پشاور کے چترالی بازار میں تیارہونے والی ٹوپیاں، واسکٹ اور چغے کی ڈیمانڈ اب سعودی عرب، دبئی اور قطر میں بڑھنے لگی ہے۔صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع چترالی بازار، ایک ثقافتی بازار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جہاں بننے والی تمام مصنوعات چترال کی مشہور پٹی ’شو‘ سے بنائی جاتی ہیں۔اس سے بننے والی مصنوعات میں چترالی ٹوپی، واسکٹ اور کوٹ شامل ہیں جو ہاتھ سے تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح چترالی شال اور چغہ کے کاریگر بھی اسی بازار میں موجود ہیں۔
چترالی بازار کی گرم ملبوسات کی مانگ نہ صرف یورپ اور امریکہ میں ہے بلکہ ان مصنوعات کی ڈیمانڈ خلیجی ممالک میں بھی بڑھنے لگی ہے۔
چترالی بازار کے صدر عبدالرزاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ پہلے افغانستان، یورپ اور امریکہ میں چترالی پٹی کی مصنوعات کی مانگ تھی مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک میں ان گرم ملبوسات کے خریداروں میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، دبئی، قطر اور دیگر عرب ممالک میں چترالی پٹی کو پسند کیا جاتا ہے بالخصوص ان مقامات میں جہاں سردی زیادہ پڑتی ہے۔صدر چترالی بازار عبدالرزاق کے مطابق سعودی عرب میں بیشتر تاجر ٹوپی، واسکٹ، چغہ اور لانگ کوٹ کو پسند کرتے ہیں اس لیے ان کے آرڈرز بھی بہت آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک رہنے والوں کی اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے جو ان مصنوعات کے بڑے خریدار ہیں۔’چونکہ یہ ملبوسات خلیجی ملک کی مارکیٹ میں دستیاب نہیں اس لیے ان کے خریدار چترالی بازار کو ترجیح دیتے ہیں۔‘چترالی بازار کی گرم ملبوسات کی مانگ نہ صرف یورپ اور امریکہ میں ہے بلکہ ان مصنوعات کی ڈیمانڈ خلیجی ممالک میں بھی بڑھنے لگی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)صدر چترالی بازار کے مطابق مارکیٹ تک رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔’اگر چترالی بازار کے تاجروں کو خلیجی ممالک کی مارکیٹ تک رسائی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے حکومت اقدامات کرے تو مزید مصنوعات ان ممالک کو ایکسپورٹ کی جا سکتی ہیں۔‘آن لائن کاروبار میں بھی اضافہچترالی بازار کے تاجر سبحان الدین نے بتایا کہ خلیجی ممالک سے آن لائن آرڈر بھی آتے ہیں اور وہاں کے دکاندار بھی چترالی پٹی کی مصنوعات ان سے منگواتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک میں واسکٹ کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔’خلیجی ممالک کے لیے واسکٹ کا سائز بڑا کر کے خصوصی آرڈر پر تیار کرتے ہیں کیونکہ وہ کھلی واسکٹ پہننا پسند کرتے ہیں۔‘سبحان الدین نے کہا کہ تاجروں کے لیے مال خلیجی ممالک بھجوانا ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ ’اگر 4 ہزار کا آرڈر بھجوانا ہو تو ڈیلیوری کے لیے 10 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں جس کے سبب کوئی منافع نہیں بچتا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک پاکستان کی ثقافتی مصنوعات کی بڑی منڈی بن سکتی ہے اگر تاجروں کی مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنایا جائے۔چترالی بازار کے کاریگر معروف خان کے مطابق چترالی پٹی کی زیادہ تر مصنوعات افغانستان کی مارکیٹ میں دستیاب ہے جبکہ بیرون ملک مال کی سپلائی پیچیدہ ہونے کی وجہ سے بڑے سوداگر پشاور کی بجائے افغانستان جاکر خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔