کے معاملے میں بہت نازک ثابت ہوتا ہے اور اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب اس کی ماں بیمار ہوتی ہے۔
امیتابھ بچن کا کہنا تھا کہ اب لوگ اس فلم کے اندر بہت کچھ دیکھتے ہیں۔ دو بھائیوں کا جو یادگار مکالمہ ہے وہ سین ایک پل کے نیچے شوٹ کیا گیا تھا، جس سے لوگوں نے محسوس کیا کہ دونوں بھائیوں کے درمیان ایک پل یا ایک دیوار بن گئی ہے۔
’دیوار‘ در حقیقت دو بھائیوں کے درمیان حقیقی رکاوٹ کی نمائندگی ہے۔ (فوٹو: آئی ایم ڈی بی)
انہوں نے بتایا کہ فلم میں سیکولرازم کو لطیف انداز میں پیش کیا گیا تھا ان کا بلہ نمبر 786 ہوتا ہے جس کے بارے میں قلی رحیم چاچا (یونس پرویز) اتفاق سے وجے کو بتاتے ہیں کہ یہ نمبر ان کے مذہب (اسلام) میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جب اسے گولی لگتی ہے اور بلے کی وجہ سے وہ بچ جاتا ہے تو وہ بلہ کو چومتا ہے، اور جب آخری بار پولیس کے ساتھ بھاگنے اور پیچھا کرنے والے منظر کے دوران وہ بلہ گر جاتا ہے تو ناظرین کو لگتا ہے کہ اب کچھ غلط ہونے والا ہے۔ یہ بہت علامتی اور طاقتور لمحات تھے لیکن یہ فلم کو مذہبی نہیں بناتے۔
اس کے متعلق جاوید اختر کہتے ہیں کہ فلم میں امیتابھ ناستک یعنی خدا کا منکر نہیں ہے بلکہ وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ ان سے ناراض ہیں اور یہ باریک فرق صرف وہی پیدا کر سکتے تھے۔
بہر حال اس فلم کی کامیابی سے قطع نظر اس فلم پر محبوب خان کی معروف فلم ’مدر انڈیا‘ کی نقل کا الزام بھی لگا ہے۔ اسی طرح اس پر دلیپ کمار کی فلم ’گنگا جمنا‘ کی نقل کا بھی بعض حلقے سے الزام لگا ہے جس میں دو بھائی ہوتے ہیں اور دونوں حالات کی وجہ سے دو مختلف راہیں چننے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن جس طرح جاوید اختر نے اسے عصری مانوی حسیت کے ساتھ پیش کیا ہے اس نے اس میں نیا پن پیدا کیا ہے۔ بہر حال جاوید اختر نے ان دنوں فلموں سے متاثر ہونے کی بات قبول بھی کی ہے۔
انہی مماثلت کی وجہ سے شاید پہلے یش چوپڑا اس فلم کو بنانے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن 24 جنوری 1975 کو جب ایک بار یہ فلم منظر عام پر آئی تو اس نے امیتابھ بچن کو سٹار کے درجے سے نکال کر سپر سٹار کے درجے پر پہنچا دیا۔