پڑھتے تو ہوں گے، آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Dec 31, 2024

میرا تعلیم اور پروفیشن کا عجیب سا کمبینیشن ہے۔ ڈبل میتھ اور فزکس کے ساتھ گریجوایشن کی، پھر ایل ایل بی اور اس کے بعد سیدھا صحافت کی وادی پرخار میں چھلانگ لگا دی۔ پچھلے 28 ,30 برس ادھر ہی گزر گئے۔ قانون کی تعلیم کے سلسلے میں کچھ عرصہ کراچی قیام کرنا پڑا تھا۔ وہاں سے بڑی خوشگوار یادیں ہیں۔

پاکستان کے مختلف شہر مختلف فلیور رکھتے ہیں، پشاور، کوئٹہ کا اپنا حسن ہے، پنڈی، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور جیسے شہروں کی اپنی انفرادیت جبکہ لاہور کا ایک انوکھا رنگ اور ذائقہ ہے۔ تاہم کراچی ایک بالکل مختلف اور ہمہ گیر قسم کا فلیور رکھنے والا شہر ہے۔ آپ کراچی میں کچھ عرصہ گزارے بغیر اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ کراچی میں بہت سی قومیتوں والے لوگ آباد ہیں۔ نہ صرف پاکستان بھر کے لوگ وہاں مقیم ہیں بلکہ انڈیا کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے مخصوص کلچر اور رسم و رواج کے ساتھ موجود ہیں۔ جیسے امروہہ کی خاص ثقافت اور علمی، ادبی ماحول کا اندازہ وہاں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے ملے بغیر نہیں ہو سکتا۔

کراچی میں کئی قسم کے دلچسپ تجربات ہوئے۔ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ گھومنے پھرنے کا شوق تھا اور وقت بھی مل جاتا۔ جہاں کہیں کچھ مختلف، منفرد نظرآتا، ہم ادھر لپک جاتے۔ وہ زمانہ بھی قدرے بہتر تھا، مسلح تصادم تو چل رہے تھے، تعلیمی ادارے بھی بند رہتے، مگر سٹریٹ کرائم بہت کم تھا اور راتوں کی رونق بھی برقرار تھی۔ ایک بار ناظم آباد کے علاقے میں ایک ساتھی طالب علم کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ سادہ سا گھر تھا، بیٹھک نما کمرہ سلیقے سے آراستہ تھا۔ وہیں پر کھانا کھاتے ہوئے پہلی بار اڑد کی دال سے ٹاکرا ہوا۔ یہ انوکھا نام سن کر حیران ہوا۔ نجانے وہ دال ماش تھی یا اس کی کوئی رشتہ دار، کیونکہ دیکھنے میں تو ویسی لگ رہی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد دوست چائے لے آیا۔ چائے کا کپ پیش کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ دَم والی چائے ہے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شائد ان کے ہاں کوئی دعا، آیت وغیرہ پڑھ کر پھونک ماری جاتی ہے۔ پتہ چلا کہ نہیں یہ برتن کو دم لگا کر بنائی گئی چائے ہے۔ چائے پینے کے دوران ایک بزرگ کمرے میں داخل ہوئے۔ میرے دوست کے تایا تھے۔ سادہ سا کرتہ پاجامہ، چہرے پر ایک خاص قسم کی متانت۔ سلام دعا کے بعد چھوٹتے ہی بولے، میاں آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟

اس اچانک حملے سے اچنبھا تو ہوا، مگر میں کتابی کیڑا تھا، کراچی میں صدر کی پرانی کتابوں کے چکر لگتے رہتے تھے۔ انہی دنوں انگریزی ناول گاڈ فادر پڑھ رہا تھا، جس پر ہالی وڈ میں شاہکار آسکر ایوارڈ یافتہ فلمیں بھی بنی ہیں۔ انہیں اس ناول کا بتایا اور شائد مولانا آزاد کی کسی کتاب کا حوالہ دیا جو تب میرے مطالعے میں تھی۔ وہ سن کر مسکرائے اور پھر شائد آزمانے کے لیے مولانا آزاد کے حوالے سے ایک دو سوال کیے جن کے میں نے اپنے مطالعے اور سمجھ کے مطابق جواب دیے۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے بعد دوست نے بتایا کہ ان کے تایا کتاب پڑھنے کے بڑے شائق ہیں، گھر میں اچھی خاصی لائبریری بنا رکھی ہے اور ان کی مجھے نصیحت ہے کہ کتاب پڑھنے والے لڑکے ہی دوست بناؤ۔ میرے کسی بھی دوست کو دیکھتے ہیں تو فوری پوچھتے ہیں کہ کون سی کتاب پڑھ رہے ہو؟ کوئی جواب نہ دے سکے تو وہ فوری طور پر ان کی گڈ بکس سے خارج ہو جاتا ہے۔ مجھے بھی تلقین کرتے ہیں کہ ایسے نالائقوں سے دور رہوں۔

کراچی ایک بالکل مختلف اور ہمہ گیر قسم کا فلیور رکھنے والا شہر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)اس واقعے کو تین عشرے ہونے کو ہیں۔ کئی زمانے گزر گئے۔ صحافت میں آمد ہوئی اور ابتدا ہی میں ایک ایسے جریدے میں ملازمت ملی جہاں کتابوں کی اچھی خاصی لائبریری تھی اور جہاں پر آئے روز زبان وبیاں کی بحثیں چلتی رہتیں۔ بات بات پر لغت منگوائی جاتی۔ حوالے کے لیے ڈاکٹر سید عبداللہ، مولانا ماہر القادری اور عبدالماجد دریابادی کی کتابیں ڈھونڈی جاتیں۔ تین چار برسوں کے بعد لاہور کے ایک بڑے اخبار کے نیوز روم میں سب ایڈیٹر بن گیا۔ وہاں عجب معاملہ دیکھا۔ کتاب تو کجا، کتاب پڑھنے کی بات بھی نہ ہوتی۔ حیرت ہوتی کہ یہ کیا ماحول ہے۔ پھر ایک روز بات سمجھ آ گئی جب ایک سینیئر جو ایڈیٹر نیوز کے درجے پر فائز تھے، نیوزروم تشریف لائے، باتوں باتوں میں انہوں نے فرمایا کہ میرے حساب سے ہر ’سب ایڈیٹر‘ کو کتاب دشمن ہونا چاہیے۔ میں یہ سن کر بھونچکا رہ گیا۔ یقین نہ آیا۔ انہوں نے یہ بات دو تین بار دہرائی اور پھر یہ تک کہا کہ مجھے کوئی سب ایڈیٹر کتاب پڑھتے نظر آ گیا تو اس کی چھٹی کرا دینے کا حامی ہوں۔

ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے اخبار میں کام کیا۔ وقت آیا کہ خود بھی سینیئر کہلانے لگے، اپنے شعبے کا سربراہ بن گیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ اکثر سب ایڈیٹر اور رپورٹر حضرات کتاب پڑھنے سے گریزاں رہتے۔ کتاب تو خیر انہوں نے کیا پڑھنا تھی، اپنا اخبار تک نہ پڑھتے۔ پوچھنے پر بھاڑ سا منہ کھول کر کہہ دیتے، ہمارے پاس وقت نہیں۔ پوچھنے پر پتہ چلتا کہ یہی لوگ پریس کلب یا مختلف چائے خانوں میں آٹھ دس گھنٹے بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں مگر آدھا گھنٹہ لگا کر اپنا اخبار نہیں پڑھ سکتے۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی کہ اکثر سب ایڈیٹر اور رپورٹر حضرات کتاب پڑھنے سے گریزاں رہتے۔ (فائل فوٹو: پی بی ایس)رفتہ رفتہ یہ احساس ہوا کہ زوال ہمہ گیر ہوتا ہے۔ صرف صحافت اور صحافیوں کی بات نہیں، یہ رویہ ہر جگہ چل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں سطحی اور اوسط سے کم درجے کی سوچ اور رویے نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی جب پوری زمین دلدلی ہو جائے تب صاف ستھرے جزیرے نہیں ملتے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی برس قبل ایک نوجوان نے اصرار کر کے ملنے کا وقت لیا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں اپنے کیریئر کے حوالے سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ صاحب ایم اے ایل ایل بی تھے۔ سی ایس ایس کے خواہش مند تھے، ایک بار امتحان دے بھی چکے تھے۔

باتوں باتوں میں گاندھی جی کا ذکرآ گیا۔ مجھے لگا کہ اس نوجوان کا چہرہ سپاٹ سا ہے، جیسے وہ گاندھی کے نام سے واقفیت نہیں رکھتا ہو۔ میں نے موہن داس کرم چند گاندھی اور پھر مہاتما گاندھی کے الفاظ استعمال کیے، مگر واقفیت کی چمک اس کے چہرے پر نہیں آئی۔ آخر میں نے براہ راست پوچھ لیا کہ آپ گاندھی کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ چند لمحوں تک وہ سوچتا رہا، پھر نفی میں سر ہلا دیا کہ مجھے کچھ زیادہ نہیں معلوم۔ مجھے شدید حیرت ہوئی، اسی عالم میں بے اختیار میرے منہ سے نکلا، آپ کے ذہن میں اس حوالے سے کیا تاثر بن رہا ہے۔ چند لمحے مزید گزر گئے، پھر ایک فاتحانہ مسکراہٹ لبوں پر سجا کر بولا، میرے خیال میں اندرا گاندھی کا کوئی رشتے دار تھا۔ آپ تصور کر سکتے ہوں کہ میرے اوپر کیا گزری ہو گی۔ ظاہر ہے میں اس سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ گاندھی بھگت ہو یا گاندھی کا کوئی بڑا پرجوش مداح ہو، مگر ایک ایسے نوجوان جس نے لا کر رکھا ہو، سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہو، اسے گاندھی جی کے نام ہی کا پتہ نہ ہو، یہ مایوس کن تھا۔

جس شخص کی زندگی میں کتاب اور کتابی دانش کا دخل نہیں، اسے اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ (فوٹو: پکسابے)پھر ایسے سیاہ لمحے اکثر دیکھنے کو ملتے رہے۔ ایک بار ہارون الرشید صاحب نے کالم لکھا جس میں ایک شخصیت کا حوالہ دے کر لکھا تھا کہ کیا وہ گورباچوف ثابت ہوں گے؟ اسی روز ایک عزیز گھر ملنے آئے، ان کے ساتھ ان کا نوجوان بیٹا تھا، جس نے ابھی ابھی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ اس نے غیرارادی طور پر میز پر رکھا اخبار اٹھایا اور باآواز بلند وہ سرخی دہرائی۔ میں توقع کر رہا تھا کہ سوشل سائنسز میں ماسٹر کرنے والا یہ نوجوان ابھی اس حوالے سے اپنی رائے یا تبصرہ بیان کرے گا، مگر اگلے ہی لمحے اس نے کمال معصومیت اور سادگی سے مجھ سے پوچھا، انکل! یہ گورباچوف کون تھے؟

بے اختیار ماتھا پیٹنے کا جی چاہا۔

ہمارے ایک صحافی دوست مختلف یونیورسٹیوں میں نیوز مینجمنٹ پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ہر کلاس میں طلبا سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟ میں نے تبصرہ کیا، جواب یقینی طور پر آپ کو افسردہ کر دیتا ہو گا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہنے لگے، ایسا ہی ہے، مگر میں اپنا سوال ہمیشہ دہراتا ہوں اور آخر کار اس سمیسٹر میں دو چار ایسے طلبا نکل ہی آتے ہیں جنہوں نے میری مسلسل ترغیب پر کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا شروع کر دی۔

ہمارے ایک دانشور دوست جب ملک کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک فیکٹر کتاب سے دوری بھی بتاتے ہیں۔ ان کا ایک دلچسپ تھیسس ہے کہ اصل پریشانی یہ نہیں کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ، سیاستدان، بیوروکریٹ،اعلٰی پروفیشنل وغیرہ کتاب نہیں پڑھتے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ کتاب سے بے بہرہ ہونے کے باوجود بھی زندگی میں ترقی کرتے اتنا اوپر تک کیسے چلے گئے؟ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ کتاب پڑھنے کا سوال ایک دوسرے سے کرتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ جو شخص کتاب نہیں پڑھتا، جس کی زندگی میں کتاب اور کتابی دانش کا دخل نہیں، اسے اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

ہمارے ایک دانشور دوست جب ملک کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک فیکٹر کتاب سے دوری بھی بتاتے ہیں۔ (فوٹو: پکسابے)ایک اور آئیڈیا بھی انہی سے ملا کہ اپنے لیڈروں سے بھی یہ سوال کرنا چاہیے۔ جب وہ اپنے منشور، اپنے ایجنڈے کا ذکر کریں، بلند و بانگ دعوے کریں تو یہ سننے کے بعد ایک سوال یہ ضرور کرنا چاہیے کہ آپ کتاب تو پڑھتے ہوں گے، آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ اس سے انہیں احساس ہوگا اور کتاب پڑھنے کی ترغیب بھی ملے گی۔

ویسے مجھے اپنے میگزین کا ایک انٹرویو یاد آ گیا۔ ہمارے ایک ساتھی نے لاہور کے ایک معروف قانون دان کا انٹرویو کیا، جو کسی زمانے میں صوبائی وزیر قانون بھی رہے۔ انٹرویو کے فارمیٹ کے مطابق آخر میں سوال پوچھا کہ آج کل کون سی کتابیں مطالعے میں ہیں۔ وہ صاحب سن کر خاموش ہو گئے، کہنے لگے کہ میں شام کو اس کا جواب دوں گا۔ پھراس شام تو نہیں، اگلے روز انہوں نے فون کر کے پانچ سات مشہور انگریزی کتابوں کے ناموں کی فہرست لکھوائی کہ یہ میرے زیرِمطالعہ ہیں۔ فون بند ہوا تو ہم لوگ سوچتے رہے کہ ایک معصوم سے سوال نے انہیں کس قدر کشٹ اٹھانے پر مجبور کیا؟

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More