سال 2024: وزارت اوورسیز بیرون ملک ملازمتوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام

اردو نیوز  |  Dec 28, 2024

وزارت اوورسیز پاکستانیز سال 2024 میں پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک روزگار کے مواقع کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور 10 لاکھ کے ہدف کے برعکس سات لاکھ کے لگ بھگ پاکستانیوں کو قانونی طریقے سے بیرون ملک روزگار ملا۔

یہ نہ صرف ہدف سے کم ہے بلکہ سال 2023 کے مقابلے میں بھی کم و بیش ایک سے ڈیڑھ لاکھ کم ہے۔

بیورو آف ایمیگریشن و اوورسیز ایمپلائیمنٹ کے اعداد وشمارکے مطابق نومبر 2024 میں چھ لاکھ 63 ہزار 186 سے زائد پاکستانیوں نے قانونی طریقے بیرون ممالک حصول روزگار کے لیے ملک کو خیرباد کہا۔

 بیورو کے مطابق2023  میں قانونی طریقے سے بیرون ممالک حصول روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد آٹھ لاکھ 62 ہزار 625 تھی۔ اگر دسمبر میں متوقع طور پر جانے والوں کو بھی شامل کر لیا جائے تب بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ کم ملازمتوں کا امکان ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں معاشی صورت حال قابل رشک نہیں اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بیرون مالک جانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے، اس کے باوجود بیرون ملک ملازمتوں کے حصول کا ہدف حاصل نہ ہونا وزارت اوورسیز کے لیے نہ صرف ایک چیلنج ہے بلکہ اس بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود خلیجی ممالک کے علاوہ وزارت اوورسیز دنیا کے دیگر ممالک میں اپنا شیئر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

سال 2024 میں بیرون ملک قانونی طور پر روزگار حاصل کرنے والے کم و بیش سات لاکھ افراد میں سے 90 فیصد سے زائد نے چھ خلیجی ممالک کا رخ کیا جبکہ باقی دس فیصد نے دیگر 48 ممالک میں روزگار حاصل کیا۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی سعودی عرب سات لاکھ میں سے سوا لاکھ پاکستانیوں کا میزبان بنا اور انھیں ملازمتیں دیں جو بیرون ملک جانے والوں کی کل تعداد کا ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ متحدہ عرب امارات 70 ہزار کے قریب، عمان میں 75 ہزار، قطر میں 40 ہزار، بحرین میں 25 ہزار اور کویت میں دو ہزار کے قریب پاکستانیوں کو روزگار ملا۔

اس کے علاوہ برطانیہ میں 17 ہزار، ملائیشیا میں چھ ہزار کے قریب، عراق ساڑھے چھ ہزار، رومانیہ ڈیڑھ ہزار اور کچھ دیگر ممالک میں ایک ہزار لوگوں کو ملازمتیں ملیں۔

تمام تر کوششوں کے باجود ہدف کا حصول ممکن نہ ہونے اور گذشتہ سال کی نسبت بھی تعداد کم رہنے کی وجہ بیرون مالک تربیت یافتہ ورکرز کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ ہے۔

ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر کی لیبر مارکیٹ میں مہارت یافتہ ورک فورس کی طلب بڑھ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)اس حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر کی لیبر مارکیٹ میں مہارت یافتہ ورک فورس کی طلب بڑھ رہی ہے۔ جتنے لوگ بھی مہارت رکھتے ہیں یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں دنیا کے ممالک میں چار سے چھ ہزار ڈالر ماہانہ ملازمت مل رہی ہے، جبکہ غیر تربیت یافتہ مزدور کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہیں۔‘

انھوں نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ ’اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم مہارت یافتہ لیبر فورس تیار کریں جس کے لیے وزارت اوورسیز، ٹیکنیکل ایجوکیشن، ٹیوٹا اور کچھ دیگر اداروں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے کابینہ کمیٹی بھی بنائی ہے تاکہ کوئی بہتر حل نکالا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم ایف اے، ایف ایس سی اور آئی سی ایس کرنے والے اور نسبتاً کم نمبروں والے وہ طلبا جنھیں یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملتا، انھیں ان کی فیلڈ کے پیشہ وارانہ کورسز کروا کر ایک پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ فورس تیار کریں۔ اس مقصد کے لیے کئی اداروں کے ساتھ ورکنگ جاری ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں پیش رفت بھی ہوگی۔ اس طرح ہم تربیت یافتہ فورس کے مختص ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’عالمی لیبر مارکیٹ میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے پانچ نکاتی جامع منصوبہ بندی کی ہے جس کے تحت دنیا بھر میں موجود لیبر مارکیٹ میں نوکریوں کی تلاش شروع کر رکھی ہے۔ ان نوکریوں کے لیے مطلوبہ اہلیت بھی دیکھ رہے ہیں اور اسی مطلوبہ اہلیت کی روشنی میں مقامی طور پر ورک فورس تیار کریں گے۔‘

اس سلسلے میں پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ مقامی اداروں کی جانب سے بیرون ملک جانے والے ورکرز کی حوصلہ شکنی تعداد میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ اگر ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کے ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو ورکرز کو حراساں کرنے میں ملوث ہیں تو ایمپلائمنٹ پروموٹرز باآسانی ہد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ہزاروں پاکستانی تارکین وطن ہر برس غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی) تاہم وزارت اوورسیز اس دعویٰ سے متفق نظر نہیں آتی بلکہ حکام کا موقف ہے کہ ناقص کارکردگی کے باعث دو ہزار کے قریب اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے لائسنس منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ اب بھی کئی سو پروموٹرز ایسے ہیں جو پورے سال میں ایک بھی فرد کے لیے ملازمت نہیں لا سکے۔

دوسری جانب ہزاروں پاکستانی تارکین وطن ہر برس غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2021 سے 2023 تک ایک لاکھ 54 ہزار 205 غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ سینکڑوں غیر قانونی طور پر یورپ داخل ہونے کی کوشش میں جانوں سے بھی گئے۔

پاکستان کے کسی بھی ادارے کو غیرقانونی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں، تاہم اس حوالے سے مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں جن کی کسی بھی فورم سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More