بیلجیئم کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ ان کا ملک یکم جنوری سے ڈسپوزایبل الیکٹرانک سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کر دے گا۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیر صحت فرینک وینڈن بروک نے کہا ہے کہ ’سستے ای سگریٹ صحت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں کیونکہ یہ نوجوانوں کو سگریٹ نوشی اور نکوٹین کی طرف راغب کرنے کا آسان طریقہ ہیں۔‘
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ڈسپوزایبل ای سگریٹ ایک نئی پراڈکٹ ہے جسے صرف نئے صارفین کو راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘
وزیر صحت نے بتایا کہ ’ای سگریٹ میں اکثر نیکوٹیشن ہوتی ہے۔ نکوٹین آپ کو نکوٹین کا عادی بناتی ہے۔ نکوٹین آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ حقیقت ہے۔‘فرینک وینڈن بروک نے مزید کہا کہ ’چونکہ وہ ڈسپوزایبل ہیں پلاسٹک ، بیٹری اور سرکٹس ماحول پر بوجھ ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ خطرناک کیمیکل بناتے ہیں جو اُس وقت بھی موجود رہتا ہے جب لوگ انہیں پھینک دیتے ہیں۔‘وزیر صحت نے کہا کہ انہوں نے ڈسپوزایبل ای سگریٹ کو اس لیے ٹارگٹ کیا ہے کیونکہ ’دوبارہ قابلِ استعمال سگریٹ لوگوں کو سگریٹ چھوڑنے میں مدد کرنے کا ایک ذریعہ بن سکتے ہیں اگر وہ کوئی دوسرا راستہ تلاش نہیں کرسکتے۔‘رواں سال آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا تھا جس نے میڈیکل سٹورز کے علاوہ ای سگریٹس جنہیں ویپ بھی کہا جاتا ہے، کی فروخت پر پابندی عائد کی۔ اب بیلجیم اس پابندی میں یورپ کی قیادت کر رہا ہے۔وینڈن بروک نے کہا کہ ’ہم یورپ کا پہلا ملک ہیں جو یہ اقدام کر رہا ہے۔ ہم یورپی کمیشن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اب تمباکو کے قانون کو اپ ڈیٹ کرنے، جدید بنانے کے لیے نئے اقدامات کے ساتھ آگے آئے۔‘برسلز واپوتھیک شاپ کے مالک سٹیون پومیرنک نے کہا کہ ’سگریٹ خالی ہونے کے بعد بیٹری اب بھی کام کر رہی ہے یہ وہ چیز ہے جو خوفناک ہے۔ آپ اسے ری چارج کر سکتے ہیں، لیکن آپ کے پاس اسے ری چارج کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے یہان سے آپ اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کا تصور کر سکتے ہیں۔‘پابندی سے عام طور پر صنعت کو مالی نقصان ہوتا ہے لیکن ان کے خیال میں اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔’ہمارے پاس بہت سارے متبادل حل ہیں جو استعمال کرنے میں بھی بہت آسان ہیں۔ اس پوڈ سسٹم کی طرح جو پہلے سے مائع سے بھرے ہوتے ہیں جسے صرف ریچارج ایبل ای سگریٹ میں کلپ کیا جا سکتا ہے۔‘