خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی کیلاش میں آباد قبیلے میں سرمائی تہوار چترموس فیسٹیول 15 دسمبر سے جاری ہے جو 22 دسمبر تک جاری رہے گا۔چترال میں ہزاروں سال سے آباد کیلاش قبیلے میں سرمائی تہوار کی رونقیں عروج پر ہیں، کیلاشی قبیلے کے تینوں دیہات میں یہ مذہبی تہوار زورشور سے جاری ہے۔چاومس یا چترموس تہوار ہر سال 15 دسمبر کو شروع ہوتا ہے اور 22 دسمبر کو اختتام پذیر ہوتا ہے، اس فیسٹیول کو ’سیاح کیلاش ونٹر فیسٹیول‘ بھی کہتے ہیں۔
کیلاش میں جاری میلے کو دیکھنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں سے سیاح دیکھنے آتے ہیں جبکہ وادی میں غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔چاومس یا چترموس تہوار کیا ہے؟ چترموس کیلاش قبیلے کا مذہبی تہوار ہے جو ہر سال موسم سرما کے آغاز میں رمبور، بریر اور بمبوریت کی وادیوں میں منایا جاتا ہے۔اس تہوار میں منفرد نوعیت کی مختلف رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں جن میں سرفہرست شارا بیریک کی رسم ہے۔اس رسم میں گندم سے بکری، مارخور اور مختلف جانوروں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں۔یہ منفرد رسم مال مویشیوں میں اضافے اور معاشی استحکام کے لیے کی جاتی ہے، چترموس کی رسم میں بچے اور بچیاں بھی درختوں کی پتیاں اٹھا کر رقص کرتے ہیں۔سرزد شدہ غلطیوں کی معافی اور آئندہ بچاؤ کے لیے دعاخون جما دینے والی سردی میں کیلاش کی خواتین کے ساتھ بزرگ بھی روایتی رقص میں شریک ہوتے ہیں اور مقامی زبان میں گانا گا کر موسم سرما کو خوش آمدید کہتے ہیں۔نیک شگون کے لیے رات کو بون فائر کی رسم (آگ جلانے کی رسم) کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے اردرگرد قبیلے کے باشندے رقص کرتے ہیں۔ چترموس فیسٹیول میں شیشاق اور منڈاہیک جیسی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔مختلف پکوانوں کی تیاریکیلاش کی تینوں وادیوں میں چترموس تہوار کے دوران دو ہفتے تک مقامی کھانے پکائے جاتے ہیں۔
فیسٹیول کے پہلے چار دن کیلاش کے کچھ دیہات میں غیر مقامی افراد کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
میلے میں 300 سے زائد بکریوں کو ذبح کیا جاتا ہے، تاہم گوشت صرف مردوں کو پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے کھانے پر پابندی ہوتی ہے۔میلے میں دودھ سے بنے کھانے بھی تیار کیے جاتے ہیں، ان کھانوں سے نہ صرف مقامی باشندے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ یہ مہمانوں کو بھی پیش کیے جاتے ہیں۔لومڑی بھگانے کی رسم چترموس تہوار میں سب سے دلچسپ رسم زندہ لومڑی کو بھگانے کی رسم ہے جسے مقامی زبان میں لواک باہیک کہتے ہیں۔اس رسم میں سب سے پہلے جنگل سے لومڑی کو پکڑ کرلایا جاتا ہے اور پھر اس کی مدد سے موسم کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔مقامی خاتون سید گل کالاش کے مطابق یہ رسم تہوار کے سب سے آخری حصے میں ادا کی جاتی ہے جو ’بمبوریت‘ کے مقام پر منعقد ہوتی ہے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس رسم کو دیکھنے کے لیے کیلاش قبیلے کے سارے باشندے اکٹھے ہوتے ہیں۔‘’اس مقصد کے لیے زندہ لومڑی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے جسے بعد میں سب کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے، لومڑی کو چھوڑنے کے بعد مقامی نوجوان اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‘
میلے میں 300 سے زائد بکریوں کو ذبح کیا جاتا ہے، تاہم گوشت صرف مردوں کو پیش کیا جاتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سید گل کا کہنا ہے کہ ’اگر لومڑی بھاگ کر پانی یا دریا کی طرف چلی جائے تو اسے آنے والے سال میں بارش کی پیش گوئی تصور کیا جاتا ہے۔‘اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یعنی آئندہ برس زمین زرخیز ہوگی جبکہ دوسری صورت میں اگر لومڑی خشک جگہ کی طرف دوڑ جائے تو اسے خشک سالی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔سید گل کیلاش کہتی ہیں کہ لومڑی کا پانی کی طرف جانا نیک شگون سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس قبیلے میں بیشتر افراد کی روزی کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔’اگر بارشیں نہ ہوں تو فصلیں متاثر ہوتی ہیں جس سے معاشی طور پر تنگی آجاتی ہے۔ اس رسم کی ادائیگی کے دوران خواتین اور نوجوان رقص بھی کرتے ہیں۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’چترموس تہوار میں نئے سال کے لیے خصوصی دعاؤں اور نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ علاقے کی خوش حالی اور امن کے لیے بھی دعائیں کی جاتی ہیں۔‘واضح رہے کہ فیسٹیول کے پہلے چار دن وادی کیلاش کے کچھ دیہات میں غیر مقامی افراد کے داخلے پر پابندی عائد ہوتی ہے، تاہم ’بمبوریت‘ گاؤں میں کسی کے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔