پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی، ’لگتا ہے انڈیا ہجرت کر گئیں‘

اردو نیوز  |  Jan 08, 2025

یاسین چوہدری کا شمار فطرت سے پیار کرنے والے افراد میں ہوتا ہے۔ ان کا مشغلہ فارغ وقت میں جنگلوں، پہاڑوں، بیابانوں اور وادیوں کی سیر کرنا اور نئے نئے مقامات اور اشیا دریافت کرنا ہے۔

یہی شوق پورا کرتے کرتے کچھ سال پہلے انہوں نے جنگلوں اور بیابانوں سے قدرتی شہد اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا۔ انہوں نے یہ شہد تلاش کرنے کے لیے نوجوانوں کی باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دیں جو جنگلات، وادیوں اور چٹانوں میں گھومتے اور جہاں شہد کا چھتہ نظر آتا اس کو اتار کر یاسین چوہدری کو اچھے داموں فروخت کر دیتے۔

یاسین چوہدری ان سارے چھتوں کا شہد اکٹھا کر کے اس کو خوبصورت پیکنگ میں منتقل کرتے اور دوستوں کو تحفتاً بھیج دیتے یا پھر قدرتی شہد کے شوقین افراد کو فروخت کر دیتے۔ 

لیکن چند برسوں سے یاسین چوہدری کو یہ شہد اکٹھا کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان جنگلات سے زیادہ تر خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب شہد کے چھتے بہت کم ہو گئے ہیں اور ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔

 یاسین چوہدری بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی تعداد کم ہو جانا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہاں مناسب ماحول نہ ہونے کی وجہ سے یا تو شہد کی مکھی ختم ہو رہی ہے اور یا پھر پڑوسی ملک انڈیا ہجرت کر رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قدرتی شہد اب بہت کم مقدار میں ملتا ہے کیونکہ شہد کی مکھی جو جنگلوں اور پہاڑوں میں درختوں اور پودوں سے شہد کشید کر کے لاتی تھی اب پاکستان میں نایاب ہو گئی ہے۔ یہ یا تو انڈیا منتقل ہو گئی ہے یا پھر ختم ہو گئی ہے۔‘

 پاکستان کے مشرقی شہر نارووال، جو کہ انڈیا کی سرحد پر واقع ہے، کے رہائشی محمد عارف بھی شہد کا کام کرتے ہیں۔

وہ یاسین چوہدری کی طرح جنگلوں اور پہاڑوں کے شہد پر انحصار نہیں کرتے بلکہ یہ کاروبار بڑے اور سائنسی پیمانے پر کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ ڈبوں میں مکھیاں پال کر انہیں گھنے پھولوں اور پودوں کی جگہ پر رکھتے ہیں جہاں سے انہیں زیادہ شہد حاصل ہو۔

محمد عارف کو کچھ عرصہ پہلے شک ہوا کہ ان کی شہد کی مکھیاں شہد لانے کے لیے نارووال کے پودوں کے بجائے سرحد پار جاتی ہیں اور جو مکھیاں وہاں جاتی ہیں وہ زیادہ مقدار میں شہد بناتی ہیں۔

نوید قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان کے میدانی علاقوں کی مکھی انڈیا منتقل ہو سکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے یہ شک دور کرنے کے لیے اپنی مکھیاں سرحد کے بالکل قریب منتقل کر دیں جس کے بعد ان پر حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ 

 ان کی مکھیاں سرحد پار کر کے انڈین علاقے میں جاتیں اور واپس آ کر شہد بناتیں۔ محمد عارف نے نوٹ کیا کہ ان کی مکھیاں جو سرحد کے قریب رکھے گئے ڈبوں میں تھیں اور انڈین پودوں سے شہد بناتی تھیں اس شہد کی مقدار اس سے زیادہ ہوتی تھی جو پاکستان کے اندر دیگر علاقوں میں رکھے گئے ڈبوں کی مکھیاں بناتی تھی۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے شہد کی صنعت میں کام کرنے والے اور لوگوں کو شہد بنانے اور مکھیاں پالنے کی تربیت دینے والے نوید قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان کے میدانی علاقوں کی مکھی انڈیا منتقل ہو سکتی ہے۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر گھنا جنگل ایک ایسا بفرزون ہو سکتا ہے جہاں ایسے درختوں اور پودوں کی بہتات ہو جو شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہو جس کی وجہ سے پاکستان کی میدانی علاقے کی مکھیاں وہاں ہجرت کر گئی ہیں۔

  فصلوں پر سپرے، تعمیرات اور جنگلات میں کمی شہد کی مکھیوں کے خاتمے کی وجہ

1 پاکستانی مکھیوں کے انڈیا چلے جانے کی دوسری وجہ وہاں فصلوں اور باغات پر کیا جانے والا کیڑے مار سپرے ان کے لئے کم نقصان دہ ہونا ہے کیونکہ پاکستان میں جو سپرے کیا جاتا ہے وہ ہر طرح کے حشرات الارض کے لئے نقصان دہ ہے اور اس سے شہد کی یہ مکھیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

2 پودوں پرکیا جانے والا کیڑے مار سپرے ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جو تمام کیڑے مکوڑوں کو متاثر کر رہا ہے اور شہد کی مکھیاں اس کا بڑا شکار بن رہی ہیں۔ کچھ سالوں سے بالخصوص سورج مکھی، سرسوں اور مالٹوں کے باغات پرسپرے کی مقدار بڑھنے سےمکھیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔

 نوید قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اندھا دھند تعمیرات اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کے بڑی تعداد میں بننے کی وجہ سے بھی مکھیاں نایاب ہو گئی ہیں۔ 

ڈاکٹر آصف عزیز کے مطابق پاکستان کو شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لیے زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی ضرورت ہے (فوٹو: اے ایف پی) راولپنڈی کی بارانی زرعی یونیورسٹی کے شعبہ شہد بانی کے سربراہ ڈاکٹر آصف عزیز پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی کمی کی تین بڑی وجوہات بتاتے ہیں۔ 

ان کے مطابق پودوں پر زہریلے سپرے کے علاوہ جنگلوں اور درختوں کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی بھی مکھیوں کے خاتمے کی وجہ بن رہی ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے مکھیوں کو مناسب مقدار میں  خوراک نہیں ملتی۔ 

’پہلےجہاں ایک جگہ سے قدرتی شہد کے تین چار چھتے مل جاتے تھے اب وہاں سے ایک آدھ چھتہ ہی ملتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں قدرتی شہد کی مکھی ختم ہو رہی ہے۔‘

نوید قریشی کہتے ہیں کہ متعلقہ پودے نہ ہونے سے اب ڈبوں والی مکھی کا شہد بھی کم ہو رہا ہے اور جہاں سے آج سے 15 سے 20 سال پہلے 80 کلو تک شہد ملتا تھا وہاں سے اب 10 سے 12 کلو تک شہد ملتا ہے۔

شہد اور مکھیاں بچانے کے لئے مقامی پودے لگانے کی ضرورت

ڈاکٹر آصف عزیز تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کو شہد کی مکھیوں کی افزائش بہتر بنانے کے لیے جہاں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی ضرورت ہے وہاں فصلوں کے لیے ایسا سپرے استعمال کرنا چاہیے جو مخصوص کیڑوں کو ہی ختم کرے اور دیگر مکھیوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ 

 تاہم نوید قریشی کے خیال میں پودے بھی ایسے لگانے چاہییں جو شہد اور مکھی کی پیداورا میں مدد گار ہوں کیونکہ صرف 16 فیصد پودے ہی شہد بنانے کے لئے مفید ہیں۔ 

ماہرین کے مطابق چھوٹی مکھی وہ ہوتی ہے جو عام طور پر میدانی علاقوں کی جھاڑیوں میں رہتی ہے (فوٹو: پکسابے)’ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اب مقامی پودے نہیں لگائے جاتے بلکہ سڑکوں کے کناروں اور ہاوسنگ سوسائیٹیز میں بھی ایسے درآمد شدہ پودے لگائے جاتے ہیں جو کہ شہد اور اس کی مکھی کے لئے معاون نہیں۔‘

 چھوٹی اور بڑی مکھی میں فرق

عام طور پر پاکستان میں دو اقسام کا شہد پایا جاتا ہے جن میں سے ایک چھوٹی مکھی کا ہوتا ہے اور ایک بڑی کا۔

ماہرین کے مطابق چھوٹی مکھی وہ ہوتی ہے جو عام طور پر میدانی علاقوں کی جھاڑیوں میں رہتی ہے اور وہاں کے پھولوں سے رس کشید کر کے شہد بناتی ہے جبکہ بڑی مکھی بڑے درختوں اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتی ہے۔ 

نظام پور کے سنار چھوٹی مکھی کے بڑے تاجر 

نوید قریشی نے بتایا کہ چھوٹی مکھی نایاب ہونے سے اس کے شہد کی قیمت بھی بہت بڑھ گئی ہے اور اب ایک کلو شہد 10 سے 15 ہزار روپے تک ملتا ہے۔

’جب چھوٹی مکھی کا شہد آسانی سے مل جاتا تھا تو اس وقت اٹک اور چکوال کے میدانی علاقوں کے لوگ اس کے چھتے اٹک کے علاقے نظام پور میں سناروں کی دکانوں پر فروخت کر دیتے تھے جو ان چھتوں کو آگے شہد کے خریداروں کو بیچ دیتے تھے۔ لیکن اب ان سناروں کے پاس بھی بہت کم مقدار میں شہد ملتا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More