15 ماہ قبل حماس کا اسرائیل پر زمین، فضا اور آبی راستے سے برق رفتار حملہ کیسے ممکن ہوا تھا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 16, 2025

AFP

قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی اور امریکی صدر جو بائیڈن نے قطر میں پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

15 ماہ کی جنگ کے بعد بالآخر ایک ایسے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں صدر جو بائیڈن کے مطابق ’مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا، حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی‘ شامل ہو گی۔

خیال رہے کہ اس جنگ کے دوران اب تک غزہ میں وزارتِ صحت کے مطابق 46 ہزار 640 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سات اکتوبر 2023 کو جب حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جبکہ کُل 251 افراد کو حماس کی جانب سے یرغمال بنایا گیا تھا۔

حماس کی جانب سے کیے گئے سات اکتوبر کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی ردِ عمل نے خطے کی صورتحال کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھا دیا۔

آئیے یہ جانتے ہیں کہ 15 ماہ قبل سات اکتوبر کے دن کیا ہوا تھا؟ بی بی سی نیوز نے اُس وقت عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز کا تجزیہ کیا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ حماس نے غزہ سے اب تک کے سب سے مربوط حملے کی ابتدا کیسے کی؟

راکٹوں سے حملے کے آغاز کا اشارہ

جب یہ حملہ شروع ہوا تو بہت سے اسرائیلی شاید سو رہے ہوں گے۔

سنیچر یہودیوں کے لیے ’سیبیتھ‘ کا دن تھا جس کا مطلب ہے کہ بہت سے خاندان گھروں میں، دوستوں سے ملاقاتوں یا پھر عبادت گاہوں میں وقت بتانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

لیکن اچانک صبح سویرے راکٹوں کی برسات نے ایک ایسے حملے کے آغاز کا عندیہ دیا جو وسعت اور منصوبہ بندی کے حساب سے غیر معمولی تھا۔

برسوں سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو رکاوٹوں کے ذریعے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ تاہم سنیچر کے روز حماس کی جانب سے چند ہی گھنٹوں میں یہ رکاوٹیں عبور کر لی گئیں۔

صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا جب راکٹوں کی برسات شروع ہوئی۔ غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے والی تنظیم حماس، جسے برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، اکثر راکٹوں کے استعمال جیسی حکمت عملی استعمال کرتی رہی تھی۔

حماس کے اِن راکٹوں کے خلاف اسرائیل کا جدید ’آئرن ڈوم‘ نامی دفاعی میزائل نظام عموماً مؤثر ثابت ہوتا ہے لیکن سنیچر کی صبح انتہائی مختصر وقت میں داغے گئے ہزاروں راکٹوں نے اس نظام کو غیر موثر کر دیا تھا۔

راکٹوں کی اتنی بڑی تعداد ثابت کرتی ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی مہینوں سے جاری تھی۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے میں پانچ ہزار راکٹ داغے گئے جبکہ اسرائیل کے مطابق داغے گئے راکٹوں کی تعداد حماس کی جانب سے بتائی گئی تعداد سے نصف تھی۔

غزہ کی پٹی سے 60 کلومیٹر دور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب تک میں الارم بجنا شروع ہوئے اور جلد ہی مغربی بیت المقدس اور دیگر شہروں میں جہاں جہاں میزائل گرے دھواں اٹھنا شروع ہو گیا۔

راکٹوں کی اس برسات کے دوران حماس کے مسلح جنگجو اُن مقامات پر اکھٹے ہوئے جہاں سے انھوں نے غزہ کو الگ کرنے والی رکاوٹیں عبور کرنا تھیں۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے اپنی فوج اور آبادکاروں کو 2005 میں غزہ سے نکال لیا تھا لیکن اب تک غزہ کی فضا، سرحدوں اور ساحلوں پر اسرائیل کا ہی کنٹرول ہے۔

غزہ کی پٹی کے گرد کہیں کنکریٹ سے بنی دیوار ہے تو کہیں کانٹے دار باڑ نصب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی چوکیاں موجود ہیں جبکہ ایسے ہی حملوں کی روک تھام کے لیے کیمرا نیٹ ورک اور سینسر بھی نصب تھے۔

چند ہی گھنٹوں میں اس رکاوٹ کو مختلف مقامات پر پار کر لیا گیا۔

حماس نے رکاوٹ کو کیسے عبور کی؟

حماس کے چند جنگجوؤں نے تو اس رکاوٹ کو مکمل طور پر بائی پاس کیا جس میں فضائی گلائیڈرز بھی شامل تھے (غیر مصدقہ فوٹیج میں کم از کم سات ایسے فضائی گلائیڈرز اسرائیل میں دیکھے گئے)۔ چند جنگجو کشتیوں کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہوئے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے حماس کی دو کشتیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکا گیا۔

لیکن اس حملے کی خصوصیت کراسنگ پوائنٹس پر متعدد اور منظم حملے تھے۔

پانچ بج کر 50 منٹ پر حماس کے مسلح ونگ کے ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر ابتدائی تصاویر شائع ہوئیں جو کریم شالوم کے مقام پر لی گئی تھیں۔ یہ اسرائیل میں غزہ سے داخل ہونے کے لیے سب سے جنوبی مقام ہے۔

ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ باڑ کے پار مسلح جنگجو ایک فوجی چوکی پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر زمین پر دو اسرائیلی فوجیوں کی خونیں لاشیں نظر آتی ہیں۔

ایک اور تصویر میں پانچ موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح جنگجو خاردار رکاوٹ کے ایک حصے سے گزرتے ہیں جسے کاٹا جا چکا ہے۔

ایک اور حصے پر ایک بلڈوزر کی مدد سے خاردار رکاوٹ کو گرایا جا رہا تھا۔ یہاں درجنوں مسلح افراد موجود تھے جن میں سے چند تقسیم کرنے والی رکاوٹ کو عبور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

کریم شالوم سے تقریبا 43 کلومیٹر دور، غزہ کے شمال میں، حماس کی جانب سے ایریز کے مقام پر خاردار رکاوٹ کو پار کرنے کی ایک اور کوشش جاری تھی۔

یہاں سے جاری ہونے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ کنکریٹ کے بیریئر پر دھماکہ ہوتا ہے جو حملے کے آغاز کا اشارہ ہے اور پھر ایک مسلح جنگجو اپنے ساتھیوں کی جانب ہاتھ لہرا کر انھیں آگے بڑھنے کا اشارہ دیتا ہے۔

بلٹ پروف جیکٹ پہنے، رائفلیں تھامے آٹھ جنگجو اسرائیلی فوجی چوکی کی جانب دوڑتے ہیں اور فائرنگ کرتے ہیں۔

اس ویڈیو میں آگے چل کر زمین پر اسرائیلی فوجیوں کی لاشیں دکھائی دیتی ہیں جبکہ جنگجو، جو واضح طور پر تربیت یافتہ اور منظم ہیں، کمپاونڈ میں تمام کمروں کا جائزہ لیتے رہے۔

غزہ کی پٹی پر سات سرکاری کراسنگ پوائنٹس ہیں جن میں سے چھ اسرائیل اور ایک مصر کے کنٹرول میں تھا۔

تاہم چند گھنٹوں کے اندر حماس نے پوری سرحد سے اسرائیلی علاقے میں گھسنے کا راستہ ڈھونڈ لیا۔

اسرائیل کے اندر دور تک حملہ آوروں کی پہنچ

حماس کے جنگجو غزہ سے نکل کر ہر سمت میں پھیل گئے۔ اسرائیلی حکام سے حاصل شدہ معلومات سے علم ہوتا ہے کہ وہ 27 مقامات پر حملہ آور ہوئے اور بظاہر انھیں حکم تھا کہ وہ دیکھتے ہی گولی چلا دیں۔

حماس کے جنگجو سب سے دور جس مقام تک پہنچے وہ غزہ کے مشرق میں 22 کلومیٹر دور اوفاکم کا قصبہ ہے۔

سدیروت میں جنگجو ایک پک اپ ٹرک میں قصبے سے گزرے جو غزہ کے مشرق میں تین کلومیٹر دور ہے۔

تقریبا ایک درجن مسلح جنگجو اشکیلون کی خالی سڑکوں پر دیکھے گئے جو ایریز کے شمال میں ہے۔جنوبی اسرائیل کے متعدد مقامات پر ایسے ہی مناظر دیکھے گئے اور اسرائیلی حکام نے عام شہریوں کو گھروں میں چھپ جانے کی تاکید کی۔

BBCسبز مقامات پر رکاوٹ کو عبور کیا گیا جبکہ لال رنگ کے مقامات وہ ہیں جہاں حماس کے جنگجو پائے گئے

ریئم کے قریب ایک صحرا میں ایک موسیقی فیسٹیول ہو رہا تھا جس میں بڑی تعداد میں نوجوان شرکت کر رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح جنگجو ہتھیاروں سے بھری ایک وین میں گھوم رہے تھے اور ابتدائی فائرنگ کے بعد تین گھنٹے تک مزید اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے کے لیے تلاش کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیےحماس: ’سرنگوں کی جنگ‘ کی ماہر فلسطینی تنظیم عسکری قوت کیسے بنی اور یہ اسلحہ کہاں سے حاصل کرتی ہے؟حماس کے حملے نے اسرائیل کو چونکا دیا، لیکن آگے کیا ہوسکتا ہے؟فوجی اور عام شہری یرغمال بنے

ہم اب یہ بات جانتے ہیں کہ موسیقی فیسٹیول اور دیگر مقامات سے لوگوں کو یرغمال بنایا گیا اور انھیں غزہ لے جایا گیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ تقریباً 100 کے قریب فوجی اہلکار اور عام شہری اغوا کیے گئے۔

بیرئی قصبے سے سامنے آنے والی فوٹیج، جس کی بی بی سی نے تصدیق کروائی ہے، میں ظاہر ہوتا ہے کہ جنگجو چار عام شہریوں کو زبردستی ساتھ لے گئے۔

اس کے علاوہ متعدد ویڈیوز آن لائن دیکھی گئی ہیں جن میں چند اسرائیلی غزہ کی پرہجوم گلیوں میں گھمائے جا رہے تھے۔

اسرائیلی آبادیوں کے ساتھ ساتھ حماس نے دو فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا۔ ان میں سے زکم اور دوسری ریئم میں موجود فوجی اڈے تھے۔

ریئم سے سامنے آنے والی فوٹیج میں کئی جلی ہوئی گاڑیاں اس اڈے کے قریب سڑک پر نظر آتی ہیں۔

حماس کے سوشل میڈیا چینلز پر کئی بار ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ بی بی سی نے ان تصاویر کی تصدیق نہیں کی۔

راکٹ حملے کی ابتدا کے چند گھنٹوں میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہو چکے تھے اور یہ سب ایک ایسے انداز میں ہوا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

چند گھنٹوں میں اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں فوجی مدد پہنچنا شروع ہو گئی لیکن ایک وقت تک حماس کا غزہ سے باہر کافی علاقے پر کنٹرول تھا۔

اس حیران کن حملے کی برق رفتاری اور اس سے ہونے والے نقصان نے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا، ایک ایسا سوال ہے جو کئی برسوں تک پوچھا جاتا رہے گا۔

حماس: ’سرنگوں کی جنگ‘ کی ماہر فلسطینی تنظیم عسکری قوت کیسے بنی اور یہ اسلحہ کہاں سے حاصل کرتی ہے؟حماس کے حملے نے اسرائیل کو چونکا دیا، لیکن آگے کیا ہوسکتا ہے؟فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کیا ہے اور کیا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟حماس کا چونکا دینے والا انتہائی پیچیدہ آپریشن، اسرائیل کی جوابی کارروائی اور امن کی کوششیں جو ناکام ہوتی رہیں حملوں کے بعد محصور اسرائیلی شہری: ’وہ میرے گھر میں گُھسنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ان کی آوازیں سن سکتی ہوں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More