ٹرائیڈنٹ: یوکرین کا ’دو کلومیٹر کی اونچائی پر اڑتے ہوائی جہاز مار گرانے کی صلاحیت رکھنے‘ والے لیزر ہتھیار بنانے کا دعویٰ

بی بی سی اردو  |  Dec 18, 2024

یوکرینی فوج کے بغیر پائلٹ کے سسٹمز فورسز کے کمانڈر واڈیم سکاریوسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین نے لیزر ہتھیار تیار کر لیا ہے۔

یوکرینی کمانڈر کی جانب سے اعلان سے قبل تک یوکرین کی جانب سے لیزر ہیتھیار تیار کرنے کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں تھی۔ دنیا میں چند ہی ممالک کے پاس جنگ میں استعمال کے قابل لیزر ہتھیارموجود ہیں۔

خبر رساں ادارے انٹرفیکس یوکرین کے مطابق کمانڈر سکاریوسکی کا کہنا تھا کہ یوکرین دنیا کا پانچواں ملک ہے جس نے لیزر ہتھیار کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔

’اس لیزر کی مدد سے ہم دو کلومیٹر کی اونچائی پر پرواز کرتے ہوائی جہاز کو مار گرا سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس ہتھیار کا نام ’ٹرائیڈنٹ‘ رکھا گیا ہے اور یوکرین اس کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کمانڈر سکاریوسکی کے بیان سے فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ ہتھیار دکھتا کیسا ہے، اس کی خصوصیات کیا ہیں اور آیا جنگی حالات میں اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے یا نہیں۔

سکاریوسکی کی جانب سے یہ بیان یورپی اور یوکرینی ہتھیاروں کی صنعتوں کے درمیان روابط بڑھانے کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران سامنے آیا ہے۔

لیزر ہتھیار سے کیا مراد ہے؟

آج سے تقریباً 70 سال پہلے بین الاقوامی طاقتوں نے لیزر ہتھیار بنانے کی کوششیں شروع کی تھیں۔

ایک ایسے ہتھیار کا خیال جو دشمن کے آلات کو محض سیکنڈوں میں جلا کر بھسم کر دے سوویت اور امریکی فوج کے لیے بہت پر کشش تھا۔ ایسے ہتھیار کو دفاعی اور جارحانہ دونوں طرز کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن حقیقت میں ایسا ہتھیار بنانا بہت مشکل ثابت ہوا۔

پہلے پہل امریکہ اور سوویت یونین دونوں سپر پاورز نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایسے لیزر ہتھیار تیار کر لیے ہیں جو دشمن کے کو باآسانی مار گرا سکتے ہیں۔ لیکن بعد ازاں یہ سب محض باتیں ہی ثابت ہوئیں۔

ان ہتھیاروں کے کچھ تجرباتی ماڈلز تیار کیے گئے لیکن جلد ہی فنڈز کی کمی اور دوسری وجوہات کی وجہ سے ان پر کام روک دیا گیا۔

ان لیزر ہتھیاروں کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ان لیزرز کو چلانے کے لیے درکار طاقتور توانائی کے ذریعہ کی ضرورت اور استعمال کے بعد لیزر کو ٹھنڈا کرنا تھا۔

اس کے علاوہ موسم پر انحصار، ایک ساتھ کئی متحرک اہداف کو نشانہ بنانے میں مسائل، اور اس ہتھیار میں استعمال ہونے والے آلات کی لاگت بھی اس ہتھیار کو حتمی شکل دینے کے راستے میں حائل چند بڑی رکاوٹیں تھیں۔

گذشتہ صدی کے اواخر میں عالمی طاقتوں نے لیزر ہتھیار بنانے کے بجائے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل جیسے روایتی ہتھیاروں کو بہتر بنانے میں توجہ دینی شروع کر دی۔

تاہم بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں پیدا ہونے والے چیلنجز بشمول روسی یوکرین جنگ کے بعد لیزر ہتھیاروں کے بارے میں دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔

اس بڑھتی دلچسپی کی ایک وجہ اب جنگ میں استعمال ہونے والے سستے ڈرونز ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے سستے اور قابل تجدید ذرائع کی تلاش ہے۔

کیونکہ یہ ڈرونز دوسرے روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں کافی سستے ہوتے ہیں اس لیے فوجیں انھیں بڑی تعداد میں استعمال کرتی ہیں اور ان کو نشانہ بنانے کے لیے طیارہ شکن میزائل استعمال کرنا کافی مہنگا پڑتا ہے۔ دوسری جانب مشین گنوں سے ان ڈرونز کو مار گرانے کی کوششیں اکثر بے سود ثابت ہوتی ہیں۔

ایک طاقتور لیزر بیم کے مدد سے ان ڈرونز کو مار گرانا بظاہر ایک سستا اور قابل عمل حل نظر آتا ہے۔

روس نے یوکرین کے ’میزائل حملوں‘ سے بچنے کے لیے اپنے جنگی طیارے کہاں چھپا لیےیوکرین میں سستے لیکن مہلک روسی ’گلائیڈ بم‘ کیسے تباہی مچا رہے ہیں؟’حملے کے تین گھنٹے بعد بھی دھماکے‘: روس کا وہ پراسرار ’اوریشنِک‘ میزائل جو معمہ بن گیایوکرین کا روس میں برطانوی ساختہ میزائل سے حملہ: سٹارم شیڈو نامی میزائل کیا ہے اور یوکرین کے لیے اہم کیوں ہے؟وہ ممالک جن کے پاس پہلے ہی لیزر ہتھیار موجود ہیں

دنیا میں چند ہی ممالک ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس لیزر ہتھیار ہیں۔

جن ممالک کے پاس مبینہ طور پر لیزر ہتھیار موجود ہیں ان میں امریکہ اور روس کے علاوہ چین، برطانیہ، جنوبی کوریا، جاپان اور اسرائیل شامل ہیں۔

امریکی حکام کی جانب سے اینٹی میزائل لیزر کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ کے لیے بھی یہ لیزر ہتھیار بنانے کی بات کی گئی ہے۔

چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طیارہ شکن لیزر کے علاوہ لیزر رائفلز بھی بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

کئی سال پہلے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے دعویٰ کیا تھا کہ روس نے ایک ایسا ہتھیار تیار کر لیا ہے جو لیزر کی مدد سے سٹیلائیٹ کو بھی اندھا کر سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے رواں سال آئرن بیم لیزر سسٹم کی پہلی کھیپ کا آرڈر دیا تھا۔ یہ ہتھیار 2025 کے آخر تک فوجیوں کو فراہم کیے جانے کی امید ہے۔ یہ طیارہ شکن نظام کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے سے چھوٹے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جنوبی کوریا اور جاپان بھی ایٹمی میزائل اور اینٹی ڈرون لیزر سسٹم بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

برطانیہ کو امید ہے کہ وہ اپنے ڈریگن فائر لیزر سسٹم کو 2027 سے پہلے عسکری سروس میں شامل کرلے گا۔ ڈریگن فائر لیزر 55 کلو واٹ لیزر بیم سسٹم ہے جو 37 الگ الگ چینلز سے مرکوز ہے۔ یہ ہتھیار تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر موجود دھات کی بنے ٹارگٹ کو جلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رواں سال برطانوی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ڈریگن فائر کی جنگی جانچ کے لیے اس کی یوکرین کو منتقلی کا امکان مسترد نہیں کرسکتے ہیں۔

یوکرین کا لیزر ہتھیار کیا ہے؟

فی الحال یوکرین کے اس نئے ہتھیار ٹرائیڈنٹ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ سکاریوسکی نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ٹرائیڈنٹ دو کلومیٹر کے فاصلے سے ہوائی جہاز کو مار گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

برطانیہ کا ڈریگن فائر سسٹم ایک کلومیٹر کے فاصلے سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اسرائیلی آئرن بیم کی رینج اس سے دو گنا ہے۔ دونوں سسٹمز میں ایک اور فرق یہ ہے برطانوی ہتھیار 55 کلو واٹ کی لیزر سے لیس ہے جبکہ آئرن بیم 100 کلو واٹ کی لیزر ہے۔

اگر یوکرینی ہتھیار واقعی کسی ہوائی جہاز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس متحرک ہدف پر توجہ مرکوز کرنے نظام موجود ہے۔ مثال کے طور پر، ڈریگن فائر 23 ملی میٹر کی درستگی کے ساتھ ایک کلومیٹر کے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

یوکرینی ہتھیاروں کے ماہر اولیگ کٹکوف نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ عین ممکن ہے کہ یوکرین اس طرز کا ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو گیا ہو۔

وہ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کئی دلیلیں پیش کرتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ پچھلی نصف صدی میں لیزر ہتھیار بنانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی اور آلات کی رسائی کافی آسان ہو چکی ہے۔

ان کی رائے میں یوکرینی ملٹری صنعتی کمپلیکس کے علاوہ نجی سیکٹر بھی لیزر سسٹم کا پروٹو ٹائپ تیار کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی دفاعی صنعت 2022 کے مقابلے میں اب بالکل مختلف ہے۔ کٹکوف کہتے ہیں کہ انھیں بالکل حیرانی نہیں ہو گی اگر یہ لیزر کسی نجی کمپنی نے بنائی ہو۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ہتھیار کتنا کارآمد ہے یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ کٹکوف کہتے ہیں کہ ٹرائیڈنٹ کتنا کارآمد ہے اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے جس میں لیزر بیم بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی، اسے مطلوبہ فاصلے پر مرکوز کرنے کی صلاحیت اور مختلف موسمی حالات میں اس کی افادیت شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک کے پاس آزمائشی مرحلے کے لیزر ہتھیار موجود ہیں لیکن اب تک کسی نے بھی ان کا حقیقی حالات میں تجربہ نہیں کیا ہے۔

’یہ ممالک اب تک صرف یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں عملی طور پر کیسے استعمال کیا جائے۔‘

ان کی رائے میں اگر ٹرائیڈنٹ محض تجرباتی ماڈل نہیں ہے اور اگر یہ جنگی حالات میں کارکردگی دکھا سکتا ہے تو یہ ہتھیاروں کی دور میں ایک حقیقی انقلاب ہوگا۔

لیکن ابھی اس کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔

’معمول‘ کی مشق یا ’امریکہ کو پیغام‘: چار دہائیوں بعد بین الاقوامی سمندری حدود میں چین کا میزائل تجربہ غیرمعمولی کیوں ہے؟اینٹی میزائل سسٹمز کو چکمہ دینے والے انڈیا کے ہائپرسونک میزائل میں ایسا خاص کیا ہےروس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے اور اس میں نئی تبدیلیوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کیا مطلب ہے؟19ویں صدی میں ایجاد کیا گیا ’مورس کوڈ‘ آج بھی روسی یوکرین جنگ میں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہےامریکی پابندیوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More