اسلام آباد پولیس پر پختون شہریوں کو مبینہ طور پر نسلی بنیادوں پر گرفتار کرنے کا الزام، پولیس کی تردید

بی بی سی اردو  |  Dec 05, 2024

Getty Images

وزیراعلیٰخیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے وفاقی داراحکومت اسلام آباد میں خیبرپختونخواکے شہریوں کی گرفتاریوں کے معاملے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط نے تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد مبینہ طور پر نسل کی بنیاد پر پختون شہریوں کی گرفتاریوں کے الزام کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

علی امین گنڈا پور نے خط میں کہا ہے کہ ’یہ افراد عموماً کم اجرت والے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور حالیہ پرامن سیاسی احتجاج کے بعد غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنے ہیں اس لیے خیبرپختونخوا کے گرفتار شہریوں کو رہا کیا جائے۔‘

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد سے پولیس نے مبینہ طور پر نسلی امتیاز کی بنیاد پر گرفتاریوں سمیت دیگر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی کارکن وکیل ایمان مزاری کی جانب سے مختلف دعوے کیے گئے ہیں تاہم اسلام آباد پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حالیہ امنِ عامہ کی صورتحال کے دوران کسی بھی پرامن پشتون کو ہرگز حراست میں نہیں لیا گیا۔‘

’قانونی کارروائی شرپسند عناصر کے خلاف عمل میں لائی گئی ہے نہ کہ کسی قومیت یا علاقے کی بنیاد پر۔‘

پاکستان تحریکِ انصاف کا اسلام آباد کے لیے احتجاج ختم ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے لیکن اب بھی اس سے متعلق دعوؤں اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

ایمان مزاری نے دو روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’جس طرح سے پشتون لڑکوں کو ہراساں اور نسلی امتیاز کا شکار بنایا جا رہا ہے اور انھیں نجی گاڑیوں میں بٹھایا جا رہا ہے یہ بہت غلط ہے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اسلام آباد پشتونوں کے لیے نو گو ایریا بن چکا ہے جہاں پشتونوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے ہیں اور انھیں حراست میں رکھا جا رہا ہے۔‘

ایمان مزاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی ہم حراست میں لیے گئے افراد کی فہرست جمع کر رہے ہیں، جسے جلد شیئر بھی کیا جائے گا اور پھر مختلف وکلا سے درخواست کی جائے گی کہ وہ ان کی بریت کے لیے کوشش کریں۔‘

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے دعوے بھی سامنے آئے ہیں کہ اسلام آباد میں مختلف پولیس ناکوں پر مبینہ طور پر لوگوں کو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور شناختی کارڈز دیکھنے کے بعد گرفتار کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی تاحال اس دعوے کی آزادانہ تحقیق تو نہیں کر سکا ہے تاہم اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا ہے کہ ’یہ صرف کہانی ہے اور اس حوالے سے منظم پراپیگینڈا پھیلایا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد پولیس کے ہر ناکے پر موجود اہلکاروں کے پاس ایک ای پی پی نامی ایپ ہوتی ہے جس میں شناختی کارڈ نمبر یا گاڑیوں کے نمبر ڈال کر ان کے خلاف کسی غیر قانونی سرگرمی یا مقدمے کی تفصیلات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ اس کی مانیٹرنگ سینیئر افسران کی جانب سے کی جاتی ہے۔‘

ایمان مزاری نے تحریکِ انصاف کی قیادت پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور لیگل ٹیم نے پشتون کارکنوں کو مکمل طور پر بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور اٹک اور جہلم کی جیلوں میں قید سینکڑوں کارکنوں جنھیں نسلی امتیاز کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا ہے، کی بالکل مدد نہیں کی گئی۔‘

’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاایکس اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کی اصل ترجمانی کون کر رہا ہے؟مطیع اللہ جان اور محسن نقوی: نشئی کون؟پی ٹی آئی کارکن قیادت پر برہم: ’سب مرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اُن 300 زندوں کو نہیں جو خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘

خیال رہے کہ یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب تحریکِ انصاف کے احتجاج کے بعد وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے 31 دسمبر تک اسلام آباد سے افغان شہریوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن دی جا چکی ہے۔

اس حوالے سے اسلام آباد میں افغان شہریوں پر کریک ڈاؤن کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’پشتونوں کی نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ، ریڑھی بانوں، ٹیکسی ڈرائیوروں اور دکانداروں کی بلاجواز گرفتاریاں اور ان کے آنکھوں پر پٹی باندھنے جیسے سلوک پر بات کرنا نفرت کو بڑھا رہا ہے جبکہ ایسے اقدامات کرنے والے ریاستی اہلکار محبت بڑھا رہے ہیں۔ واہ! کیا استدلال ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلام آباد پولیس ہر ایسے شخص کو گرفتار کر رہی ہے جو پشتو بولتا ہے۔ پشتون بیروں، ریڑھی بانوں، مزدوروں اور یہاں تک کے صحافیوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔

’وہ صحافی حفیظ اللہ خٹک کی گرفتاری کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‘

عمران نامی صارف نے لکھا کہ ’ورکنگ کلاس پشتون اب اسلام آباد میں اپنے آپ کو بچانے پر مجبور ہو چکے ہیں اور کچھ کو تو کام بھی نہیں مل رہا حالانکہ وہ پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔‘

’میرے ہاتھوں پر شوہر کا خون ہی خون تھا‘: پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھاایکس اکاؤنٹ یا پارٹی قیادت، عمران خان کی اصل ترجمانی کون کر رہا ہے؟پاکستان میں ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثر: ’اب تو وی پی این تبدیل کر کے بھی کچھ نہیں ہو رہا‘مطیع اللہ جان اور محسن نقوی: نشئی کون؟پی ٹی آئی کارکن قیادت پر برہم: ’سب مرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں مگر اُن 300 زندوں کو نہیں جو خان کے نام پر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں‘رینجرز کی ڈی چوک پر کارکن کو کینٹینر سے دھکا دینے کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More