Getty Images
انڈیا کے شہر چنئی کی 17 سالہ کاظمہ نے امریکہ میں ہونے والی ورلڈ کیرم چیمپیئن شپ کی تین کیٹیگریز میں گولڈ میڈل جیت کر نہ صرف اپنے ملک کا نام روشن کیا بلکہ اپنے والدین کے خواب پورے کر کے بھی ان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
کاظمہ کے والد ایک آٹو رکشہ چلاتے ہیں اور خود بھی کیرم کے کھیل کا شوق رکھتے ہیں۔
کاظمہ نے کیلیفورنیا میں منعقدہ حالیہ ورلڈ کیرم چیمپئن شپ میں سنگلز، ڈبلز اور ٹیم گیمز کی تین کیٹیگریز میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔
ان کے والد محبوب پاشا کا کیرم کا شوق کاظمہ کے عالمی چیمپئن کے سفر کی وجہ بنا ہے۔ کاظمہ کے بڑے بھائی عبدالرحمان نے کیرم میں قومی سطح پر کامیابی حاصل کی ہے۔
وہ جب قومی چیمپیئن بنے تو ان کے اعزاز میں اہلِ علاقہ نے ایک تقریب کا انعقاد کیا تھا جس دوران بھائی کی پذیرائی دیکھ کر کاظمہ کے دل میں بھی چمپیئن بننے کی خواہش پروان چڑھی۔
’جب میں نےدیکھا کہ لوگ ان کو کتنی عزت دے رہے ہیں تو میں نے بھی ٹھان لی کہ کیرم کھیل کر چیمپیئن بنوں گی۔‘
Getty Images’عالمی چیمپئن بننے کے ہدف کے ساتھ کھیلا‘
کاظمہ کی بڑی بہن آسینہ بھی جب چھوٹی تھیں تو ان کو کیرم میں بے حد دلچسپی تھی تاہم ان کو کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔
’اس وقت میری دادی نے مجھے کھیلنے کی اجازت نہیں دی۔ میرے چھوٹے بھائی کے جیتنے کے بعد کاظمہ کو اچھا موقع ملا۔‘ خود کاظمہ اپنی جیت پر بے حد خوش ہیں۔
’میرے والد رکشہ چلاتے ہیں اور میں بہت خوش ہوں کہ میرے والد کا خواب پورا ہو گیا ہے۔‘
یہ کہنے کے دوران انھوں نے سامنے لگے آئینے کی طرف اشارہ کیا جہاں چار سال پہلے لکھی گئی ان کے ہاتھ کی تحریر تھی ’میں عالمی چیمپئن ہوں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں یقین تھا کہ وہ گولڈ میڈل جیت لیں گی تو انھوں نے کہا کہ ’بے شک اسی لیے میں جیتنے میں کامیاب رہی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے عالمی چیمپیئن بننے کے ہدف کے ساتھ کھیلا تھا۔‘
BBCکاظمہ نے کہا کہ ’میں نے عالمی چیمپئن بننے کے ہدف کے ساتھ کھیلا تھا۔‘ایک تناؤ کا اختتام
کاظمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ورلڈ کپ فائنل کے وہ لمحات بیان کیے جب جیت سے قبل ان پر تناؤ کی کیفیت حاوی تھی۔
’جب میں نے کھیلنا شروع کیا تو حریف کے 19 پوائنٹس تھے، میں صفر پر تھی۔ اگر میرے مد مقابل کو مزید چھ پوائنٹس مل جاتے تو عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز اسے ملتا۔‘
انھوں نے کہا کہ’مجھے نہیں سمجھ آیا کہ کیا کروں تاہم کچھ دیر آرام کر کے میں نے خود کو حوصلہ دیا۔ پھر ایک موقع پر ہم دونوں نے 24 پوائنٹس بنائے۔ جو بھی اگلا میچ جیتتا وہ عالمی چیمپئن بنتا۔
’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں اس جگہ واپس آ سکوں گی یا نہیں، کسی نہ کسی طرح جیتنے کا دباؤ تھا۔ پھر میں نے تمام خیالات کو ایک طرف رکھ دیا اور اپنی پوری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا اور میں فتح پائی۔‘
کاظمہ کے مطابق ’ایک محنتی شخص بڑی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔ سکہ کس رخ گرے گا اسے اس کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ جیت اسی کی ہو گی۔‘
ورلڈ کپ کے ساتھ سماجی نقطہ نظر کو بدل دیاBBCکاظمہ کے والد محبوب پاشا چھ سال کی عمر سے ان کے ابتدائی کوچ رہے ہیں
کاظمہ کے لیے یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ انھیں ایک روایت پسند معاشرے کا فرد ہونے کے ناطے سب سے پہلے اپنے آس پاس کے لوگوں کی تنقید کا سامنا رہا جنھوں نے خصوصاً کھیل کے دوران پہنے جانے والے لباس کو نشانہ بنایا تھا۔
ان کی جانب سے سوالات کا جواب انھوں نے اپنی جیت سے دیا۔
’انھوں نے بہت باتیں بنائیں۔ آخر یہ سب ایک لڑکی کیوں کر رہی ہے، کیوں باہر جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان باتوں کا میرے ذہن پر کوئی منفی اثر نہ ہو۔‘
’میں نے اپنا جواب مکمل طور پر کھیل کے ذریعے دیا۔ اب جبکہ ورلڈ کپ جیت گئی تو باتیں کرنے والے آج مبارکباد دے رہے ہیں۔‘
اپنے والد کی قلیل آمدنی کے پیش نظر کاظمہ کے خاندان کے لیے ان کے کھیل کی ضروریات بشمول بیرون ملک سفر کرنا ایک چیلنج رہا ہے۔کاظمہ نے بتایا کہ ورلڈ کپ کے سفر سے قبل ان کا ویزا دو بار مسترد کیا گیا تھا۔
ویزا انٹرویو تک پہنچنے کے لیے انھیں دوسروں سے قرض لینا پڑا۔
’اچانک مجھے ممبئی میں انٹرویو کے لیے جانا پڑا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ہوائی جہاز سے جانا پڑا۔اگر میں نہیں جیتتی تو یہ تمام اخراجات رائیگاں جاتے۔
تمل ناڈو کے محکمہ کھیل نے انھیں ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے مالی مدد فراہم کی تھی۔
BBCکاظمہ کی بڑی بہن آسینہ بھی جب چھوٹی تھیں تو ان کو کیرم میں بے حد دلچسپی تھی تاہم ان کو کھیلنے کا موقع نہ ملاقومی چیمپئن تیار کرنے والا کلب
کاظمہ کے والد ان کے ابتدائی کوچ رہے ہیں۔ اپنے والد محبوب پاشا کے ساتھ چھ سال کی عمر سے وہ کیرم کھیل رہی ہیں۔
محبوب پاشا نے بتایا کہ ’میرے والد کیرم کھیلا کرتے تھے۔ انھیں دیکھ کر میں کھیلنے لگا۔ پھر ہم سڑکوں پر کھڑے ہوتے اور پانی کے ڈرموں پر تختیاں لگا کر کھیلتے۔‘
کیرم گیم میں دلچسپی انڈیا کے جنوبی حصوں کی نسبت چنئی کے شمالی حصوں میں زیادہ ہے۔
’اس علاقے میں زیادہ تر لوگ مزدور اور ماہی گیر ہیں۔ کرکٹ جیسا کھیل کھیلنے کے لیے ایک بڑے میدان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں اگر آپ کے پاس پانی کا ڈرم ہے، تو آپ سڑک پر ہی کیرم کھیل سکتے ہیں۔ یہ اس علاقے کے لوگوں کے لیے ایک آسان تفریح ہے۔‘
گذشتہ 14 سالوں سے محبوب پاشا اپنے علاقے میں ’چیریان نگر کوچنگ سینٹر‘ کے نام سے کیرم کلب چلا رہے ہیں۔
اپنے کلب کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ کلب ایک کھجور کے شیڈ میں بنا ہوا تھا اس کا رقبہ تقریباً 200 مربع فٹ ہے۔ بارش کی صورت میں بعد ہم کیرم بورڈ کی شیٹ لےکر بھاگتے تھے اور اب بھی اگر بارش کے دوران مشکل ہوتی ہے۔‘
انھوں نے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معیاری کیرم بورڈ ممبئی سے تقریباً 10 ہزار میں ملے گا۔
محبوب پاشا کو اس بات پر فخر ہے کہ اس کیرم کلب سے 14 قومی چیمپئن بنے۔
’ضلعی سطح پر صرف انھی 16 لوگوں کو مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع ملے گا جو مختلف مقامات کے ہیں تاہم ان میں سے چھ یا سات ہمارے کلب کے بچے ہوں گے۔ اسی طرح تین یا چار کو ریاستی سطح پر مقبولیت ملے گی۔‘
محبوب پاشا کو امید ہے کہ عالمی سطح پر کاظمہ کی کامیابی سے ان کے کلب کو بین الاقوامی مقابلوں کے لیے بنیادی سہولیات اور تربیت فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔
شطرنج کی بساط پر انڈیا کس طرح عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے’کرکٹ کے لیے سیاست چھوڑنے والے‘ گوتم گمبھیر انڈیا کے سب سے کم عمر ہیڈ کوچ کیسے بنےسچن تندولکر کا ریکارڈ توڑنے والی انڈین کرکٹر