سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردیں، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے آرڈیننس کو چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین بیرسٹر گوہر علی خان نے آرڈیننس کو چیلنج کیا تھا۔
دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرڈیننس کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی ہے اور آرڈیننس کے تحت بنی کمیٹی ختم ہو گئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ آرڈیننس کے تحت کمیٹی کے ایکشن کو کالعدم قرار دیا جائے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون آجائے تو آرڈیننس خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
جسٹس محمد علی محمد مظہر کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے فیصلوں کو پاس اینڈ کلوز ٹرانزیکشز کے تحفظ ہے۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین صدر پاکستان کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے، افراسیاب خٹک احتشام الحق اور اکمل باری نے بھی آرڈیننس کیخلاف درخواستیں دائر کی تھی۔
پس منظر
وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا جس کے بعد صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے نتیجے میں 20 ستمبر کو سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا تھا۔
اس آرڈیننس سے چیف جسٹس کا سپریم کورٹ کے مقدمات مقرر کرنے کا دائرہ اختیار بڑھ جائے گا۔
آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا، ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔
ترمیمی آرڈیننس کے مطابق ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کے لیے دستیاب ہوں گی۔