پاکستان میں گذشتہ ایک سال سے بجلی چوری کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے جس میں تمام صوبوں میں بجلی چوری کرنے والے افراد کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی بڑے پیمانے پر بجلی چوروں کے خلاف گذشتہ ایک سال سے آپریشن جاری ہے۔ایسے افراد جن کو بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
یہ مقدمات جب عدالتوں میں پیش ہوئے تو لاہور کی سیشن عدالت میں متعدد ایڈیشنل سیشن ججز نے بجلی چوروں کا ٹرائل کرنے کے بجائے ان کو پہلے سے دستیاب ایک اصلاحی پروگرام جسے پروبیشن پروگرام کہا جاتا ہے وہاں بھجوانا شروع کر دیا ہے۔ابتدائی طور پر لاہور کی مختلف عدالتوں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد ملزمان کو سزا دینے کے بجائے ان کو پروبیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا ہے۔عدالتی ریکارڈ کے مطابق ان ڈیڑھ ہزار افراد کو اس حوالے سے ضمانت دی گئی ہے کہ وہ اپنا پروبیشن کا وقت اصلاحی پروگرام میں شرکت کر کے گزاریں گے۔دوسری طرف پروبیشن ڈیپارٹمنٹ نے بڑے پیمانے پر بجلی چوری میں ملوث افراد کی اصلاح کے لیے کلاسز کا اہتمام شروع کر دیا ہے۔پروبیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسر محمد وقاص نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں ہمیں ملزمان کی اصلاح کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی۔‘’تاہم اب جب عدالتیں ان افراد کو ہمارے حوالے کر رہی ہیں تو ہم نے ایک مربوط نظام وضع کیا ہے جس میں ایک ماہ کے دوران 10 کلاسز رکھی گئی ہیں اور ان افراد کو نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں کہ وہ ان کلاسز کا حصہ بنیں۔‘’ہم نے مختلف ماہرین نفسیات اور دیگر سوشل سائنسز کے اساتذہ اور کونسلنگ کے لیے پروفیشنلز کو ہائر کر لیا ہے اور ان کلاسز میں ان افراد کی تربیت کی جائے گی تاکہ وہ آئندہ بجلی چوری جیسے معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔‘
ڈیڑھ ہزار سے زائد ملزمان کو سزا دینے کے بجائے پروبیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا ہے (فائل فوٹو: پِکس ہیئر)
اصلاحی پروگرام کیسے کام کرتا ہے؟چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کے حوالے سے پہلے سے موجود اصلاحی پروگرام عدالتوں اور سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے درمیان تعاون سے چلایا جاتا ہے۔
لاہور کے سابق سیشن جج عابد قریشی نے اس پروگرام کے حوالے سے بتایا کہ ’چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کے بارے میں عدالتوں کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان کو جیل بھیجنے کے بجائے ان کی تربیت کا اہتمام کر کے ان کو آئندہ جرائم سے دور کریں۔‘’اس حوالے سے عدالتوں کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ ایسے افراد کو سماجی کاموں میں بھی لگایا جائے، پروبیشن ان افراد پر اپلائی ہوتی ہے جن کے ایک تو جرائم معمولی ہوں اور دوسرا وہ عدالت کے رُوبرو اپنے جرم کو تسلیم بھی کر لیں۔‘ان کے مطابق ’اس میں ٹرائل کی ضرورت نہ ہو تو ایسے معمولی جرائم جیسا کہ ابھی یہ جو بجلی چوری ہے یہ ایک کہنے کو وائٹ کالر کرائم ہے جس میں کسی دوسرے فرد کا براہ راست کوئی نقصان نہیں کیا جاتا۔‘
اب تک لیسکو نے تین ارب 57 کروڑ روپے کے واجبات وصول کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’بجلی چوری ایک اخلاقی جرم بھی ہے اور ریاست کے خلاف جرم ہے تو ایسے افراد کو اگر انہوں نے چھوٹے پیمانے پر گھروں میں بجلی چوری کی ہے اور ایسا کوئی کام کیا ہے تو ان کو سزا دینے کے بجائے ان کو اس کام سے باز رکھنے کے لیے ان کی تربیت کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔‘عابد قریشی کہتے ہیں کہ ’اس سے قبل کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر ملزمان کو پروبیشن پر نہیں بھیجا گیا، یہ صورت حال تھوڑی غیرمعمولی ہے کہ ایک ہی ماہ کے دوران ڈیڑھ ہزار افراد کو تربیت دی جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقدمات بہت بڑی تعداد میں درج کیے گئے ہیں۔‘خیال رہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران لاہور میں ایک لاکھ 65 ہزار افراد کو بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا جبکہ ایک لاکھ 54 ہزار افراد کے خلاف مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔اسی طرح بجلی چوروں کو 17 کروڑ 33 لاکھ یونٹ ڈیٹیکشن کی مد میں چارج کیا گیا سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک صرف لیسکو نے تین ارب 57 کروڑ روپے کے واجبات وصول کیے ہیں۔