Getty Images
جنوبی کوریا میں پولیس اپنے ایک سو سے زائد جوانوں کے ساتھ حکومت کی جانب سے معزول صدر یون سوک یول کے وارنٹ گرفتاری لے کر اُن کی رہائش گاہ پہنچی تاہم اتنی تیاری کے باوجود وہ صدر کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ حکومتی اہلکاروں اور پولیس کو معزول صدر کی رہائش گاہ کے باہر چھ گھنٹے انتظار بھی کرنا پڑا۔
مقامی میڈیا کے مطابق یون کی سکیورٹی پر معمور اُن کی سکیورٹی ٹیم کے اہلکاروں اور پولیس کے درمیان چھ گھنٹے تک تصادم کی کیفیت رہی۔ یون کے سکیورٹی اہلکاروں اور اُن کے حامیوں نے حکومتی انتظامیہ اور ریاستی پولیس کا راستہ روکنے کے لیے انسانی دیوار بنائی اور گاڑیوں کا استعمال کیا۔
جنوبی کوریا کی سیاست کو گذشتہ ایک ماہ سے غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ یون کی جانب سے جنوبی کوریا میں لگایا جانے والا مارشل لا گو کے اتنا طویل تو نہیں تھا مگر اس کے بعد سے اُن کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد مجرمانہ تفتیش ہوئی، پوچھ تاچھ کے لیے پیش ہونے سے انکار کیا گیا اور اس ہفتے کے اوائل میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔
دائیں بازو کے رہنما معزول صدر کی حمایت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمعے کی صبح ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ان کے گھر کے باہر جمع ہوئے۔
لیکن یون مُلک میں مارشل لا کے اعلان کے بعد خاصے بدنام ہو چُکے ہیں۔ جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کی جانب سے اُن کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوا اور انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا اور اب انھیں آئینی عدالت کی جانب سے فیصلے کا انتظار ہے کہ جس میں عین مُمکن ہے کہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
تو پھر پولیس کے لیے انھیں گرفتار کرنا اتنا مشکل کیوں ثابت ہوا ہے؟
’مسلح فوجی اور ایک نہتی لڑکی‘: جنوبی کوریا میں مارشل لا کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی ’آہن‘’میرے ہم وطنو‘: منگل کی رات جنوبی کوریا میں صرف چند گھنٹوں کے لیے مارشل لا کیوں لگا؟جنوبی کوریا کی خوشی پاکستانیوں کو کیوں چڑھی ہوئی ہے؟عمران خان کی گرفتاری کی کوشش: پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس میں تصادم، دن بھر زمان پارک کے اطراف کیا ہوتا رہا؟صدر کی حفاظت کرنے والے افراد کون ہیں؟
اگرچہ قانون سازوں کی جانب سے ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد یون سے ان کے صدارتی اختیارات چھین لیے گئے ہیں تاہم اب بھی اُن کی سکیورٹی پر سرکاری اہلکار موجود ہیں۔
اور اس سب کے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا کے معزول صدر کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد پولیس کو انھیں گرفتار کرنے سے روکنے کے لیے اُن کے گھر کے باہر موجود ہے۔
سیئول کی ہانکوک یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر میسن رچی کا کہنا ہے کہ صدارتی سکیورٹی سروس (پی ایس ایس) یون سے وفاداری نبھاتے ہوئے ریاستی قانون اور آئینی کردار میں غلط فہمی کا شکار ہو سکتی ہے۔
Getty Imagesجنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے حامیوں کو ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر سے پولیس اہلکار ہٹا رہے ہیں
چونکہ یون کو معطل کر دیا گیا ہے لہذا پی ایس ایس کو قائم مقام صدر چوئی سانگ موک سے ہدایات لینی چاہئیں۔ پروفیسر رچی کا کہنا ہے کہ 'انھیں یا تو قائم مقام صدر چوئی کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کی ہدایت نہیں کی گئی ہے یا وہ ان کے احکامات سے انکار کر رہے ہیں۔'
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سکیورٹی افسران اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے معزول صدر یون کے ساتھ 'غیر مشروط وفاداری' کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'پی ایس ایس کے سربراہ پارک جونگ جون کو گذشتہ ستمبر میں یون نے اس عہدے پر مقرر کیا تھا۔'
اور پارک کے پیش رو سابق وزیر دفاع کم یونگ ہیون تھے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے معزول صدر یون کو مارشل لا نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ واضح رہے کہ یونگ ہیون فی الحال اس معاملے میں ہونے والی تحقیقات کے سلسلے میں ریاستی تحویل میں ہیں۔
امریکہ میں مقیم وکیل اور کوریا کے ماہر کرسٹوفر جومین لی کہتے ہیں کہ 'ہو سکتا ہے کہ یون نے اس واقعے اور اس بگڑتی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی اس محافظ ٹیم میں اپنے اہم ساتھیوں اور وفاداروں کو جمع کر رکھا ہو۔'
Reutersمعزول صدر کو حراست میں لینے کے لیے پہنچنے والے پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیںکشیدگی میں اضافے کا خطرہ
لی کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا 'سب سے آسان' حل یہ ہے کہ قائم مقام صدر چوئی پی ایس ایس کو کام کرنے سے روک دی یا انھیں غیر فعال کر دیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ قومی اسمبلی کی جانب سے ان کے مواخذے کی بنیاد ہو سکتی ہے۔'
چوئی جو وزیر خزانہ ہیں انھوں نے ملک کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ اُس وقت کیا تھا کہ جب قانون سازوں یا اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے یون کے پہلے جانشین وزیر اعظم ہان ڈک سو کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا گیا۔
یہ سیاسی تعطل جنوبی کوریا کی سیاست میں یون کی حمایت کرنے والوں اور مارشل لا نافذ کرنے کے ان کے فیصلے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان پولرائزیشن (یعنی مختلف نکتہ نظر) کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
BBC
سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی کے ایک سینئر فیلو ڈویون کم کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یون کا 3 دسمبر کو مارشل لا کا اعلان غلط تھا اور انھیں اس فیصلے کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ 'اس میں شامل یا ملوث افراد مواخذے کے عمل، طریقہ کار اور اس کی قانونی بنیاد پر اختلاف رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہو رہا ہے۔'
اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے جمعہ کے روز یون کی صدارتی رہائش گاہ کے اندر اور باہر کشیدگی پیدا ہوتی دیکھائی دی جہاں ان کے حامی کئی دنوں سے کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ریاستی انتظامیہ اور پولیس ایک جانب اور معزول صدر اور اُن کے حامی دوسری جانب دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس سب کے دوران وقفے وقفے سے جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔
ایسوسی ایشن کے پروفیسر میسن نے کہا کہ 'قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید نفری کے ساتھ طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن یہ 'انتہائی خطرناک' ہوگا۔'
Getty Imagesجنوبی کوریا کے معزوال صدر یون سوک یول
پی ایس ایس بھی بھاری ہتھیاروں سے لیس ہے اور ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ایسے میں حکومت کے جانب سے کشیدگی سے بچنے کے لیے ہر مُمکن کوشش کی جائے گی۔
لی سوال کرتے ہیں کہ 'اگر پولیس پی ایس ایس اہلکاروں کی گرفتاری کے لیے اضافی وارنٹ لے کر آئے تو کیا ہو گا؟ تو کیا پی ایس ایس ان وارنٹوں کی بھی خلاف ورزی کرے گا اور وہ اپنی بندوقیں تان لیں گے؟'
پولیس نے اب کہا ہے کہ وہ پی ایس ایس کے ڈائریکٹر اور ان کے نائب سے ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں تفتیش کر رہے ہیں تاکہ مزید الزامات کی روشنی میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جا سکیں۔
یون کے مارشل لا آرڈر کا نتیجہ کرپشن انویسٹی گیشن آفس (سی آئی او) کے لیے بھی ایک چیلنج ہے جو ان کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے۔
سی آئی او کو ابھی قائم ہونے صرف چار سال کا عرصہ ہوا ہے۔ یہ ادارہ سابق صدر پارک گیون ہائی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل کے جواب میں تشکیل دیا گیا تھا جنھیں بعد ازاں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا، انھیں عہدے سے برطرف کرنے کے بعد پھر بدعنوانی کے سکینڈل میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
اگرچہ جنوبی کوریا کے صدور اس سے پہلے بھی جیل جا چکے ہیں لیکن یون وہ پہلے شخص ہیں جنھیں عہدہ چھوڑنے سے قبل حراست میں لیا جائے گا۔
تفتیش کاروں کے پاس موجودہ معزول صدر کی گرفتاری کے وارنٹ کی تاریخ 6 جنوری ہے جس سے پہلے پہلے انھیں گرفتار کیا جانا ضروری ہے تاہم اس تاریخ کے گُزر جانے کے بعد اُن کی گرفتاری کے لیے ایک نئے وارنٹ کی ضرورت ہوگی۔
جنوبی کوریا کی حکومت کی جانب سے 6 جنوری سے قبل ایک مرتبہ پھر معزول صدر کو حراست میں لینے کی کوشش کی جائے گی، تاہم ایسے میں اگر یون کے گھر کے باہر اُن کے حامیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو حالات کے مزید کشیدہ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ایسے میں یون کو حراست میں لینے کے لیے انتظامیہ نئے وارنٹ کی درخواست دے سکتی ہے اور انھیں اس کے حصول کے بعد دوبارہ حراست میں لینے کی ایک بھرپور کوشش کی جائے گی۔
معزول صدر کی گرفتاری اور مُلکی سیاسی صورتحال بدستور غیر واضح ہے۔
’میرے ہم وطنو‘: منگل کی رات جنوبی کوریا میں صرف چند گھنٹوں کے لیے مارشل لا کیوں لگا؟عمران خان کی گرفتاری کی کوشش: پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس میں تصادم، دن بھر زمان پارک کے اطراف کیا ہوتا رہا؟گھڑی میں چھپا کیمرہ اور دو ہزار ڈالر کا ’ڈیزائنر بیگ‘ جس نے جنوبی کوریا میں ہلچل مچا دیجنوبی کوریا کی خوشی پاکستانیوں کو کیوں چڑھی ہوئی ہے؟’مسلح فوجی اور ایک نہتی لڑکی‘: جنوبی کوریا میں مارشل لا کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی ’آہن‘پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات جب ’ملک بچانے‘ کے لیے پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیا