عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے جو صرف غیرقانونی ویزوں یا جھوٹے وعدوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ بے گناہ لوگوں کے خوابوں کے بکھرنے کی ایک اہم وجہ بھی بن رہا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلر کا ایک نیا طریقہ واردات سامنے آیا ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر شہریوں کو بیرونِ ممالک لے جانے کا جھانسا دے کر انہیں غیرقانونی کاموں میں ملوث کر رہے ہیں۔یہ نیا کاروباری ماڈل، جو جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اب تک سینکڑوں افراد کی زندگیوں کے ساتھ کھیل چکا ہے۔
ان سمگلروں کا مقصد نہ صرف پیسہ کمانا ہے بلکہ وہ انسانی سمگلنگ کے ذریعے مختلف ملکوں میں اپنے نیٹ ورک کو مستحکم بھی کر رہے ہیں۔
ان سمگلروں کے کام کرنے کا طریقہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور وہ اپنے شکار کو بیرون ملک لے جا کر انہیں کوئی ’ہنر‘ فراہم کرنے یا ’فری لانسنگ‘ کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب یہ افراد اپنی قسمت آزمانے کے لیے بیرون ملک پہنچتے ہیں، تو انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک خطرناک عالمی سمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔پاکستانی اور انڈین ایجنٹوں کا تعلقیہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جب پاکستانی اور انڈین ایجنٹ آپس میں مل کر انسانی سمگلنگ کے اس دھندے کو چلانے لگتے ہیں۔ ایک پاکستانی ایجنٹ دوسرے ملک میں موجود انڈین ایجنٹ کے ساتھ رابطے بناتا ہے اور ایک دوسرے کی مدد سے ان لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ایسے ایجنٹ اپنے شکار کو جھوٹے خواب دکھا کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایجنٹ انہیں بیرون ملک اچھے روزگار کے مواقع دینے، فری لانسنگ کی پیشکش یا کاروباری مواقع کا جھانسا دیتے ہیں۔ اس کے بدلے یہ ایجنٹ اپنے شکار سے بڑی رقم وصول کرتے ہیں، اور جب وہ ان افراد کو غیرقانونی راستے سے بیرون ملک پہنچا دیتے ہیں تو وہاں انہیں جبری مشقت یا مالیاتی جرائم میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔کمبوڈیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کا استعمالحال ہی میں ایف آئی اے کی ایک کارروائی میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی شہریوں کو کمبوڈیا جیسے ممالک میں بھیجا گیا تھا جہاں وہ نہ صرف جبری مشقت کا شکار ہوئے بلکہ ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے گئے تھے۔ ان افراد کو بعد میں مالیاتی جرائم میں ملوث کیا گیا اور ان کے انکار پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔کمبوڈیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک اس کاروبار کے لیے آسان ہدف بنتے ہیں کیونکہ یہاں قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سمگلنگ کا کاروبار پھیلایا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں بیشتر افراد کو غیرقانونی طریقوں سے داخل کرایا جاتا ہے اور جب یہ افراد انکار کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کو نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ (فائل فوٹو: سٹاک امیج)مسافروں کی تکلیف اور مایوسیانسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ ان میں سے کئی افراد کو نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ایف آئی اے کراچی کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے صائم شبیر، جو مظفرآباد کے رہائشی ہیں، کے مطابق ’انہوں نے چھ لاکھ 50 ہزار روپے اپنے ایجنٹ کو دیے تاکہ وہ انہیں کمبوڈیا میں فری لانسنگ کے مواقع فراہم کرے۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں مالیاتی جرائم میں ملوث کر دیا گیا اور ان کا پاسپورٹ بھی ان سے چھین لیا گیا۔ اس کے بعد صائم کو پاکستانی سفارت خانے کی مدد سے ایمرجنسی پاسپورٹ لے کر ہی پاکستان کے لیے سفر کرنا پڑا۔‘اسی طرح محمد اویس اور سلمان علی جیسے افراد نے بھی اوکاڑہ کے ایک ایجنٹ کے ذریعے چھ لاکھ روپے فی کس دیے، مگر کمبوڈیا پہنچنے کے بعد ان کا سامنا بھی ان ہی حالات سے ہوا۔ ان افراد کی زندگی نہ صرف خطرے میں تھی بلکہ وہ اپنے وطن واپس لوٹنے کے لیے ایمرجنسی پاسپورٹ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ایف آئی اے کا ایکشن اور عالمی سطح پر کارروائیاںایف آئی اے نے اس مسئلے کے حل کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے نے کمبوڈیا سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو بازیاب کیا اور اس نیٹ ورک کے پاکستانی اور انڈین ایجنٹوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔پاکستانی شہریوں کو کمبوڈیا جیسے ممالک میں بھیجا گیا جہاں انہیں مالیاتی جرائم میں ملوث کیا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس کے علاوہ ایف آئی اے نے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی کے ذریعے ان ایجنٹس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ کا یہ نیٹ ورک عالمی سطح پر پھیل چکا ہے اور ہم اس کا تدارک کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ ہم کسی کو بھی بے گناہ انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘