جنوبی کوریا کے صدر یون سوک ییول نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ پر معافی مانگ لی ہے تاہم اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوئے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو صدر نے ایسے وقت معافی مانگی جب پارلیمنٹ میں اُن کے مواخذے کی تحریک پیش کی جا رہی ہے اور شہریوں نے دارالحکومت سیئول میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔صدر یون نے منگل کی رات چار دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد جنوبی کوریا میں مارشل لا لگا کر اور فوج کو پارلیمنٹ میں تعینات کر کے اپنے شہریوں اور عالمی برادری کو حیران کر دیا تھا۔تاہم جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ میں قانون سازوں نے مارشل لا کے نفاذ کے صدارتی حکم نامے کو مسترد کر دیا تھا۔ایک مستحکم جمہوریت کے حامل ملک تصور کیے جانے والے جنوبی کوریا کے صدر نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔صدر یون نے ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے قوم سے خطاب میں کہا کہ ’مارشل لا کا اعلان صدر کی حیثیت سے میری مایوسی کی وجہ سے کیا گیا۔ تاہم میرا یہ عمل عوام کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث بنا۔ میں ان شہریوں سے تہہ دل سے معافی چاہتا ہوں جنہیں بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔‘حزب اختلاف اور صدر یون کی اپنی پارٹی کے اہم ارکان نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، اور پارلیمنٹ ان کے مواخذے کے لیے سنیچر کی شام ووٹنگ کرنے والی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما لی جے میونگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ یہ تحریک منظور ہو سکتی ہے۔پولیس نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک سے قبل صدر یون کے دسیوں ہزار مخالفین دارالحکومت سیئول کی سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔مظاہرے کا اعلان کرنے والے منتظمین کو توقع ہے کہ دو لاکھ لوگ احتجاج میں شرکت کریں گے۔صدر یون نے اپنے مختصر خطاب میں استعفیٰ دینے کی پیشکش نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ وہ ’اپنی عہدے کی مدت سمیت دیگر اقدامات کے لیے پارٹی کو سیاسی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے اختیارات کے استعمال کا کہیں گے۔‘صدر یون کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) اس معاملے پر منقسم ہے، قانون ساز جمعے کے رات تک اس حکومتی مؤقف پر قائم رہے کہ وہ مواخذے کو روکیں گے۔حکومتی پارٹی کے سربراہ ہان ڈونگ ہون بھی کہہ چکے ہیں کہ صدر یون کو جانا چاہیے ورنہ سیئول کو مزید سیاسی افراتفری کا خطرہ ہے۔ہان ڈونگ ہون نے سنیچر کی صبح صحافیوں کو بتایا کہ ’موجودہ حالات میں صدر کے فرائض کی ادائیگی جاری رکھنے سے معمول کے کام ناممکن ہیں، اور صدر کا جلد استعفیٰ ناگزیر ہے۔‘300 پر مشتمل پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے پاس 192 نشستیں ہیں، جبکہ صدر یون کی پیپلز پارٹی کے پاس 108 نشستیں ہیں۔صدر کے مواخذے کی تحریک کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے کے لیے حکومتی جماعت کے صرف آٹھ ارکان کی ضرورت ہے۔اگر پارلیمنٹ صدر کے مواخذے کی قرارداد منظور کرتی ہے تو آئینی عدالت کے فیصلے تک اُن کو عہدے سے معطل کر دیا جائے گا۔پولیس نے مبینہ بغاوت کے الزام میں صدر یون اور دیگر سے تفتیش شروع کی ہے۔صدر یون نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’میں مارشل لا کے اعلان کے حوالے سے قانونی اور سیاسی ذمہ داری کے معاملے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘صدر یون نے اپنے مختصر خطاب میں استعفیٰ دینے کی پیشکش نہیں کی۔ فوٹو: روئٹرزحزب اختلاف کے رہنما لی نے کہا کہ یون کا خطاب ’انتہائی مایوس کن‘ تھا کیونکہ بڑے پیمانے پر عوامی مطالبات کے پیش نظر ان سے استعفیٰ دینے کی امید تھی۔ان کا کہنا تھا کہ صدر یون کے خطاب سے ’شہریوں میں غصے کے احساس کو بڑھاوا ملا۔‘ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی افراتفری کا واحد حل ’صدر کا فوری استعفیٰ یا مواخذے کے ذریعے جلد رخصتی‘ ہے۔جمعے کو جاری ہونے والے ایک رائے عامہ کے سروے میں 63 سالہ صدر کی حمایت 13 فیصد کی ریکارڈ کم ترین سطح پر دیکھی گئی۔