Getty Images
29 جنوری 2006 کی اس ملگجی شام، نیشنل سٹیڈیم کراچی کی کریز پر دم بخود کھڑے، وی وی ایس لکشمن کو گمان گزرا کہ اگر ان کی زندگی کا یہ لمحہ مذاق نہیں تھا تو پھر شاید اس سے پیشتر عمر بھر کی تمام سیکھ بجائے خود ایک مذاق تھی۔
آف سٹمپ چینل پر پچ ہوئی محمد آصف کی وہ گیند باؤنس ہونے کے بعد جس سمت بڑھی، لکشمن تمام تکنیکی درستی کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کو تیار تھے۔ کلاسک ٹیسٹ کرکٹ بیٹنگ کے کسی کوچنگ مینوئل میں جو جو مبادیات درج ہوں گی، لکشمن کا سٹانس، قدموں کی سمت، کندھے کا رخ، کہنی کی پوزیشن اور جسم کا توازن ان سب سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔
مگر جس طرح سے محض 128 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آتی وہ گیند باؤنس کے بعد مڑی، وہاں لکشمن ہی کیا، کوئی بھی صاحبِ عقل حیرت سے پھیلی بھنووں کے ساتھ اس مظہر کی بہترین تشریح صرف ایک ہی لفظ سے کر سکتا تھا ’جادو۔‘
یہ دنیائے کرکٹ کے لیے سیم بولنگ ’جادوگر‘ محمد آصف کا پہلا تعارف تھا۔
’جادو نہیں تھا، بس وہ کچھ زیادہ ہی سوئنگ ہو گئی‘
’جادو نہیں تھا وہ، بس وہ ایک گیند کچھ زیادہ ہی سوئنگ ہو گئی۔ میں نے خود کبھی کوئی گیند اتنی سوئنگ ہوتے نہیں دیکھی تھی۔‘
برسوں بعد کرک انفو کو ایک انٹرویو میں محمد آصف کے اس جملے پر کرکٹ مصنف عثمان سمیع الدین کا یہ مشاہدہ بجا تھا کہ شاید ابلاغی دقت کے سبب، سیم سے گیند ’کٹ‘ ہونے کے عمل کو آصف غلطی سے سوئنگ پکار رہے ہوں۔
مگر ویڈیو کے بغور مشاہدے سے جو مبالغہ آمیز تاخیری سوئنگ اس گیند پر دکھائی دیتی ہے، وہ واقعی انسانی عقل کی توجیہات سے ماورا ہے۔
جس ٹیسٹ میچ کی پہلی صبح کے پہلے اوور میں ہی عرفان پٹھان کی تاریخی ہیٹ ٹرک نے پاکستان کو دیوار سے لگا دیا تھا، وہاں اب دباؤ پاکستانی پیس اٹیک پر تھا کہ وہ اپنی ٹیم کو میچ میں واپس کیسے لائیں گے جہاں حریف بیٹنگ لائن میں لکشمن، ڈریوڈ، سہواگ، تیندولکر، گنگولی، یووراج سنگھ اور مہندر سنگھ دھونی جیسے گھاگ بلے باز موجود تھے۔
کرک انفو کو انٹرویو میں محمد آصف نے بتایا کہ ’شعیب بھائی (شعیب اختر) پریشان تھے کہ ہم انھیں جلدی آؤٹ کیسے کریں گے۔ پھر میں نے انھیں کر کے دکھا دیا۔ سب سے زیادہ خوشی مجھے ڈریوڈ کی وکٹ سے ملی۔‘
بالآخر یہ راہول ڈریوڈ ہی تھے جن کی دفاعی تکنیک کے خراج میں، عہد ساز وسیم اکرم نے انھیں ’دیوار‘ قرار دیا تھا مگر یہاں محمد آصف نے صرف سات ہی گیندوں میں اس دیوار کو ڈھیر کر ڈالا۔
Getty Images’آپ باہر سے بندہ کیوں بلوا رہے ہیں‘
محمد آصف کی دریافت کا سہرا بھی عاقب جاوید کے سر جاتا ہے جنھوں نے عہد در عہد پاکستان کے لیے کئی ایک بہترین ٹیلنٹ دریافت کیے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے عاقب جاوید نے بتایا کہ ’غالباً 2001 کی بات ہے، شیخوپورہ میں ایک ریجنل کیمپ لگا تھا۔ میں خود بھی شیخوپورہ سے ہوں تو میں وہاں گیا۔ اس میں جو پلیئرز آئے، وہاب ریاض بھی ان میں تھے۔ وہاں میں نے کہیں آصف کو بولنگ کرتے دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ مستقبل کا ٹیسٹ بولر بن سکتا ہے۔ میں اسے لے آیا۔‘
تب عاقب جاوید پی سی بی کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے کوچ تھے۔ ان کے مطابق پی سی بی کا سسٹم کچھ ایسا رہا ہے کہ (پاتھ وے کرکٹ کے) باہر سے آنے والے بندے کو عموماً قبول نہیں کیا جاتا۔
’پی سی بی نے مجھے کہا آپ باہر سے کیوں بندہ بلوا رہے ہیں لیکن میں نے اصرار کیا کہ یہ بڑا ٹیلنٹ ہے۔‘
’پہلے یہ گیند بھی پیچھے کرتا تھا، لینتھ کو ہٹ نہیں کرتا تھا۔ اکیڈمی میں تین مہینے اس پر کام کیا اور سٹمپس کو ہٹ کرنا سکھایا، اس کی لینتھ آگے ہو گئی۔ ذہین تو یہ تھا ہی اور پھر محنت سے اپنا نام بھی بنا گیا۔‘
’یار بھٹی! تجھے ایک سٹار دے رہا ہوں‘
پی سی بی کی ڈیپارٹمنٹل ڈومیسٹک کرکٹ ٹیم ’کے آر ایل‘ کے سابق کوچ عرفان بھٹی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عاقب جاوید نے ہی محمد آصف کو ان کے حوالے کیا تھا۔
’ہمارا شیخوپورہ میں میچ تھا۔ عاقب جاوید نے مجھے کہا کہ یار بھٹی! تجھے ایک لڑکا دوں گا، بہت اچھا بولر ہے۔ اس کو چانس دے، یہ فیوچر کا ٹیسٹ سٹار بنے گا۔ پھر ہم نے اسے کے آر ایل میں رکھا۔‘
’پنڈی (راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم) ہمارا ہوم وینیو تھا، علی نقوی تب ہمارا کپتان تھا، اس نے مجھے کہا اسے (آصف) چانس دیتے ہیں۔ ہم نے چانس دیا۔ اس نے پہلے ہی میچ میں پانچ آؤٹ کر دیے‘
Getty Images’جادوگر جو اپنی مرضی سے سوئنگ کرتا تھا‘
سابق جنوبی افریقی کپتان ہاشم آملہ اپنے عہد کے مسلمہ عظیم ترین بلے باز رہے ہیں۔ مارک نکولس سے ایک گفتگو میں انھوں نے محمد آصف کو اپنے کرئیر کا مشکل ترین بولر قرار دیا۔
’وہ پہلے (آف) سٹمپ پر گیند لینڈ کرتا تھا اور مجھے کوئی اندازہ نہ ہوتا تھا کہ یہ اندر آئے گی یا باہر جائے گی۔ وہ آپ کے دفاع کا امتحان لیتا تھا اور لطف کی بات یہ کہ اب جبکہ، کئی سال بعد بھی میں دنیا بھر کے مختلف کرکٹرز سے (اس بارے) بات کرتا ہوں تو سبھی یہی کہتے ہیں کہ محمد آصف بولنگ کا جادوگر تھا۔‘
ہاشم آملہ کا محمد آصف سے پالا صرف پانچ ٹیسٹ میچز میں پڑا اور پانچ ہی بار آصف نے ان کی وکٹ بھی حاصل کی۔
’گیند کی ریلیز پر اس کے ہاتھ میں کوئی واضح فرق نہیں دکھائی دیتا تھا۔ وہ گیند کو ہوا میں سوئنگ کر سکتا تھا، اگر ہوا میں سوئنگ نہ ہوتی تو وہ پچ سے موومنٹ پکڑ لیتا تھا اور یہ سب وہ اپنی ’مرضی‘ سے کیا کرتا تھا۔ سو میں ایک گیند چھوڑوں گا اور وہ اندر آ کر آف سٹمپ اڑا دے گی۔ ایک گیند کھیلوں گا اور وہ باہر نکل کر ایج لے جائے گی۔‘
ریورس سوئنگ: دنیائے کرکٹ کا ’کالا جادو‘عمرگل کی یارکرز اور ریورس سوئنگ کس کس کو یاد ہیں!دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایااحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیے’کلائی کے استعمال میں بہت عمدہ‘
اپنی کوچنگ میں شعیب اختر، محمد عرفان، یاسر عرفات اور سہیل تنویر جیسے بولرز پر کام کرنے والے عرفان بھٹی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ محمد آصف کلائی کے استعمال میں بہت عمدہ تھے۔
’اس کی رِسٹ (کلائی) پوزیشن پہلے ہی بہت اچھی تھی۔ ہم نے صرف اس کی فنگر پوزیشننگ پر کام کیا، اسے بتایا کہ گیند کو ایسے گرِپ کرو گے تو بیٹسمین ریڈ نہیں کر سکے گا۔‘
جن لفظوں میں محمد آصف کے فن کا اعتراف عمران خان، وسیم اکرم، شعیب اختر، کیون پیٹرسن اور ہاشم آملہ جیسے لیجنڈز کرتے ہیں، وہ کرکٹ شائقین کو سوچنے پر مجبور کر ڈالتے ہیں کہ آخر ان کی بولنگ میں ایسا خاص کیا تھا۔
جب ہم نے یہی سوال عاقب جاوید سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ آصف ایک نایاب ٹیلنٹ تھا۔
’ایک تو سوئنگ بولر ہوتے ہیں جن کے ہاتھ سے گیند نکلتے ہی سمجھ آتی ہے کہ یہ کس طرف جائے گی، کچھ سیم بولر ہوتے ہیں جن کی گیند پچ پر لگ کے موو ہوتی ہے، اس (آصف) کی تو جو سیم پوزیشن تھی، شروع میں اسے خود نہیں پتا ہوتا تھا کہ بال کدھر جائے گی۔ ایسے بولر بہت زیادہ مشکل ہوتے ہیں، جیسے (گلین) میک گرا تھے۔‘
Getty Imagesہاشم آملہ کا محمد آصف سے پالا صرف پانچ ٹیسٹ میچز میں پڑا اور پانچ ہی بار آصف نے ان کی وکٹ بھی حاصل کی’آصف نے سب کو ہلا کر رکھ دیا‘
چھ نومبر 2005 کی کہر آلود صبح جب محمد آصف باغِ جناح پہنچے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند ہی گھنٹوں میں قسمت کی دیوی کیسے ان پر مہربان ہونے کو تھی۔
اردو کرکٹ کمنٹیٹر طارق سعید اس ٹور میچ کی کوریج کے لیے وہاں موجود تھے جو مہمان انگلش ٹیم اور پاکستان اے کے مابین کھیلا جانا تھا۔
طارق سعید نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس صبح آصف نے سب کو حیران کر ڈالا۔
’مائیکل وان کی قیادت میں آئی یہ وہ انگلش سائیڈ تھی جو تازہ تازہ ایشز جیت کر آئی تھی۔ جتنی انگلش پریس وہاں آئی ہوئی تھی، آصف نے سب کی آنکھیں کھول دیں۔‘
’چاروں طرف ہجوم تھا، آصف کے ہاتھ میں نئی گیند آئی اور انھوں نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔‘
اس پہلی اننگز میں محمد آصف نے سات وکٹیں جبکہ مجموعی طور پر میچ میں دس وکٹیں حاصل کیں، جہاں مارکس ٹریسکوتھک، مائیکل وان، کیون پیٹرسن، پال کولنگ ووڈ اور اینڈریو فلنٹوف ان کے اٹھائے گئے سوالات پر بالکل لاجواب ٹھہرے۔
طارق سعید کے مطابق ’باب (وولمر) نے جب آصف کو چانس دیا تو سب کا اعتراض تھا کہ اسے کیوں لے آئے جس کی پیس بھی نہیں مگر باب کا اصرار تھا کہ یہ غیر معمولی بولر ہے۔ ان بڑے انگلش بلے بازوں کی وکٹیں اڑا کر آصف نے باب کا دعویٰ درست ثابت کر دیا۔‘
طارق سعید یاد کرتے ہیں کہ وہیں اسی میچ کے دوران آصف کو لیسٹر شائر کی جانب سے کاؤنٹی کنٹریکٹ بھی مل گیا تھا۔
’عاقب بھائی سڈنی میں بہت مار پڑی‘
باغِ جناح کے ٹور میچ میں انگلش ٹیم کے خلاف تباہ کن سپیل نے محمد آصف کو قومی سلیکٹرز کا اعتماد فراہم کیا اور انھیں دورۂ آسٹریلیا کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ البتہ سڈنی کی پچ پر آسٹریلوی بیٹنگ کے خلاف انٹرنیشنل ڈیبیو باغِ جناح کی اس خوشگوار صبح کے یکسر برعکس تجربہ ثابت ہوا۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے عاقب جاوید وہ لمحہ یاد کرتے ہیں جب دورۂ آسٹریلیا سے واپسی پر محمد آصف ان کے پاس آئے اور بہت مایوس تھے۔
’آصف میرے پاس آ گیا کہ عاقب بھائی! بہت مار پڑی وہاں۔ کافی مایوس تھا۔ کوچ نے بھی پی سی بی کو رپورٹ میں ریمارکس لکھ دیے تھے کہ اس پر انویسٹمنٹ ٹائم ضائع کرنے والی بات ہے۔‘
’میں نے اسے کہا کہ دیکھتے ہیں ناں کہ مار پڑی ہی کیوں۔ بورڈ بھی نہیں مان رہا تھا مگر میں نے اصرار کیا کہ سڈنی کی پچ پر زیادہ باؤنس تھا، اس لیے اس کی لینتھ (بولنگ) بھی وہاں شارٹ پچ بن گئی۔‘
عاقب جاوید کے اصرار کے باوجود پی سی بی قائل نہ ہوا اور انڈیا کے خلاف تاریخی سیریز سے آصف کو ڈراپ کر دیا گیا مگر باب وولمر کے برعکس عاقب جاوید کا ان پر اعتماد قائم رہا اور وہ ان پر کام کرتے رہے۔
Getty Imagesطارق سعید کے مطابق 'باب (وولمر) نے جب آصف کو چانس دیا تو سب کا اعتراض تھا کہ اسے کیوں لے آئے جس کی پیس بھی نہیں مگر باب کا اصرار تھا کہ یہ غیر معمولی بولر ہے۔‘’نو عمران خان، نو وسیم اکرم، اونلی محمد آصف‘
’نو عمران خان، نو وسیم اکرم، اونلی محمد آصف، پیریڈ، ختم۔‘ ایک ٹی وی پینل کے مباحثے میں جب شعیب اختر سے پوچھا گیا کہ پاکستان کی تاریخ کا بہترین فاسٹ بولر کون تھا تو بلا تامل ان کا جواب تھا کہ ’پاکستان کی تاریخ کے بہترین فاسٹ بولر محمد آصف ہیں۔‘
پینل کے شرکا اس جواب سے مکمل متفق نہ ہوئے اور سرگوشیوں میں وسیم اکرم و عمران خان کے نام اچھالے گئے مگر شعیب اختر ڈٹے رہے۔
شعیب اختر نے کہا کہ ’بولر نہیں تھا، وہ جادوگر تھا۔ میرے سپیل دیکھو، تمہیں اچھی فاسٹ بولنگ نظر آئے گی، اب آصف کے سپیل دیکھو، آرٹ نظر آئے گا تمہیں، آرٹ۔ جادوگر تھا بھئی وہ۔‘
شعیب اختر کے دعوے کی توثیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہمراہ کھیلے گئے چار ٹیسٹ میچز میں آصف نے 15 وکٹیں حاصل کی جبکہ شعیب اختر 8 وکٹیں حاصل کر پائے۔
Getty Images’وسیم بھائی تیسری گیند پر سٹمپس اڑا دوں گا‘
کرک انفو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد آصف یاد کرتے ہیں کہ کیسے انھوں نے وسیم اکرم کو حیران کر دیا تھا۔
’ایک دن میں قذافی (سٹیڈیم) کے نیٹس میں بولنگ کر رہا تھا، وسیم اکرم بھی وہیں تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس بیٹسمین کو کتنی گیندوں پر آؤٹ کرو گے۔‘
’میں نے کہا وسیم بھائی! تیسری گیند پر اس کے سٹمپ اڑا دوں گا۔ بیٹسمین لیفٹی (بائیں ہاتھ کا) تھا اور اس نے میری پہلی دو گیندیں چھوڑ دیں جو آؤٹ سوئنگر تھیں مگر تیسری بھی اس نے چھوڑ دی اور وہ ان سوئنگر تھی۔ اس کے سٹمپس اڑتے ہوئے پیچھے جا گرے اور میں نے مڑ کے دیکھا تو وسیم بھائی کے چہرے پر صرف حیرت تھی۔‘
’عرفان پٹھان کی ہیٹ ٹرک بھی انڈیا کو بچا نہ پائی‘
بعید نہ تھا کہ انڈیا کے خلاف ڈراپ ہونے اور پی سی بی کا اعتماد کھونے کے بعد محمد آصف کا کرئیر بھی کسی اور ڈگر نکل پڑتا مگر عاقب جاوید کی محفوظ پرداخت نے انھیں سنبھالے رکھا اور جب اسی انڈیا کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان کا اولین پیس اٹیک انجریز سے پرہشان ہوا تو آصف کو بلایا گیا۔
فیصل آباد میں بھی اگرچہ انھوں نے بری بولنگ نہیں کی مگر صرف یووراج سنگھ کی ہی وکٹ حاصل کر پائے۔ قصور البتہ وہاں آصف کے آرٹ کا نہ تھا بلکہ فیصل آباد کی اس پچ کا تھا جسے برسوں پہلے ڈینس للی فاسٹ بولرز کا قبرستان قرار دے چکے تھے۔
مگر پھر جنوری کی وہ شام آئی جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں برتری کی خواہاں انڈین بیٹنگ آصف کے نشانے پر آئی اور جس یادگار نتیجے کو عرفان پٹھان کی ہیٹ ٹرک کے بل پر طے پانا تھا، نہ صرف وہ پاکستان کے نام ہوا بلکہ پوری دنیا کا تعارف اس جادوگر سے ہوا جو آج بھی کیون پیٹرسن اور ہاشم آملہ جیسے بلے بازوں کو بھول نہیں پاتا۔
AFPسلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر سنہ 2010 میں انگلینڈ کے دورے میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے اور ان تینوں کرکٹرز پر آئی سی سی کے انسدادِ بدعنوانی ٹریبیونل نے پابندی اور معطلی کی سزائیں سنائی تھیں جبکہ لندن کی عدالت نے بھی انھیں قید کی سزا سنائی تھی’آصف تم نے یہ کیسے کر لیا‘
کرک انفو کو انٹرویو میں محمد آصف نے بتایا کہ ’مودی پا (مدثر نذر) نے ایک دفعہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں مجھے بولنگ کرنے کا کہا۔ سامنا کرنے والے بیٹسمین سے میں نے پوچھا کہ آیا اس نے (حفاظتی) گارڈ پہن رکھا تھا۔‘
آصف بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسے گارڈ پہننے کو کہا اور یقینی بنایا کہ ایسا ہی ہو۔ پہلی ہی گیند جو میں نے اسے کی، اس نے لائن پر چھوڑ دی مگر ہوا کیا؟ وہی گیند واپس اندر آئی اور سیدھی اس کے گارڈ پر جا لگی۔‘
’مودی پا نے قہقہہ لگایا اور مجھے کہا کہ اوئے تو نے یہ کیسے کر لیا؟‘
آج جب کرکٹ شائقین اس خوابناک کرئیر کی یہ تشنہ داستان اپنے سامنے دیکھتے ہیں تو شاید ان کے ذہنوں میں بھی مودی پا کی طرح یہی سوال اٹھتا ہے کہ ’محمد آصف، آپ نے یہ کیسے کر لیا۔‘
لیکن جیسے جنوری کی ایک ملگجی شام نے محمد آصف کی پہلی اٹھان دیکھی تھی، پھر ان کے کرئیر کی پرواز بھی ویسے ہی موسم سرما کی کسی اداس شام سی ہو گئی جہاں پے در پے ڈوپنگ، افئیرز، منشیات اور سپاٹ فکسنگ جیسے سکینڈلز نے ان کا سورج وقت سے کہیں پہلے ڈبو دیا۔
محمد عامر کا دوبارہ ریٹائرمنٹ کا اعلان: ’دلشان، روہت اور کوہلی کی وکٹیں یاد رہیں گی لیکن ایک خلش آج بھی باقی ہے‘دنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایاچیمپیئنز ٹرافی: محسن نقوی کا ’فہم‘ جے شاہ کو مات دے گیاپاکستان برق رفتار پاکستانی فاسٹ بولرز کے لیے کیوں مشہور ہے اور یہ ٹیلنٹ کہاں سے آتا ہے؟ احمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےعمرگل کی یارکرز اور ریورس سوئنگ کس کس کو یاد ہیں!