Getty Images
جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کے وزیر اعظم اور لبرل پارٹی کے رہنما کے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟
ٹروڈو کا کہنا ہے کہ گورنر جنرل نے ان کی پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی درخواست کو قبول کر لیا ہے یعنی مباحثے اور ووٹ سمیت تمام کارروائیاں معطل کر دی جائیں گی تاہم پارلیمنٹ تحلیل نہیں کی جائے گی۔
یہ توسیع 24 مارچ تک کے لیے لاگو ہو گی۔ اس دوران لبرل پارٹی اپنا نیا لیڈر چنے گی۔۔۔ عام طور پر اس عمل میں تقریباً چار ماہ لگتے ہیں۔
پیر کولبرل پارٹی کے صدر کا کہنا تھا کہ نئے رہنما کے انتخاب کے لیے ’ملک گیر جمہوری عمل‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
کینیڈا میں وفاقی رہنماؤں کا انتخاب پارٹی کنونشنوں کے دوران کیا جاتا ہے جن میں لیڈر چننے کے لیے پارٹی کے اراکین ووٹ ڈالتے ہیں۔ لیکن 24 مارچ کو پارلیمنٹ کے دوبارہ کام شروع کرنے کے بعد بھی شاید نو منتخب لبرل رہنما زیادہ دیر تک اقتدار پر فائز نہ رہ سکیں۔
کنزرویٹو پارٹی کو رائے عامہ کے جائزوں میں دوہرے ہندسوں سے برتری حاصل ہے اور وہ کئی مہینوں سے ہاؤس آف کامنز میں عدم اعتماد کی تحریکیں لا کر ملک میں انتخابات کروانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
کینیڈا میں یہ انتخابات اصولاً اکتوبر میں ہونے ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی مارچ میں دوبارہ ایسی کوشش (عدم اعتماد کی تحریک لا کر ) کر سکتی ہے۔
اگر کوئی حکومت ایوان میں اعتماد کی تحریک یا ووٹ کھو دیتی ہے تو اس سے استعفیٰ دینے یا پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی توقع کی جاتی ہے جس کے بعد وفاقی انتخابات کروانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
Getty Imagesکرسٹی فری لینڈ، انیتا آنند اور مارک کارنی
آئیے ان چند ناموں پر غور کرتے ہیں جن سے لبرل قیادت کی دوڑ میں شامل ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
سابق نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ
جسٹن ٹروڈو کی جگہ لینے والے سب سے مضبوط دعویداروں میں سے ایک سابق نائب وزیر اعظم اور ٹورنٹو سے رکن پارلیمنٹ کرسٹیا فری لینڈ ہیں۔
اگرچہ وہ طویل عرصے سے کینیڈا کے سیاسی حلقوں میں ایک قابل اعتماد سینئر اہلکار کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہیں لیکن وزیر اعظم آفس کے ساتھ اختلافات دسمبر میں ان کے حالیہ اور اچانک استعفے کا باعث بنے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ عوامی طور پر شئیر کیے گئے ان کے استعفیٰ والے خط میں کینیڈا کے وزیراعظم پر ان کی تنقید نے ہی ٹروڈو پر دباؤ میں اضافہ کیا اور ان کے استعفے کو ناگزیر بنا دیا۔
کرسٹیا فری لینڈ مغربی صوبے البرٹا میں ایک پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ یوکرین سے ہیں اور 56 سالہ کرسٹیا سیاست میں آنے سے قبل ایک صحافی تھیں۔
وہ 2013 میں ہاؤس آف کامنز کا حصہ بنیں اور دو سال بعد جب ٹروڈو اقتدار میں آئے تو کرسٹیا نے ایک ٹریڈ بریف کے ساتھ ان کی کابینہ میں شمولیت اختیار کی۔
Reuters56 سالہ کرسٹیا سیاست میں آنے سے قبل ایک صحافی تھیں
وزیر خارجہ کی حیثیت سے انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے میں کینیڈا کی مدد کی۔
بعد میں انھیں نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نامزد کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔
انھوں نے کووڈ کے دوران کینیڈا کے مالیاتی امور کی نگرانی کی۔
پچھلے مہینے استعفیٰ دیتے ہوئے انھوں نے ٹروڈو پر تنقید کی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کینیڈین اشیا پر ٹیکس لگانے کی دھمکی کے خلاف سخت موقف نہیں اپنا رہے۔
2019 کے گلوب اینڈ میل پروفائل کے ایک مون میں کہا گیا ہے کہ: کچھ لوگ فری لینڈ کو لبرل دنیا کے لیے آخری امید سمجھتے ہیں جبکہ کچھ انھیں حقیقت سے دور خیالی سوچ رکھنے والی مانتے ہیں۔
انھوں نے یوکرین کی مسلسل حمایت کی ہے جسے کچھ لوگوں نے سراہا لیکن ہارورڈ سے پڑھی ہوئی یہ رکن پارلیمنٹ تنقید کا بھی شکار رہیں۔۔۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے بھی حال ہی میں انھیںٹاکسک یا ’زہریلی‘ پکارا۔
سابق بینکر مارک کارنیGetty Imagesہارورڈ سے پڑھے ہوئے کارنی نے کبھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھالا لیکن ان کا اقتصادی تجربہ شاندار ہے۔ وہ کینیڈا اور برطانیہ کے مرکزی بینکوں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
ٹروڈو نے تسلیم کیا کہ وہ کافی عرصے سے مارک کارنی کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے تھے خاص طور پر حال ہی میں وزیر خزانہ کے طور پر۔
جولائی 2024 میں نیٹو کانفرنس کے دوران انھوں نے کہا ’کارنی ایک زبردست اضافہ ہوں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کینیڈا کو سیاست میں اچھے لوگوں کی ضرورت ہے۔‘
59 سالہ کارنی جو حالیہ مہینوں میں ٹروڈو کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں، کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار سمجھا جاتا ہے۔
ہارورڈ سے پڑھے ہوئے کارنی نے کبھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھالا لیکن ان کا اقتصادی تجربہ شاندار ہے۔ وہ کینیڈا اور برطانیہ کے مرکزی بینکوں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
18 سال کی شادی کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور اہلیہ سوفی کا علیحدگی کا اعلانانڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈوکینیڈا میں ایمرجنسی کیوں نافذ کی گئی اور وزیراعظم ٹروڈو کو اب کیا اختیارات حاصل ہوں گے؟کینیڈا سے خفا لیکن امریکہ کو یقین دہانیاں، کیا امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا معاملہ انڈیا کے لیے مصیبت بن سکتا ہے؟
ماحولیاتی مسائل پر بھی ان کی مہارت ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اقدامات کے خصوصی نمائندے کے طور پر انھوں نے حال ہی میں نیٹ زیرو کے ہدف کو ’ہمارے وقت کا سب سے بڑا کاروباری موقع‘ کہا۔
کارنی چند لبرل پالیسیوں کے حامی ہیں جیسا کہ وفاقی کاربن ٹیکس پالیسی جسے ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے لیکن قدامت پسند حلقے اسے عوام پر مالی بوجھ سمجھتے ہیں۔
انھوں نے کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پولیویر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبے نہیں صرف نعرے ہی نعرے ہیں۔
کارنی نے کہا ’لیکن میں وہ شخص ہوں جو کاروبار کا حصہ ہے، کاروباری فیصلے کرتا ہے اور میں اب بھی کر رہا ہوں۔‘
انیتا آنند، وزیر ٹرانسپورٹBloomberg via Getty Imagesآکسفورڈ سے پڑھی ہوئی آنند مالی قوانین اور کمپنیوں کے نظام میں مہارت رکھتی ہیں۔
انیتا آنند کو لبرل پارٹی کے ان رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں آگے بڑھنے کی لگن بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔
57 سالہ وکیل 2019 میںٹورنٹو کے قریب اوک ویل سے منتخب ہو کر سیاست میں آئیں۔
آکسفورڈ سے پڑھی ہوئی آنند مالی قوانین اور کمپنیوں کے نظام میں مہارت رکھتی ہیں۔
انھیں فوراً عوامی خدمات اور پروکیورمنٹ کی وزیر بنایا گیا جہاں انھوں نے کووڈ کے دوران ویکسین اور حفاظتی سامان حاصل کرنے کا کام سنبھالا۔
2021 میں وہ وزیر دفاع بنیں اور یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں امداد فراہم کرنے اور کینیڈین فوج میں جنسی ہراسانی کے مسائل حل کرنے جیسے امور کی نگرانی کی۔
بعد میں انھیں ٹریژری بورڈ کی نگرانی کا عہدہ دیا گیا جسے کچھ لوگوں نے ان کی تنزلی سمجھا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ اس دن ہوا جب انھوں نے پارٹی کی قیادت کرنے کی خواہش ظاہر کی اور انھیں اس کی سزا ملی۔
دسمبر میں کابینہ میں تبدیلی کے دوران انھیں ٹرانسپورٹ اور داخلی تجارت کی وزیر بنا دیا گیا۔
فرانسوآ فلپ شامپین، وزیر برائے انوویشن، سائنس اور صنعتToronto Star via Getty Imagesکئی باتیں ان کے حق میں جاتی ہیں۔ شامپین کا تعلق کیوبیک سے ہے جو کینیڈا کے وفاقی انتخابات میں اہم صوبہ ہے۔
سابق کاروباری شخصیت اور بین الاقوامی تجارت کے ماہر فرانسوآ فلپ شامپین بھی لبرل وزیر ہیں جنھیں پارٹی کی قیادت کے لیے ایک بہترین امیدوار سمجھا جاتا ہے۔
لیکن آنند کے مقابلے میں ان کی ترقی کی رفتار قدرے سست رہی ہے۔
54 سالہ شامپین 2015 میں پارلیمنٹ میں آئے اور پھر بین الاقوامی تجارت، خارجہ امور اور حال ہی میں انوویشن، سائنس اور صنعت کے وزیر بنے۔
کئی باتیں ان کے حق میں جاتی ہیں۔ شامپین کا تعلق کیوبیک سے ہے جو کینیڈا کے وفاقی انتخابات میں اہم صوبہ ہے۔
انھیں کچھ لوگ ’کینیڈا کا اینرجائزر بنی‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے انوویشن یا جدت والے کام کے دوران دنیا بھر میں کینیڈا کی مصنوعات کو فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کی کاروباری مہارت کی وجہ سے سیاسی تجزیہ کار انھیں ایک اچھا امیدوار سمجھتے ہیں۔
ملینیی جولی، وزیر خارجہ Reutersجولی نے حکومت کے کئی اہم خارجہ پالیسی مسائل میں حصہ لیا جیسا کہ کینیڈا میں انڈین ایجنٹوں کے ہاتھوں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے شروع ہونے والا بحران وغیرہ
ٹروڈو کی طرح جولی بھی مونٹریال کے علاقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
45 سالہ جولی غیر ملکی رہنماؤں کے لیے ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں اور 2021 سے کینیڈا کی عالمی سطح پر نمائندگی کر رہی ہیں۔
وزیر خارجہ کے طور پر کینیڈا کی حمایت دکھانے کے لیے انھوں نے یوکرین کا کئی بار دورہ کیا۔ اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران انھوں نے اردن کا سفر کیا تاکہ کینیڈا کے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد کر سکیں۔
جولی نے حکومت کے کئی اہم خارجہ پالیسی مسائل میں حصہ لیا جیسا کہ کینیڈا میں مبینہ انڈین ایجنٹوں کے ہاتھوں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے شروع ہونے والا بحران وغیرہ۔
آکسفورڈ سے پڑھی ہوئی وکیل جولی ایک مشہور سیاستدان ہیں اور پہلے مونٹریال کے میئر کے عہدے کے لیے بھی امیدوار رہ چکی ہیں۔
ٹروڈو نے انھیں ذاتی طور پر سیاست میں وفاقی عہدے کے لیے درخواست دینے کے لیے کہا تھا۔
جولی نے بتایا تھا کہ ’وہ مجھے اکثر فون کرتے اور کہتے ’ملینیی تمہیں انتخاب لڑنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم انتخاب لڑو۔‘
سینئر مشیروں کا کہنا ہے کہ جولی چھ یا سات سو لوگوں سے بھرے کمرے میں بھی بہت اچھا کام کرتی ہیں اور ان کے قریبی دوستوں کے مطابق ان کی خواہش ہے کہ وہ لبرل پارٹی کی قیادت کے لیے انتخاب لڑیں۔
ڈومینک لیبلانک، خزانے اور بین الحکومتی امور کے وزیرReuters57 سالہ لیبلانک ٹروڈو کے بہت قریبی اور قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ ان کی دوستی بہت پرانی ہے اور لیبلانک نے بچپن میں ٹروڈو اور ان کے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال بھی کی
57 سالہ لیبلانک ٹروڈو کے بہت قریبی اور قابل اعتماد ساتھی ہیں۔
ان کی دوستی بہت پرانی ہے اور لیبلانک نے بچپن میں ٹروڈو اور ان کے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال بھی کی۔
وہ مشکل وقت میں اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں جیسا کہ فری لینڈ کے استعفیٰ کے بعد صرف چند گھنٹوں میں وزیر خزانہ بن کر وزارت کا کام سنبھال لینا۔
لیبلانک نے نومبر میں ٹروڈو کے ساتھ مارا لاگو جا کر ٹرمپ سے ملاقات بھی کی۔
لیبلانک 2000 سے پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور نیو برنسوک کے ایک حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ٹروڈو کی طرح لیبلانک بھی ایک سیاسی خاندان سے ہیں۔ ان کے والد نے پیئر ٹروڈو کی حکومت میں وزیر کے طور پر کام کیا اور بعد میں کینیڈا کے گورنر جنرل بنے۔
لیبلانک نے 2008 میں پارٹی کی قیادت کے لیے انتخاب لڑا تھا لیکن ہار گئے۔ بعد میں جس وقت ٹروڈو پارٹی لیڈر بنے تو اس وقت وہ اس دوڑ کا حصہ نہیں تھے۔
وہ کینسر کے علاج کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں اور انھیں ایک ایسا سیاست دان مانا جاتا ہے جو دوستانہ اور اچھی سیاسی گفتگو کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
کرسٹی کلارک، سابق صوبائی وزیر اعظم
برٹش کولمبیا کی سابق وزیرِاعظم نے لبرل پارٹی کی قیادت کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
اکتوبر میں ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ اگر ٹروڈو مستعفی ہو جائیں تو وہ لبرل پارٹی اور ملک کے مستقبل پر بات چیت کا حصہ بننا چاہیں گی۔
59 سالہ 2011 سے 2017 تک برٹش کولمبیا کی وزیرِاعظم رہیں جہاں انھوں نے ماحولیات اور توانائی کی صنعت میں توازن قائم کیا۔
انھوں نے پچھلے کچھ سالوں میں کئی انٹرویوز میں کہا ہے کہ ٹروڈو وفاقی لبرلز کے لیے ایک بوجھ بن گئے ہیں۔
ریڈیو کینیڈا کے مطابق کرسٹی کلارک فرانسیسی زبان سیکھ رہی ہیں کیونکہ کینیڈا میں وفاقی سیاستدانوں کے لیے فرانسیسی زبان میں مہارت ضروری ہے۔
انڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈوخالصتان تحریک: جب ایئر انڈیا کا طیارہ 329 مسافروں سمیت فضا میں تباہ کر دیا گیاکینیڈا سے خفا لیکن امریکہ کو یقین دہانیاں، کیا امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا معاملہ انڈیا کے لیے مصیبت بن سکتا ہے؟خالصتان تحریک کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟18 سال کی شادی کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور اہلیہ سوفی کا علیحدگی کا اعلانہردیپ سنگھ نجر: ’دہشت گرد‘ قرار دیے گئے خالصتان حامی رہنما کون تھے اور انڈیا کو کن مقدمات میں مطلوب تھے؟