اسرائیل کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور ان کی قوم پرست مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے 2 دیگر وزرا نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
سعودی نشریاتی ادارے عرب نیوز کے مطابق ’اوٹزما یہودت‘ پارٹی اب حکمران اتحاد کا حصہ نہیں ہے، لیکن اس نے کہا ہے کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کرے گی۔
ایک بیان میں اوٹزما یہودت نے جنگ بندی کے معاہدے کو ’حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے‘ کا نام دیا اور غزہ میں ’سیکڑوں قاتلوں کی رہائی‘ اور ’جنگ میں (اسرائیلی فوج کی) کامیابیوں کو ترک کرنے‘ کی مذمت کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اپنے وزرا کے استعفے کے باوجود اسرائیلی پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت سے یہودی سخت گیر پارٹی کے نکلنے سے نہ تو اتحاد میں کمی آئے گی، اور نہ ہی جنگ بندی متاثر ہوگی، لیکن اتحادی وزرا کے جانے سے اتحاد غیر مستحکم ہو گیا ہے۔
قبل ازیں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے جمعرات کی شام کو کہا تھا کہ اگر کابینہ غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی تو ان کی پارٹی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حکمران اتحاد سے دستبردار ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ اور 12 دن بعد جنگ بندی کے معاہدے پر تقریباً 3 گھنٹے کی تاخیر کے بعد عمل درآمد شروع ہو گیا تھا، چند گھنٹے کی تاخیر کی وجہ سے اسرائیلی حملوں میں مزید 19 فلسطینی شہید اور 36 زخمی ہوئے تھے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا اسرائیل نے معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے دن رہا کیے جانے والے 3 قیدیوں کے نام ملنے کی تصدیق کی ہے۔
اس معاہدے میں لڑائی کو روکنے اور پہلے دن 3 اسرائیلی قیدیوں اور تقریباً 95 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا تھا کہ غزہ میں قید 3 قیدیوں کی رہائی مقامی وقت کے مطابق دن 2 بجے کے بعد کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے آفس سے کہا گیا کہ 4 دیگر زندہ خواتین یرغمالیوں کو 7 دنوں میں رہا کر دیا جائے گا۔
ثالثی میں شریک رہنے والے ملک قطر کی جانب سے بھی غزہ میں جنگ بندی کی تصدیق کی گئی تھی۔