’سنچورین پارک میں جس معجزے کا پاکستان کو انتظار تھا۔۔۔‘

بی بی سی اردو  |  Dec 27, 2024

Getty Images

سینچورین پارک کے اطراف سے بہتی، سہ پہر کی خنک ہوائیں دھیرے دھیرے اپنی وہ رفتار کھونے لگی تھیں جو لنچ کے سیاق و سباق میں پاکستان کو میچ میں واپس لا رہی تھی۔ کوربن بوش یہ بھانپ گئے مگر شان مسعود خطا کھا گئے۔

پچھلی شام کے ڈھلتے سایوں میں جب محمد عباس کی ایک گیند نے اگلی لینتھ سے اچانک غیر متوقع دھیما باؤنس اور تاخیری سوئنگ پائی تو وہاں ٹرسٹن سٹبز کا قطعی دوش نہ تھا کہ ایسے باؤنس والی پچ پر کسی ایک گیند کا اچانک یوں بیٹھ جانا سبھی کے لیے حیرت کا سبب تھا۔

مگر اس ایک انہونی سے پاکستان یہ سمجھ بیٹھا کہ ساری کی ساری پچ ویسا ہی برتاؤ کرے گی جو اس ایک ’غیر مہذب‘ کھدرے نے کیا تھا۔ اسی سوچ پر پاکستانی تھنک ٹینک نے اپنے وہ عزائم ترتیب دے ڈالے جن سے دوسری صبح باوومہ اور مارکرم کی آزمائش کرنا تھی۔

جبھی دوسری صبح گیند خرم شہزاد اور عامر جمال کی بجائے محمد عباس اور نسیم شاہ کو تھمائی گئی کہ وہ سٹمپس کے اندر رہتے ہوئے صرف اس پچ کی معجزہ کاریوں کا انتظار کریں لیکن نسیم شاہ اپنے اہداف سے خطا کھاتے رہے۔

محمد عباس نے البتہ اپنے کنارے سے عہد نبھایا اور رنز کے بہاؤ پر گرفت کیے رکھی۔ مگر پاکستان کے خیالات کے برعکس، اس پچ میں کوئی ایسے اسرار باقی نہ تھے جو باوومہ اور مارکرم پر منکشف نہ ہو پاتے۔

پہلے ایک گھنٹے میں پاکستانی بولرز بلے کے کناروں کو آزمانے میں تسلسل نہ دکھا پائے اور جس معجزے کا پاکستان کو انتظار تھا، وہ ہو نہ پایا۔

ان ٹامک ٹوئیوں کے جواب میں مارکرم نے جارحیت سے اپنی برتری مستحکم کی۔ باوومہ کے ہمراہ ان کی ٹھوس ساجھے داری تبھی ٹوٹ پائی جب عامر جمال نے پے در پے آف سٹمپ کے باہر دعوت نامے ڈال کر اس قدر اکسایا کہ باوومہ کے صبر کو لبریز ہونا ہی پڑا۔

Getty Imagesپاکستان کے خیالات کے برعکس، اس پچ میں کوئی ایسے اسرار باقی نہ تھے جو باوومہ اور مارکرم پر منکشف نہ ہو پاتے

گو، پچ تو کوئی معجزہ دکھانے سے قاصر رہی مگر، پہلے ہی روز کی طرح، جونہی لنچ کے قریب سینچورین پارک کے اطراف سے چلتی ہواؤں نے زور پکڑا اور نسیم شاہ نے بھی اپنی لینتھ پہچانی تو پروٹیز بلے بازوں کے قدم اکھڑنے لگے۔

لنچ کے بعد بھی نسیم شاہ نے اپنی یہی درستی برقرار رکھی اور ’کراس ونڈز‘ کی بدولت وہ اضافی سوئنگ حاصل کی جس نے پاکستانی مجموعے پہ لپکتی بیٹنگ لائن کو ہڑبڑا دیا۔ مستحکم پروٹیز بیٹنگ اس مرحلے میں محض 13 رنز کے عوض تین وکٹیں کھو بیٹھی۔

اگرچہ قسمت نے شان مسعود کو پورا موقع دے ڈالا کہ وہ پہلے سیشن میں ہوئی کوتاہیوں کا ازالہ کریں مگر تزویراتی خطا ان سے یہاں ہوئی کہ بوش کے کریز پر ابتدائی لمحات میں انھوں نے محمد عباس سے رجوع نہ کیا۔

جوں جوں بوش کے بازو کھلتے گئے، واضح ہوتا چلا گیا کہ ’کراس ونڈز‘ کی رفتار میں کمی اور سوئنگ کی غیر موجودگی میں اس پچ پر پیس سے نمٹنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ وہاں فقط رنز کا بہاؤ باندھنے کو وہ پالیسی اپنانے کی ضرورت تھی جو محمد عباس ہی نے پہلے سیشن میں دکھائی تھی۔

مگر جب تک شان کے خیالات بدلتے اور محمد عباس اٹیک میں واپس آتے، تب تک بوش اپنے قدم جما چکے تھے اور بتدریج بلے بازی کو سازگار ہوتی اس پچ پہ وہ پاکستانی خواب چکنا چور کرتے جا رہے تھے۔

محمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےچیمپیئنز ٹرافی: محسن نقوی کا ’فہم‘ جے شاہ کو مات دے گیا’یہ صائم ایوب کا ’نو لُک‘ پاکستان ہے‘’جوہانسبرگ ٹیسٹ، جہاں پاکستان کی جنوبی افریقی مایوسیوں کا آغاز ہوا‘Getty Imagesاگرچہ قسمت نے شان مسعود کو پورا موقع دے ڈالا کہ وہ پہلے سیشن میں ہوئی کوتاہیوں کا ازالہ کریں مگر تزویراتی خطا ان سے یہاں ہوئی کہ بوش کے کریز پر ابتدائی لمحات میں انھوں نے محمد عباس سے رجوع نہ کیا۔

جب خرم شہزاد نے مارکرم کو سینچری سے چار قدم پیچھے ڈھیر کر دیا، تب بھی پاکستان کو موقع تھا کہ وہ جنوبی افریقی پیش قدمی وہیں روک دیتا اور کسی بڑے خسارے سے بچتے ہوئے اس امید افزا تیسری اننگز کی جانب بڑھتا جسے بالاخر اس میچ میں فیصلہ کن ٹھہرنا ہے۔

گرین ٹاپ پچز کی دلچسپ خاصیت ہے کہ یہ زندگی سے بھرپور سطحیں میچ کی چوتھی اننگز تک اتنی سر سبز و شاداب نہیں رہتیں کہ گیند پرانا نہ ہو پائے اور ریورس سوئنگ کسی جمع تفریق میں نہ آئے۔

ایسی پچز پہ پہلے دو روز کی مارا ماری کے بعد تیسرا دن ہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جو بلے بازی کے لیے قدرے سازگار ہوتا ہے۔ پاکستان اس مرحلے میں پر اعتماد داخل ہو سکتا تھا مگر کوربن بوش کی یلغار نے پاکستان کے امکانات محدود کر دیے۔

گو نئی گیند کی کاٹ جھیلنے میں دو تین وکٹوں کی قربانی تو غیر متوقع نہ تھی مگر جو رنز پاکستان ان کے بدلے حاصل بھی کر پایا، وہ پچھلی اننگز کا خسارہ چُکانے کو ہی کم پڑ گئے۔

اب ساری امیدوں کا بوجھ بابر اعظم پر ہے جنھیں ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی نصف سینچری کیے ہوئے بھی مہینوں بیت چکے ہیں۔ گو ایسے اعداوشمار کا بوجھ کسی بھی بلے باز کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن اگر یہاں وہ اس ذہنی بوجھ سے نمٹنے کو اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر شاید ان کے ساتھ ہی پاکستان بھی واپس اٹھ کھڑا ہو۔

’کامران غلام نے ربادا کو مایوس کر ڈالا‘’جوہانسبرگ ٹیسٹ، جہاں پاکستان کی جنوبی افریقی مایوسیوں کا آغاز ہوا‘’یہ صائم ایوب کا ’نو لُک‘ پاکستان ہے‘جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز وائٹ واش: ’سعید انور سنا تھا، صائم ایوب دیکھا ہے‘چیمپیئنز ٹرافی: محسن نقوی کا ’فہم‘ جے شاہ کو مات دے گیاعمرگل کی یارکرز اور ریورس سوئنگ کس کس کو یاد ہیں!
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More