’خواتین کو کام کرتے دیکھنا فحش حرکت‘، افغان طالبان کی پڑوس میں کھلنے والی کھڑکیوں پر پابندی

اردو نیوز  |  Dec 29, 2024

طالبان کے سپریم لیڈر نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں رہائشی عمارتوں میں ایسی کھڑکیوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی ہے جہاں سے ہمسائے میں خواتین کے زیراستعمال علاقہ نظر آتا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ کھڑکیوں کو بلاک کر دیا جائے۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان کی طرف سے سنیچر کو دیر گئے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ نئی عمارتوں میں ایسی کھڑکیاں نہیں ہونی چاہییں جن سے ’صحن، باورچی خانے، پڑوسیوں کے کنویں اور دیگر جگہوں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں عموماً خواتین استعمال کرتی ہیں۔‘

حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیے گئے حکم نامے کے مطابق ’خواتین کو کچن، صحن میں کام کرتے ہوئے یا کنوؤں سے پانی جمع کرتے ہوئے دیکھنا فحش حرکتوں کا باعث بن سکتا ہے۔‘

میونسپل حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کو تعمیراتی مقامات کی نگرانی کرنی ہوگی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پڑوسیوں کے گھروں میں دیکھنا ممکن نہ ہو۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مالکان کو کہا جائے گا کہ وہ ’پڑوسیوں کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے‘ موجودہ کھڑکیوں کی جگہ دیوار تعمیر کریں یا منظر میں رکاوٹ ڈالیں۔

اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے عوامی مقامات پر جانے سے خواتین کو بتدریج روک دیا گیا ہے، جس نے اقوام متحدہ کو حکومت کی جانب سے قائم کردہ ’جنسی نسل پرستی‘ کی مذمت کرنے پر مجبور کیا ہے۔

طالبان حکام نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے پرائمری کے بعد کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے، روزگار پر پابندی لگا دی ہے اور پارکوں اور دیگر عوامی مقامات تک رسائی کو روک دیا ہے۔

طالبان حکومت کے اسلامی قانون کے انتہائی سخت اطلاق کے تحت ایک حالیہ قانون خواتین کو عوامی سطح پر گانے یا شعر سنانے سے بھی منع کرتا ہے۔ یہ انہیں گھر سے باہر اپنی آوازوں اور ’پردہ‘ کرنے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔

کچھ مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشنوں نے بھی خواتین کی آوازیں نشر کرنا بند کر دی ہیں۔

طالبان انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اسلامی قانون افغان مردوں اور عورتوں کے حقوق کی ’ضمانت‘ دیتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More