یوٹیوب نے حال ہی میں پاکستان میں سال 2024 کے دوران سب سے زیادہ دیکھے جانے والے یوٹیوب چینلز کی فہرست جاری کی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاپ 20 یوٹیوب چینلز میں ایک بھی ایسا یوٹیوب چینل نہیں ہے جو خبروں سے متعلق یا سیاسی معاملات سے متعلق ہو۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر قدغن کے حوالے سے حکومت بہت زیادہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ملک میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) فروری سے بند ہے، حکومت اپنے خلاف بات کرنے والے یا حکومتی الفاظ میں پروپیگنڈا کرنے والے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو گاہے بگاہے حراست میں بھی لیتی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرتی ہے۔تاہم حکومت اور نیوز سے وابستہ ان یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے درمیان چوہے اور بلی کا کھیل مسلسل چلتا رہتا ہے۔لیکن یوٹیوب کی حالیہ رپورٹ نے صورتحال بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کی ہے۔ جن یوٹیوبرز پر حکومت پروپیگنڈے کا الزام لگاتی ہے ان کی ریچ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے مقابلے میں انٹرٹینمنٹ سے متعلق یوٹیوب چینلز اور مختلف ٹی وی ڈرامے سب سے زیادہ یوٹیوب پر دیکھے جانے والے عوامی مقبولیت کے یوٹیوب چینلز ہیں اور ان کو روزانہ دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
جبکہ یوٹیوب کے ہی اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ دیکھے جانے والے یوٹیوبرز بھی پاکستان میں 10 لاکھ سے زیادہ ویورشپ لے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انٹرٹینمنٹ کے مقابلے میں جہاں دو دو کروڑ اور تین تین کروڑ ویوز ایک ڈرامے کی قسط لے جاتی ہے، اس کے مقابلے میں یہ بہت کم ہے۔
اسد بیگ کے مطابق و 80 فیصد انٹرٹینمنٹ یوٹیوب پر پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے۔ (فوٹو: پکسلز)سوشل میڈیا ٹرینڈز اور ٹریننگ پر نظر رکھنے والی تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے سربراہ اسد بیگ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس بات کی دہائی تو ہم بہت عرصے سے دے رہے ہیں کہ پاکستان میں جتنی زیادہ یوٹیوب پر وی لاگرز خبریں دیتے ہیں وہ پاکستان میں یوٹیوب کی تمام ویورز شپ کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور حکومت کو کسی بھی طرح سے ان یوٹیوبرز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘’یہ لوگ اس لیے بھی زیادہ لائم لائٹ میں آتے ہیں کیونکہ یہ جو خبر دیتے ہیں وہ خبر متاثر کرنے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں انٹرٹینمنٹ ایک انفرادی تسکین فراہم کرتی ہے جب کہ خبریں اجتماعیت سے ہٹ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے یوٹیوبرز جو خبریں دیتے ہیں وہ زیادہ مؤثر ہیں کیونکہ ان کے مواد میں سیاسی کنکشن ہوتا ہے اجتماعی کنکشن ہوتا ہے اور بہت تھوڑی ویورشپ کے باوجود وہ زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔‘اسد بیگ کا کہنا تھا کہ دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ نیوز یوٹیوبرز نے پاکستان کی یوٹیوب کی دنیا میں جتنی سپیس حاصل کرنا تھی وہ کر چکے ہیں۔’اس سے زیادہ میرا نہیں خیال کہ یہ آگے بڑھ سکتے ہیں، اور اوورآل دیکھا جائے تو 80 فیصد انٹرٹینمنٹ یوٹیوب پر پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے اور 15 سے 20 فیصد نیوز کانٹینٹ دیکھا جا رہا ہے۔‘اسد بیگ کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ کروڑوں میں روزانہ انٹرٹینمنٹ دیکھی جا رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لاکھوں میں نیوز دیکھی جا رہی ہے۔حال ہی میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے والے صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ جب نیوز یوٹیوبرز نے اپنا کام شروع کیا تو اس وقت ایک پورا خلا موجود تھا۔ سنجیدہ صحافی اپنے اداروں میں کام کر رہے تھے، وہ اس طرف نہیں آئے۔ کوئی ٹی وی پہ کام کر رہا تھا اور کوئی اخباروں میں کالم لکھ رہا تھا، دنیا بدل رہی تھی اور وہ نئے تقاضوں کو اس طرح سے سمجھ نہیں سکے۔ لہذا وہ ساری خالی سپیس ایسے افراد نے قابو کر لی جن کا براہ راست خبروں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔‘’ہم ایسے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بھی جانتے ہیں جنہوں نے سرے سے کبھی صحافت کی ہی نہیں لیکن وہ یوٹیوب کی نیوز شخصیات میں پاپولر ترین ہیں۔‘اجمل جامی کے مطابق انٹرٹینمنٹ اور نیوز کا موازنہ جیسے ہی پاکستان میں ہے، دنیا بھر میں بھی یہی صورتحال ہے، یورپ امریکہ نہ جائیں انڈیا کی مثال لے لیں، وہاں پر بھی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ کانٹینٹ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔اجمل جامی کے مطابق انٹرٹینمنٹ اور نیوز کا موازنہ جیسے ہی پاکستان میں ہے، دنیا بھر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ (فوٹو: ریڈٹ)ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بائٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد کہتے ہیں کہ ’اگر دیکھا جائے تو تمام سوشل میڈیا آؤٹ لیٹ بھی اس بات کی ترویج کرتے ہیں، ان کے جو الگوریتھم ہیں، وہ اس بات کو پروموٹ کرتے ہیں کہ آپ کا کانٹینٹ سوشل ہے یا سماجی ہے۔ خبروں کے کانٹینٹ کی الگوریتھم پذیرائی نہیں کرتا۔‘’ایک بہت بڑا فیکٹر حالیہ سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے، کیونکہ ہر ملک کے اندر سیاسی حالات مختلف ہیں اور ان حالات کی وجہ سے ان بڑے پلیٹ فارمز کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ برما کے معاملات دیکھیں تو سیاسی مواد جو ہے وہ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق حکومتوں کی پالیسی سازی کا موجب بھی بنا ہے۔‘شہزاد احمد کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ان کے جو ایلگوریتھم ہیں وہ ویسے ہی انٹرٹینمنٹ کانٹینٹ کو زیادہ سپورٹ کرتے ہیں اور عوام کے سامنے انٹرٹینمنٹ کانٹینٹ زیادہ دکھا رہے ہوتے ہیں اور نیوز کو تھوڑا پیچھے کر رہے ہوتے ہیں۔